ممکنہ سیاسی تبدیلی – پولیس پر سندھ حکومت کی گرفت کمزور کرنے کیلئے اقدامات شروع
کراچی (رپورٹ: نواز بھٹو) وفاقی حکومت نے سندھ میں ممکنہ سیاسی تبدیلی کے پیش نظر پولیس کو غیر جانبدار بنانے کے لئے اقدامات اٹھانا شروع کر دئیے۔ پہلے مرحلے میں پولیس پر دباؤ بڑھایا جا رہا ہے کہ وہ مکمل طور پر غیر جانبدار رہے۔وفاقی حکومت کے ان اقدامات کا مقصد پی پی کے اراکین سندھ اسمبلی کو پارٹی قیادت کے دباؤ سے تحفظ دلانے کا پیغام دینا ہے۔ پی پی کے ناراض اراکین اسمبلی کو انفرادی طور پر بھی اس بات کی یقین دہانی کرائی جا رہی ہے کہ ان کے خلاف پولیس کو استعمال ہونے نہیں دیا جائے گا۔ پی ٹی آئی کے اراکین قومی اسمبلی نے گورنر سندھ عمران اسماعیل کی قیادت میں وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات میں شکایت کی تھی کہ سندھ حکومت پولیس کو سیاسی مخالفین کو کچلنے کے لئے استعمال کر رہی ہے۔اراکین اسمبلی کی شکایت پر وزیر اعظم نے سندھ حکومت پر صوبے کی پولیس کو سیاست زدہ کرنے کا الزام عائد کر تے ہوئے صاف لفظوں میں کہا کہ صوبائی حکومت پولیس کی کارکردگی پر اثر انداز ہو رہی ہے۔ گزشتہ روز محکمہ داخلہ اور آئی جی سندھ کو وزیر اعظم آفس سے ارسال کئے جانے والے لیٹرNo.1224/PSO(PM) /PAU-I/2018 کے ذریعے وزیر اعظم آفس میں سندھ سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے اراکین قومی اسمبلی اور گورنر سندھ کی ہونے والی ملاقات میں کئے جانے والے فیصلوں سے آگاہ کیا گیا ہے۔ محکمہ داخلہ اور آئی جی سندھ کو اس ملاقات کے مندرجات بھی ارسال کئے گئے ہیں ،جو 4 صفحات پر مشتمل ہیں اوران میں وزیر اعظم آفس کالیٹر بھی شامل ہے۔ ملاقات کی روشنی میں کئے جانے والے فیصلوں میں حکومت سندھ کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ پولیس کو غیر سیاسی بنانے کے لئے ٹھوس اقدامات کرے ۔ جاری لیٹر میں وفاقی حکومت کی طرف سے سندھ پولیس کے پی ایس پی اور پی اے ایس افسران کو ہدایت کی ہے کہ وہ انتظامی معاملات میں مکمل طور پر غیر جانبدار رہیں ۔مزید کہا گیا ہے کہ پولیس کے اعلیٰ افسران صوبے میں قانون کی بالادستی کو قائم رکھنے کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔ وفاقی حکومت کے ان فیصلوں سے متعلق وزارت داخلہ اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو آگاہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ایک ہفتے کے اندر عملدرآمد کو یقینی بنائیں۔حاصل کی جانے والی دستاویزات کے مطابق یہ ملاقات 13 نومبر کو ہوئی تھی ۔ ملاقات کرنے والوں میں گورنر سندھ عمران اسماعیل، اراکین قومی اسمبلی میں جیکب آباد سے محمد میاں سومرو، گھوٹکی سے علی محمد مہر، کراچی سے جمیل احمد خان، محمد اکرم، فہیم خان، سیف الرحمٰن ، سید علی حیدر زیدی، عبد الشکور شاہ، آفتاب صدیقی، فیصل واوڈا، آفتاب جہانگیر، محمد اسلم خان، محمد نجیب ہارون شامل تھے ۔ وفد میں شامل اراکین اور گورنر سندھ نے وزیر اعظم کو آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے سندھ پولیس کو سیاست زدہ کر دیا ہے اور پولیس کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے ،جس کی وجہ سے سندھ پولیس کی کارکردگی متاثر ہو رہی ہے۔