نجم الحسن عارف
ملک کے موثر سیاسی حلقے اور مقتدر حلقوں کے درمیان حالیہ چند ہفتوں سے شروع ہونے والوں رابطوں کے بعد اس امر کا امکان بڑھ گیا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کی عدم کارکردگی کو روک لگائی جائے اور ایسا راستہ نکالا جائے، جو سبھی فریقوں کیلئے قابل قبول ہو۔ ’’امت‘‘ کے ذرائع نے ایک ہفتہ قبل یہ اطلاع دی تھی کہ سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کو پنجاب میں اعلیٰ ترین انتظامی عہدے کی پیش کش کی جا رہی ہے۔ اس پیش کش کا چوہدری نثار کے قریبی ذرائع نے خود اعتراف کیا، اور یہ بھی اشارہ دیا کہ اس تجویز کی مقتدر حلقوں اور پی ٹی آئی کی جانب سے بھی حمایت کا امکان یقینی ہے۔ جبکہ نواز لیگ بھی مخالفت نہیں کرے گی۔
’’امت‘‘ کے ذرائع کے مطابق مشرف دور کے دو اہم وفاقی وزرا جنہیں وزارت اطلاعات و نشریات کا قلمدان رکھنے کا اعزاز مل چکا ہے، اسلام آباد اور راولپنڈی کے مقتدر حلقوں میں جاری سوچ بچار کو اسی سبب اپنے اپنے انداز میں بیان کر رہے ہیں۔ واضح رہے کہ وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے چند روز قبل یہ اطلاع دی تھی کہ قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف اپنی دوسری اہلیہ تہمینہ درانی کے ذریعے این آر او کی کوشش کر رہے ہیں۔ تاہم نواز لیگی ذرائع اس کی تصدیق سے گریزاں تھے۔ البتہ ان لیگی ذرائع نے اس امر کی تصدیق ضرور کی کہ میاں شہباز شریف کے مقتدر حلقوں سے رابطے اور ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ ان ذرائع نے یہ بھی کہا کہ میاں شہباز شریف کو نیب کیسز میں زیر حراست ہونے کے باوجود قومی اسمبلی کے اندر ہی نہیں، منسٹر کالونی میں ملنے والی سہولتیں بھی اسی سبب ہی آسان ہوئی ہیں۔ ذرائع کے مطابق ان رابطوں کو میاں نواز شریف کی تائید بھی حاصل ہے، تاہم میاں نواز شریف زیادہ پُر امید نہیں ہیں۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا تھا کہ میاں نواز شریف یہ نہیں چاہتے کہ ان کی مزاحمتی سیاست کا حال ہی میں شروع ہونے والا بیانیہ مجروح نہ ہو۔ اس لئے انہیں ’’سیف پیسج‘‘ کے ساتھ ساتھ فیس سیونگ بھی چاہئے۔ اسی وجہ سے ان رابطوں کے باوجود میاں نواز شریف نے ایک مرتبہ جیل جانے کو بخوشی قبول کیا۔
دوسری جانب سابق وزیر اطلاعات محمد علی درانی نے اسی ماحول میں یہ انکشاف کر دیا ہے کہ پنجاب میں قائد ایوان کی تبدیلی کی تیاری ہو رہی ہے۔ نیز طبی بنیادوں پر زیر حراست میاں شہباز شریف کو بیرون ملک جانے کی اجازت مل سکتی ہے، تاکہ وہ بیرون ملک سے علاج کرا سکیں۔ محمد علی درانی کے ان انکشافات نے سیاسی اور ابلاغی حلقوں میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ مبصرین نے ایون فیلڈ کیس میں سزا یافتہ ہونے کے بعد میاں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) محمد صفدر کی عدالت سے عبوری ریلیف کے طور پر رہائی کے بعد اختیار کردہ خاموشی کو باقاعدہ معافی کہنا شروع کر دیا ہے۔ ’’امت‘‘ نے اس پس منظر سے سابق وزیر اطلاعات محمد علی درانی سے بات کی تو وہ نہ صرف یہ کہ اپنے ان انکشافات پر بڑے یکسو اور مستحکم تھے، بلکہ انہوں نے اس سے آگے کے حوالے سے بھی اپنے تجزیئے کی بنیاد پر اطلاع دی ہے۔ ایک سوال پر سابق وزیر اطلاعات نے کہا کہ یہ مرحلہ اگلے ماہ مارچ تک آ سکتا ہے۔ ان کے بقول انہیں ملک کے سیاسی پس منظر سے لگتا ہے کہ اس وقت سارے معاملات طے ہو جائیں گے۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ’’مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے قائد میاں نواز شریف یہ پسند کریں گے، کیونکہ کئی ماہ سے ان کی اور مریم نواز کی خاموشی اسی سبب ہے۔ مستقبل کے امکانات کو زیر بحث لاتے ہوئے میں یہ سمجھتا ہوں کہ میاں نواز شریف کو ’’محفوظ سیاسی راستہ برائے محدود سیاست‘‘ دیا جائے گا۔ اس بارے میں مجھے معاملات طے ہونے کا قوی امکان ہے۔ نہ صرف یہ کہ میاں نواز شریف اور مریم نواز کی لمبی خاموشی اس حوالے سے ایک اہم دلیل ہے کہ وہ بھی مستقبل میں اپنی ضروریات اور تجدیدات کو سمجھتے ہیں، بلکہ انہوں نے اپنی جماعت کے یوم تاسیس کی تقریبات کو بھی چپ چاپ اور ٹھنڈا رکھنے کی ہدایات جیل سے دیں۔ اس لئے میں نہیں سمجھتا کہ کسی مرحلے پر ان کی طرف سے کوئی رکاوٹ ہوگی، بلکہ سب معاملات طے ہو جائیں گے‘‘۔ ایک اور سوال پر سابق وفاقی وزیر اطلاعات محمد علی درانی نے کہا کہ ’’جہاں تک میاں شہباز شریف کے علاج کے حوالے سے بیرون ملک چلے جانے کا امکان ہے۔ میں خیال کرتا ہوں کہ وہ ماہ جنوری کے اواخر یا ماہ فروری کے آغاز میں چلے جائیں گے‘‘۔ جب ان سے کہا گیا کہ میاں شہباز شریف کی بیماری کی موجودہ علامات تو ایسی نہیں کہ انہیں جنوری یا فروری میں علاج کے لئے ملک سے باہر بھجوانا لازمی ہو جائے؟ تو سابق وزیر اطلاعات نے مسکراتے ہوئے کہا ’’اس وقت شاید بیماری کی ایسی حالت ہو جائے۔ تاہم میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اس بارے میں سارے معاملات ابھی طے نہیں پائے ہیں لیکن طے ضرور پا جائیںگے۔ اس لئے میں ان باتوں کو اس طرح بیان کر رہا ہوں‘‘۔ صوبہ پنجاب میں انہوں نے صوبائی اسمبلی میں قائد ایوان کی تبدیلی کے امکان کے حوالے سے اپنے انکشاف کی تصدیق کی اور کہا کہ ’’میں کسی اطلاع کی بنیاد پر نہیں، البتہ اپنے تجزیئے کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں۔ پنجاب جیسے بڑے صوبے میں گورننس چلانے کیلئے اس وقت چوہدری نثار علی خان موزوں آدمی ہو سکتے ہیں۔ تاہم میں یہ ضرور کہوں گا کہ پنجاب کے اس نئے بندوبست میں ابھی چند ماہ تک لگ سکتے ہیں۔ زیادہ امکان یہ ہے کہ یہ بجٹ کے بعد صورت حال بنے گی‘‘۔ اس سوال پر کہ کیا عمران خان یہ قبول کر لیں گے؟ محمد علی درانی نے کہا، ’’عمران خان اور ان کی حکومت کی کارکردگی کی وجہ سے صورت حال بہت کمپرومائزنگ ہو گئی ہے، اور آنے والے دنوں میں مزید ہو سکتی ہے۔ اس لئے انہیں یہ قبول کرنا پڑ سکتا ہے۔ لیکن حتمی طور پر کیا ہوتا ہے یہ ابھی کہنا مشکل ہے‘‘۔ ایک اور سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’’میں نے تو شروع میں ہی کہہ دیا تھا کہ صوبہ جنوبی پنجاب کا نعرہ پی ٹی آئی کیلئے فائر بیک ثابت ہوگا۔ اور وہ اب ہو چکا ہے۔ بہاولپور اور رحیم یار خان میں انتخابی عمل کے دوران ہی نتائج پی ٹی آئی کے خلاف سامنے آ گئے تھے‘‘۔ اس سوال پر کہ جن معاملات کے طے پا جانے کا آپ یقینی امکان دیکھ رہے ہیں، ان کے لئے کوششیں کب سے چل رہی ہیں؟۔ انہوں نے کہا ’’جب سے میاں نواز شریف اور مریم نواز نے خاموشی اختیار کی ہے‘‘۔ سندھ میں فارورڈ بلاک بننے سے متعلق خبروں کے بارے میں سوال پر انہوں نے کہا ’’ایک بات کا خیال رکھیں۔ آئین میں تو یہ بھی ممانعت نہیں ہے کہ وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ میں سے کوئی گرفتار بھی ہو جائے۔ وہ جیل میں بیٹھا حکومت چلا سکتا ہے۔ البتہ ایسا کرنا اخلاقی حوالے سے کیسا ہے، یہ دوسری بات ہے۔ آئینی اعتبار سے وزیر اعلیٰ سندھ کی حالیہ الزامات کے پس منظر میں گرفتاری میں رکاوٹ نہیں ہو سکتی ہے۔