محمد فاروق
تمہارے سوال کے جواب میں ہم اگر سید موددیؒ کے حالات کا تذکرہ شامل کر رہے ہیں تو آپ اور آپ کے دوست یہ گمان نہ کریں کہ ہم اپنے اصل موضوع سے یا تو بے خبر ہیں یا اس سے ہٹ رہے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ جماعت اسلامی کی دعوت و تشکیل بنیادی طور پر سید موددیؒ کے فکر و عمل اور کسی حد تک ان کی طرف سے اس کام کیلئے مہیاکردہ ابتدائی محرک کا نتیجہ ہے۔ ماچھی گوٹھ اجتماع میں امین احسن اصلاحیؒ کی یہ بات بالکل درست اور بجا تھی، جو انہوں نے ارکان جماعت کو مخاطب کرکے کہی تھی کہ: ’’آپ لوگ چاہیں تو مولانا مودودیؒ کے پائوں پڑیں، اور چاہیں تو ان کا دامن پکڑنے کی کوشش کریں، لیکن میں ان کا گریبان پکڑ کر ان سے سوال کرتا ہوں کہ سب کو جمع کر کے اب وہ خود کہاں جانا چاہتے ہیں‘‘۔
اصلاحیؒ کا یہ فرمان حرف بحرف درست ہے۔ اس میں ایک طرف سید موددیؒ سے جماعت کے طریقہ کار کے اختلاف کی طرف بین السطور اشارہ ہے، کہ اس کام میں مقصد و نصب العین سے ہٹ جانے والے کسی طریقے یا راستے کی طرف نکل جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ تو دوسری طرف ان کی امارت سے استعفیٰ دینے کو، ’’کہاں جانا چاہتے ہیں‘‘، کے ذو معنی الفاظ میں سموکر نامنظور کر دیا گیا ہے۔ مگر ساتھ ہی اس حقیقت کا بے لاگ اعتراف بھی ہے کہ سب کو جمع کرنے کے ’’جرم‘‘ کا ارتکاب بھی سیدؒ ہی کا ہے۔
اس فرمان میں اس دو ٹوک اور بین حقیقت کا اظہار بھی موجود ہے کہ جہاں سید مودودیؒ کے پاؤں پڑنے اور دامن پکڑنے والے عقیدت مندوں کا ایک سیل رواں اللہ تعالیٰ نے اس مجدد دوران کو عطا کیا تھا، وہاں پر اصلاحیؒ کی طرح حق کے ساتھ گریباں پکڑنے والوں، اور ’’ناحق‘‘ گریبان میں ہاتھ ڈالنے والوں کی بھی کوئی کمی نہیں تھی۔ ’’سب کو جمع کرنے‘‘ اور دوسرے الفاظ میں جماعت اسلامی بنانے کے ’’جرم‘‘ کا تقاضا یا قدرتی نتیجہ یہ تھا کہ جب بھی لوگ ان کے پاؤں پڑتے یا دامن پکڑتے تو ان کا جماعت اسلامی کی جھولی میں گر پڑنا اور جماعت کے لیے باعث تقویت بننا ایک لازمی امر تھا۔ عین اسی طرح جب سیدؒ کو گریبان سے پکڑا جاتا تھا، یا ان کے گریبان میں ہاتھ ڈالا جاتا تھا، تو یہ بھی محض سید مودودیؒ کا گریبان نہیں، جماعت اسلامی کا گریبان ہی ہوتا تھا۔ اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
