نمائندہ امت
ایف آئی اے حکام نے بعض دیگر ممالک کے شہریوں کے ساتھ ساتھ اسرائیلی شہریوں کے پاکستان میں داخلے کے بارے میں بھی قواعد و ضوابط جاری کر دیئے۔ سوشل میڈیا پر شور اٹھنے کے بعد اسرائیل کا نام فوری طور پر ویب سائٹ سے ہٹا دیا گیا ہے۔ حکومت کے ناقدین کے مطابق اسرائیلی طیارے کی مبینہ طور پر پاکستان آمد کے بعد یہ دوسرا موقع ہے کہ پی ٹی آئی حکومت نے اسرائیل سے اپنی قربت اور اس سے تعلقات استوار کرنے کی بے چینی کا اظہار کیا ہے۔ حکومت نے اس ضمن میں پاکستانی عوام کی نبض پر ہاتھ رکھا ہے کہ اس کا ری ایکشن جان سکے۔ لیکن ایف آئی اے حکام اسے ایک غلطی قرار دیتے ہوئے اس کا ملبہ وفاقی وزارت داخلہ پر ڈال رہے ہیں، جس نے سات مختلف ممالک کے شہریوں کے پاکستان کے دورے کیلئے ویزے جاری کرنے کیلئے قواعد و ضوابط مرتب کرنے میں اسرائیل کا نام بھی شامل کر دیا۔ اس حوالے سے مسلم لیگ (ن) کی مرکزی رہنما اور خارجہ امور کی سینیٹ قائمہ کمیٹی کی رکن سینیٹر نزہت صادق کا کہنا ہے کہ ممکنہ طور پر اسرائیل کا نام ان ممالک کی لسٹ میں دانستہ شامل کیا گیا ہے۔ کیونکہ موجودہ پی ٹی آئی حکومت اور اس کی قیادت اسرائیل کیلئے نرم گوشہ رکھتی ہے، جس کی ماضی قریب میں کئی مثالیں موجود ہیں۔
ذرائع کے مطابق ایف آئی اے حکام کو وزارت داخلہ نے ان ممالک کی فہرست بھیجی جن کے شہریوں کو ویزے جاری کرنے کیلئے قواعد و ضوابط بنانے کا کہا گیا تھا۔ معبتر ذرائع کے مطابق یہ چھ ممالک انڈیا، بنگلہ دیش، صومالیہ، نائیجیریا، بھوٹان اور فلسطین تھے۔ لیکن اس فہرست میں ساتویں ملک اسرائیل کا نام بھی شامل کر دیا گیا اور ایف آئی اے کے ذمہ داروں نے اس بارے میں انکوائری کرنے اور اس نام کی تصدیق کرنے کی بجائے اپنے طور پر اسرائیلی شہریوں کیلئے وزٹ ویزے لے کر یہاں پہنچنے کے بعد کیلئے سخت اقدامات تجویز کئے۔ یعنی کسی اسرائیلی شہری کو پاکستان آنے کے بعد پولیس کے پاس باقاعدہ اندراج کرانے، متعلقہ ضلع کے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر سے قیام کا پرمٹ لینے اور پھر روانگی سے پہلے یہ پرمٹ واپس کر کے سفری اجازت نامہ وصول کرنے کے بعد ملک چھوڑنے کا پابند کیا گیا تھا۔ اسلام آباد میں موجود ایک معتبر ذریعے نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ایف آئی اے حکام کی نااہلی اور لاپرواہی ہے کہ وزارت داخلہ کی فہرست کا بغور جائزہ لینے کے بعد اسرائیل کا نام انہوں نے پوائنٹ آئوٹ نہیں کیا۔ اس بات کا امکان بھی موجود ہے کہ انہیں اوپر یعنی وزارت داخلہ سے زبانی احکامات بھی دیئے گئے ہوں کہ اسرائیل کا نام بھی شامل کر کے بھارت کی طرح نسبتاً سخت قواعد و ضوابط مرتب کر کے اسے ویب سائٹ پر ڈال دیں، تاکہ اسرائیل سے روابط کی راہیں بھی نکلیں اور ہمارے ملک کے اندر اسرائیل کے بارے میں کتنا سخت رویہ پایا جاتا ہے؟ اس کو بھی جانچا جا سکے۔ ان ذرائع کے مطابق زیادہ امکان یہی ہے کہ اسرائیل کا نام نہ صرف وزارت داخلہ کی جانب سے دانستہ شامل کیا گیا، بلکہ خصوصی مقاصد کیلئے اس بارے میں پوری کارروائی کی گئی اور اسرائیلی شہریوں کیلئے قواعد و ضوابط بھی جاری کئے گئے۔
واضح رہے کہ پاکستان اور اسرائیل کے درمیان کبھی اور کسی سطح پر بھی روابط نہیں رہے۔ البتہ دونوں ممالک کیلئے استنبول میں موجود ان کے سفارت خانے ناگزیر ضرورت کی صورت میں رابطے کا کام کرتے ہیں۔ پاکستان کے پاسپورٹ پر واضح درج ہے کہ اس پر اسرائیل کا سفر نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ کئی پاکستانی شہری اسرائیل کا سفر کر چکے ہیں۔ یہ وہ افراد ہیں جو بعض یورپی یا مغربی ممالک کے بھی دہرے شہری ہیں اور ان ممالک کے پاسپورٹ پر ویزا لگوا کر انہوں نے اسرائیل کا دورہ کیا۔
ڈائریکٹر امیگریشن عصمت اللہ جونیجو نے اس غلطی کا ذمہ دار وزارت داخلہ کو قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وزارت داخلہ نے جو فہرست بھیجی تھی، اس میں اسرائیل کا نام شامل تھا اور غلطی سے ایف آئی اے کی ویب سائٹ پر قواعد و ضوابط بھی جاری کر دیئے گئے۔
معتبر ذریعے نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایسا محض اتفاقاً یا کسی کی غلطی سے نہیں ہوا۔ اگر غلطی سے ہوتا اور اتفاقی کوتاہی ہوتی، تو اسرائیلی شہریوں کے لیے دیگر ممالک بھوٹان، بنگلہ دیش وغیرہ کی نسبت خاص قسم کے ذرا مشکل قواعد و ضوابط نہ مرتب کئے جاتے۔ اسرائیل کے شہریوں کو اجازت اور یہ قواعد و ضوابط کسی سطح پر سیاسی فیصلے کے نتیجے میں ایف آئی اے حکام نے جاری کئے۔ لیکن یہ بات سامنے آنے اور میڈیا پر شور اٹھنے کے بعد وزارت داخلہ کی ہدایت پر اسرائیل کا نام فوری طور پر ایف آئی اے نے ختم کر دیا اور اب تنقید سے بچنے کیلئے وزارت داخلہ کو ذمے دار قرار دیا جارہا ہے، جو حقیقت بھی ہے۔
٭٭٭٭٭
Prev Post