ذیشان اشرف/ عظمت علی رحمانی
کراچی کے علاقے کورنگی میں رہنے والے نابینا لڈو فروش محمد لیاقت کے نام پر بھی سمٹ بینک میں کھولے گئے اکائونٹ میں سوا دو کروڑ روپے جمع کرائے گئے۔ تل کے لڈو فروخت کرکے پیٹ کی آگ بجھانے والے محمد لیاقت کا آبائی تعلق پنجاب کے ضلع قصور سے ہے۔ وہ 1981ء میں کراچی آیا تھا۔ جامعہ ابوبکر گلشن اقبال میں قرآن کریم پڑھا اور انٹر تک پرائیویٹ تعلیم بھی حاصل کی۔ صدر ایمپریس مارکیٹ کے قریب تل کے لڈو بیچنے والے محمد لیاقت کے گھر پر دو روز قبل ایف بی آر کے اہلکار پہنچے تو معلوم ہوا کہ محمد لیاقت یہ رہائش چھوڑ چکے ہیں، جس کے بعد اس سے موبائل فون پر پوچھ گچھ کیلئے رابطہ کیا گیا۔
اس ضمن میں تفصیلات بتاتے ہوئے محمد لیاقت نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ’’مجھے 27 دسمبر کو فون آیا کہ ہم آپ سے ملنے آئے ہیں اور ہم آپ کے شناختی کارڈ والے ایڈریس پر ہیں۔ یہ ایڈریس برزٹا لائن میں میری سسرال کا تھا۔ میں نے وجہ معلوم کی تو انہوں نے کہا کہ انکوائری کرنے آئے ہیں۔ جس کے بعد میں بزرٹا لائن اپنے سسرال پہنچا تو ایف بی آر اہلکاروں نے مجھے دیکھتے ہی کہا کہ لگتا ہے آپ کو پھنسایا گیا ہے۔ آپ کا شناختی کارڈ بینک اکائونٹ بنانے میں استعمال کیا گیا ہے۔ بعد میں انہوں نے مجھے کچھ ڈاکومنٹس دیئے۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا کبھی سینٹرون ٹریڈکمپنی میں کام کرتے تھے؟ آپ نے اس کمپنی سے کتنی تنخواہ لی ہے؟ میں نے انہیں بتایا کہ میں نے کبھی بھی اس کمپنی میں کام نہیں کیا ہے۔ ہاں، البتہ میرا شناختی کارڈ تین مرتبہ گم ہوا تھا اور ہر بار میں نے ایف آئی آر درج کرائی تھی۔ ایک بار سولجر بازار، پھر بلوچ کالونی تھانہ اور تیسری مرتبہ صدر تھانے میں ایف آئی آر درج کرائی۔ انہوں نے مجھے کہا کہ ہم اس کمپنی تک پہنچ گئے ہیں اور آپ کی تردید کے بعد اس کمپنی کے خلاف کارروائی کریں گے‘‘۔
محمد لیاقت کا مزید کہنا تھا کہ ’’ایف بی آر والوں نے بتایا کہ تمہارا سمٹ بینک میں اکاؤنٹ ہے، جس میں دو کروڑ روپے سے زائد کی رقم جمع کرائی گئی۔ مجھے تعجب ہوا کہ میں نے تو کبھی سمٹ بینک میں اکاؤنٹ ہی نہیں کھلوایا۔ میں نے مسلم کمرشل بینک اور حبیب بینک میں اکاؤنٹ کھلوائے تھے، جن میں سے حبیب بینک والا اکاؤنٹ میری شادی سے قبل ہی بند ہوگیا تھا۔ جبکہ دوسرا میں نے شادی کے بعد بند کرا دیا تھا‘‘۔