ہم بحث کے اس حصے میں ’’پاؤں پڑنے‘‘، ’’دامن پکڑنے‘‘ یا اصلاحیؒ کی طرح ’’گریبان پکڑنے‘‘ والوں کا تذکرہ نہیں کریں گے۔ ہم یہاں ’’گریبان میں ہاتھ ڈالنے‘‘ والوں اور ’’ناحق‘‘ ہاتھ ڈالنے والوں کا کچھ تذکرہ اس غرض سے کر رہے ہیں کہ سید مودودیؒ کی ان مشکلات کا براہ راست اثر ان کی طرف سے سب کو جمع کرنے والوں، یعنی جماعت اسلامی پر کس طرح پڑا ہے۔ ان ناحق گریبان میں ہاتھ ڈالنے والوں کو ہم نے دو گروہوں میں تقسیم کیا ہے: پرائے۔ اپنے۔
پرائے: یہ میری طالب علمی کا زمانہ تھا۔ مجھے ایک دیرینہ دوست اور ساتھی سے ملنے ان کے گاؤں بفہ ضلع ہزارہ جانا ہوا۔ میں جب پشاور کی بس سے مانسہرہ اڈے میں اترا تو معلوم نہیں تھا کہ بفہ جانے کے لیے مجھے گاڑی کہاں سے ملے گی۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ مجھے شنکیاری سوزوکی کے اڈے تک جانا پڑے گا جو اس وقت مانسہرہ بازار کے دوسرے سرے پر تھا۔ شنکیاری اڈے سے سوزوکیاں چلتی تھیں۔ اس وقت شاید کوئی دوسرا انتظام نہیں تھا۔ میں پیدل مانسہرہ بازار میں چلتا رہا اور وقفے وقفے سے اڈے کا پوچھتا رہا۔ کافی آگے جانے کے بعد دائیں جانب سڑک پر مجھ سے آگے دو بڑی عمر کے بزرگ پیدل جارہے تھے اور آپس میں پشتو بول رہے تھے۔ میں نے ان سے پشتو میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ اب اڈہ قریب ہے۔ ہم بھی بفہ جا رہے ہیں، تم ہمارے ساتھ ہی آؤ۔ یہ دونوں بزرگ بالکل ایک جیسے چہرے کے خد و خال کے تھے۔ دونوں لمبے قد کے تھے۔ داڑھیوں میں سفید بال زیادہ اور کالے کم، سفید ٹوپیاں سروں پر اور دونوں نے سفید کپڑے زیب تن کیے تھے۔ مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ یہ شاید دونوں بھائی ہیں۔ اتفاق سے دونوں بڑے خوش مزاج بھی تھے۔ اڈے تک پہنچنے سے پہلے انہوں نے ہنسی مذاق اور لطیفوں کی ایسی بارش کر دی کہ میں بھی اپنی ہنسی نہ روک سکا۔ میں ان کے پیچھے ان کے ساتھ ہی جارہا تھا۔ وہ سامنے اڈے کی طرف مڑے۔ میں ان کے پیچھے تھا۔ ایک سوزوکی نکل گئی اور دوسری گاڑی نمبر کے لیے اسٹینڈ پر آ کھڑی ہوئی۔ ان میں سے آگے جانے والے بزرگ نے لپک کر بجلی کی سرعت سے سوزوکی کی اگلی سیٹ پر چادر رکھی۔ کہنے لگے، شکر ہے شکار ہاتھ سے نہیں نکلا…!