پی پی حکومت کی طرف سے سیاسی مخالفین کو کچلنے کے لئے ان کے خلاف جھوٹے مقدمات دائر کئے جاتے ہیں اور اینٹی کرپشن جیسے اداروں کو استعمال کیا جاتا ہے۔ پی پی قیادت کی بات نہ ماننے پر جامشورو اور تھانہ بولا خان کے ملک اسد سکندر کو اپنی ہی پارٹی کی طرف سے سخت انتقامی کارروائی کا نشانہ بنایا گیا ۔ مخالفین میں لاڑکانہ کا انڑ خاندان، تھر کا ارباب غلام رحیم، ٹھٹھہ کے شیرازی شامل ہیں ،جو مسلسل پی پی قیادت کے نشانے پر رہے ہیں۔پی پی کے ناراض اراکین کی حمایت حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ پولیس کو حکومت کے دباؤ سے آزاد کیا جائے ۔ ذرائع کے مطابق یہ بھی الزام عائد کیا گیاکہ سندھ پولیس پر حکومت کے اثر انداز ہونے کی وجہ سے کراچی کے حالات خراب ہو رہے ہیں اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے اور پولیس اسٹریٹ کرائم کی روک تھام میں بھی کامیابی حاصل نہیں کر پا رہی ۔ ذرائع کے مطابق اس موقع پر یہ بھی الزام عائد کیا گیا کہ سندھ حکومت پولیس کو سیاسی مخالفین کے خلاف بھی استعمال کر رہی ہے اور اس کا سب سے زیادہ استعمال اندرون سندھ میں کیا جا رہا ہے ،جس سے سندھ پولیس کا معیار بڑی تیزی سے گر رہا ہےاندورن سندھ میں مخالفین کو کچلنے کے لئے ‘‘ ہاف فرائی اور فل فرائی ’’ جیسی اصطلاحات استعمال کی جاتی ہیں ۔ اراکین کا کہنا تھا کہ اندرون سندھ میں پولیس حکومت کے آلہ کار کے طور پر کام کر رہی ہے ،جس کو غیر جانبدار بنانا بہت ضروری ہے ،ورنہ مستقل امن قائم نہیں رکھا جا سکتا۔ذرائع کے مطابق وزیر اعظم نے اس ملاقات کی روشنی میں وزارت داخلہ کے حکام کو بھی طلب کر لیا تھا ۔ ذرائع کے مطابق وزارت داخلہ کے حکام نے گورنر سندھ اور اراکین قومی اسمبلی کے موقف کی تائید کی اور وزیر اعظم کو آگاہ کیا کہ نیکٹا کی طرف سے متعدد مرتبہ لیٹر ارسال کئے جانے کے باوجود گزشتہ کافی عرصے سے زیر التوا پالیسی امور کو نہیں نمٹایا جا رہا۔ اجلاس میں شریک ایک رکن قومی اسمبلی کے مطابق وزیر اعظم نے وزارت داخلہ کو تفصیلی رپورٹ ارسال کرنے کی ہدایت کی اور کہا کہ یہ بھی بتایا جا ئے کہ نیشنل ایکشن پلان پر صوبائی حکومت نے کتنا عملدرآمد کیا ہے ۔
ڈہرکی (رپورٹ: میر عابد بھٹو)تحریک انصاف کی طرف سے سندھ میں پیپلز پارٹی حکومت کے خاتمے کی کوششوں میں تیزی آگئی۔ گھوٹکی میں گورنرسندھ سے مذاکرات کے دوران مہرگروپ نے وزارت اعلیٰ مانگ لی ،جس پر پی ٹی آئی نے فی الحال خاموشی اختیار کرلی ہے۔ذرائع نے بتایا کہ گزشتہ رات مہر گروپ سربراہ علی گوہر خان مہر کے تار والے بنگلے پر جی ڈی اے رہنمااور مہر گروپ سربراہ علی گوہر خان مہر، گورنر سندھ عمران اسماعیل، پی ٹی آئی صوبائی جنرل سیکریٹری حلیم عادل شیخ، وفاقی مملکتی وزیر داخلہ شہریار خان آفریدی، وفاقی وزیر نارکوٹیکس علی محمد خان مہر، ایم این اے غوث بخش خان مہر، یو اے ای کے تعلیم اور کھیل کے وزیر شیخ نہان المبارک اور دیگر میں اہم مذاکرات ہوئے۔ ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ اس اہم ملاقات میں مہر گروپ سربراہ علی گوہر خان مہر نے پی ٹی آئی سے سندھ میں وزارت اعلیٰ مانگ لی ہے، علی گوہر خان مہر نے کہا کہ میرے اس وقت بہت سے اراکین سندھ اسمبلی مجھ سے رابطے میں ہیں اور مزید بھی رابطے میں آئیں گے، اس لئے وزارت اعلیٰ پر میرا حق ہے، اس موقع پر پی ٹی آئی رہنماؤں نے کہا کہ جو لیڈر شپ فیصلہ کرے گی ،وہی فیصلہ سب کو قبول کرنا پڑے گا۔ دوسری طرف علی گوہر خان مہر نے اپنے تمام اتحادیوں کو گوہر پیلس طلب کرلیا، جس میں سابقہ ایم این اے میاں مٹھو، سابقہ ایم پی اے سردار رحیم بخش خان بوزدار، ایم پی اے شہریار خان شر، گھوٹکی میونسپل کے چیرمین سید اصغر شاہ، سید مہتاب شاہ، ہالار خان پتافی سمیت دیگر نے شرکت کی، علی گوہر خان مہر نے اپنے اتحادیوں کی گورنر سندھ سے ملاقات بھی کرائی، اتحادیوں نے گورنر سندھ کو علی گوہر خان مہر کو وزیرعلیٰ سندھ بنانے کا مطالبہ کیا، دوسری طرف سابقہ ایم این اے میاں عبدالحق عرف میاں مٹھو کی گورنر سندھ عمران اسماعیل سے بھی ملاقات کی ہے، گورنر سندھ نے میاں مٹھو سے کہا کہ تمہاری کی گئی تمام پیشنگوئی سچ ثابت ہونے جارہی ہیں، زرداری جلد جیل میں جائے گا، سندھ میں فاروڈ بلاک بھی بنے گا، دوسری طرف علی گوہر خان مہر کے وزارت اعلیٰ کے مطالبے کے بعد پی ٹی آئی رہنماخاموش ہوگئے اور مزید ملاقاتیں کرنے پر اتفاق کیا گیا، اس موقع پر گوہر پیلس میں پی ٹی آئی سندھ کے جنرل سیکریٹری اور ایم پی اے حلیم عادل شیخ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ جلد سندھ کی عوام جلد خوشخبری سنے گی، سندھ میں کوئی فارورڈ بلاک نہیں بن رہا ہے ،بلکہ بلاک ضرور بن رہا ہے، انہوں نے کہا کہ سندھ بھی پاکستان کا حصہ ہے، مذاکرات آگے بڑھنا شروع ہوگئے ہیں ،جس کی شروعات گھوٹکی سے ہوچکی ہے، سندھ میں اہم سیاسی شخصیات ہمارے ساتھ رابطے میں ہیں، اس موقع پر علی گوہر خان مہر نے کہا کہ ضلع گھوٹکی 10 ارب روپے رائلٹی ہے ، جس سے آج تک محروم ہے، پیپلز پارٹی کی حکومت پانچ مرتبہ آئی لیکن ضلع گھوٹکی رائلٹی دینے میں دیوار بن گئی، اسمبلی فلور پر احتجاج کرنے کے باجود کچھ نہیں ملا ہے، تحریک انصاف سے اچھی امید کی توقع ہے، عمران خان خانگڑھ کا دورہ کریں گے تو تمام مسائل سامنے رکھیں گے۔ دوسری طرف عمران اسماعیل صحافیوں سے بات چیت کرتے پی ٹی آئی پر ہارس ٹریڈنگ کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی خود اپنے اراکین کو سنبھالے ،جن میں سے فارورڈ بلاک بننے کا خطرہ ہے، اگر پیپلز پارٹی میں فارورڈ بلاک بن رہا ہے تو یہ اس کا مسئلہ ہے، انہوں نے کہا کہ ہم سندھ میں سیاستدانوں کی خرید و فروخت نہیں کر رہے ہیں، سندھ میں کوئی بھی ہارس ٹریڈنگ نہیں ہو رہی ہے، ہارس ٹریڈنگ اتنی خراب ہے ،جتنی کرپشن ہے، اس لئے ہارس ٹریڈنگ کرنے والوں کو بھی نہیں چھوڑیں گے، انہوں نے مزید کہا کہ پی ٹی اے نے چار ماہ میں جو کچھ کیا ،وہ خوابوں میں بھی سوچ نہیں سکتا، خورشید شاہ خود اس ٹولے کا حصہ ہے ،جہاں سے جی آئی ٹی کی شروعات ہوئی ہے، میرے پاس الفاظ نہیں ہیں، پیپلز پارٹی والوں کو کیا کہہ سکتا ہوں، پیپلز پارٹی والے خود بوکھلاٹ کا شکار ہوگئے ہیں، وقت آگیا ہے کہ ملک سے لوٹی ہوئی دولت واپس کرائی جائے، سکھر ضلع کا بنیاد ڈھانچھ تباہ ہے، گورنر سندھ عمران اسماعیل خانگڑہ کا 2 روزہ دورہ مکمل کرنے کے بعد واپس کراچی روانہ ہوگئے۔