محمد لیاقت کا کہنا تھا کہ ’’میری پیدائش 5 ستمبر 1968ء کی ہے۔ میرا آبائی گاؤں پنجاب کا ضلع قصور ہے۔ ہم 4 بھائی اور دو بہنیں ہیں۔ میری شادی 9 جولائی 2010ء کو ہوئی تھی۔ میں یہاں کراچی میں اپنی اہلیہ کے ساتھ رہتا ہوں اور میرا 6 سالہ بیٹا عبداللہ گاؤں میں میری والدہ کے پاس رہتا ہے۔ میرا سب سے چھوٹا بھائی بھی نابینا ہے۔ میں نے گاؤں میں واقع مدرسہ تعلیم الاسلام میں حافظ مشتاق احمد صاحب سے قرآن کی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ 1981ء میں کراچی آگیا تھا۔ یہاں آکر جامعہ ابوبکر الاسلامیہ گلشن اقبال سے قرآن پاک کی مکمل تعلیم حاصل کی۔ اس دوران میری طبیعت کافی ناساز رہنے لگی تھی اور یوں میں حفظ مکمل نہیں کر سکا۔ تاہم کچھ عرصہ بعد پرانی نمائش پر واقع نابیناؤں کے اسکول میں داخلہ لے لیا۔ اس کے بعد پرائیویٹ میٹرک اور انٹر کیا۔ مختلف محکموں میں نوکری کی تلاش بھی کی، تاہم ہم جیسوں کو نوکری نہیں ملتی۔ پیٹ پالنے کیلئے کافی عرصے گلبہار میں انڈے فروخت کرتے رہا۔ اس حوالے سے نایاب بیکری والوں نے مجھ سے بہت تعاون کیا۔ وہ مجھے سستے داموں انڈے دیتے تھے، جو میں ابال کر گلیوں اور محلوں میں گھوم کر فروخت کرتا تھا۔ اس کے بعد میں سہراب گوٹھ میں ونڈر بریڈ کے نام سے قائم ایک ڈبل روٹی فیکٹری میں شام کو کام کرتا رہا۔ مجھے چونکہ ٹھیک طرح دکھائی نہیں دیتا ہے، اس لئے شروع میں مشکلات کا سامنا رہا‘‘۔ محمد لیاقت نے بتایا کہ ’’مجھے جمعیت غربا اہلحدیث نے کورنگی کراسنگ گلشن سکندر میں فلیٹ دے رکھا ہے۔ میں نے کبھی کرائے کا مکان نہیں لیا۔ اس سے پہلے بھی ایک صاحب نے مجھے مفت میں رہائش فراہم کر رکھی تھی۔ آج کل میں صدر ایمپریس مارکیٹ میں تل کے لڈو فروخت کرتا ہوں، جہاں سے یومیہ دو سے ڈھائی سو روپے کما پاتا ہوں۔ ان ہی پیسوں میں سے گاؤں میں والد ہ کو پیسے بھیجتا ہوں اور خود اپنا خرچ بھی چلاتا ہوں۔ تنگی و ترشی کا یہ عالم ہے کہ مہینے کے کئی روز ایسے گزرتے ہیں کہ صبح ناشتے میں رات کی بچی ہوئی روٹی پانی میں بھگو کر کھانی پڑتی ہے۔ گوشت کھائے کئی ہفتے گزر جاتے ہیں۔ بیمار پڑ جائیں تو میڈیکل اسٹور والے سے پیناڈول یا کوئی اور گولی لے کر ہی کام چلا لیتے ہیں۔ آپ خود سوچیں کہ ایسے بے کس و مجبور کے نام پر کوئی حرام کمائی کے کروڑوں روپے جمع کرائے، جس سے اس غریب کو ذہنی اذیت پہنچے، تو یہ کیسی سفاکی اور سنگ دلی ہوگی۔ مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ میری غریبی کا مذاق اڑایا گیا ہے۔ اس موقع پر میں حکومت سے اپیل کرتا ہوں کہ جن غریبوں کے نام پر اکائونٹ بنا کر اربوں کھربوں جمع کرائے گئے، ان لاچار لوگوں کی داد رسی کی جائے۔ کچھ مالی امداد ضرور کی جائے، تاکہ انہیں پہنچنے والی ذہنی اذیت کا کچھ مداوا ہو سکے‘‘۔