مجھے مروتاً کہا کہ: ’’میلمہ! (مہمان) آؤ تم آگے بیٹھو۔ ہم دونوں پیچھے بیٹھتے ہیں!‘‘۔
’’نہیں، شکریہ…!‘‘۔
میں نے شکر ادا کیا تو انہوں نے مجھے پچھلی سیٹ پر اپنی کوئی چیز رکھنے کی ہدایت کی۔ ہم ابھی باقی سواریوں کے پورے ہونے کے انتظار میں کھڑے تھے۔ اس دوران ایک بزرگ کے چہرے پر ایک خفیف سی مسکراہٹ آئی، اور پھر ایک سرد آہ بھر کر اچانک ہماری طرف رخ کر کے اپنے ساتھی سے مخاطب ہوکر یہ جملہ کہا: ’’یہ دنیا کسی کی نہیں۔ اور جب کسی کی نہیں، تو معلوم نہیں کس کی ہے؟‘‘
دوسرے بزرگ نے پوچھا: ’’کیوں بھائی؟ کیا ہوا؟‘‘۔
’’بس ایک واقعہ یاد آیا‘‘
’’ہمیں بھی بتاؤں نا۔ بخل کر کے اسے اپنے پاس کیوں رکھتے ہو؟‘‘۔ دوسرے بزرگ نے مزاحیہ انداز میں اسے چھیڑا۔
پہلے نے کہا، ’’بھائی ’’بخل‘‘ نہیں کرتا، بتا ہی دیتا ہوں، لیکن پہلے اس مہمان سے پوچھتے ہیں‘‘۔
مجھ سے مخاطب ہوکر پوچھا: ’’میلمہ! (مہمان) تم مولانا غلام غوث ہزاروی کو جانتے ہو؟‘‘۔
’’جی ہاں بہت اچھی طرح جانتا ہوں‘‘۔
’’بات مجھے یہ یاد آئی کہ ایک زمانہ تھا ہزاروی صاحب جب قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس میں شرکت کے بعد واپس ہزارہ آرہے تھے تو قوم ہزار نے اس شخص کا جو استقبال کیا تھا، اس کی مثال ہزارہ کی سرزمین کیا اور پورے پاکستان میں ملنی مشکل ہے‘‘۔
دوسرے بزرگ نے تائید میںکہا کہ ہاں!۔ مجھے یاد ہے۔ میں خود بھی اس جلوس میں شامل تھا۔
پہلے بزرگ نے بات جاری رکھی: ’’اس استقبال کی تیاریاں کئی دنوں سے ہورہی تھیں۔ مختلف کمیٹیاں بن گئی تھیں۔ پوری ضلع ہزارہ میں دور دور پہاڑوں کی چوٹیوں تک چھوٹے چھوٹے گاؤں اور الگ تھلگ گھروں کے مکینوں تک اس جلوس میں شریک ہونے کی بات پہنچائی گئی تھی۔ ہم صبح فجر کی نماز ہی سے متصل گھروں سے نکلے تھے۔ کیا پرائیویٹ گاڑیاں، اور کیا کرائے کی ٹرانسپورٹ، پنجاب میں پنڈی اور لاہور تک سے گاڑیوں کو کرائے پر حاصل کر لیا گیا تھا۔ جس دن لوگ اسلام آباد کے لیے نکلے، تو معلوم ہوا اسمبلی ہال اور اردگرد کا علاقہ پہلے ہی استقبالیوں سے بھرا پڑا ہے، کہ لوگ کئی روز پہلے ہی ادھر پہنچ گئے تھے۔ خیر مختصر یہ کہ جلوس وہاں سے روانہ ہوا۔ ایبٹ آباد پہنچ کر سب نے یہاں جمع ہونا تھا۔ مگر عجیب بات یہ ہوئی کہ جلوس کا پہلا سرا جب ایبٹ آباد پہنچا اور کئی گھنٹے انتظار کے باوجود بھی جلوس کے لوگوں کی آمد کا سلسلہ تو جاری رہا، مگر مولانا کا ابھی اتہ پتہ نہیں تھا۔ لوگ پریشان ہوئے کہ مولانا ابھی تک کیوں نہیں پہنچے۔ اس زمانے میں صرف لائن ٹیلیفون کی سہولت تھی۔ اگرچہ استقبالیہ جلوس کی وجہ سے ایبٹ آباد اور مانسہرہ دونوں شہر عملاً بند تھے۔ مگر کچھ لوگوں نے ایبٹ آباد میں سرکاری ٹیلیگراف آفس پہنچ کر اسلام آباد فون کروایا اور پوچھا کہ یہاں پر لوگ پریشان ہیں۔ وجہ کیا ہے کہ حضرت ہزاروی ابھی تک نہیں پہنچے؟ جواب میں بتایا گیا کہ یہاں اسلام آباد میں استقبالیہ جلوس میں شامل ہونے کے لیے اتنے لوگ آئے ہیں، کہ حضرت تو ابھی اسلام آباد سے نکلے بھی نہیں ہیں‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post