کراچی(رپورٹ: راؤ افنان)جامعہ کراچی کی بدنامی کا باعث بننے طالبہ ہراسگی کیس کے ملزم لیکچرار حسن عباس کے دفاع کے لئے ون پوائنٹ ایجنڈے پر سینڈیکیٹ کا اجلاس آج ہوگا۔ صوبائی محتسب نے لیکچرار کوملازمت سے فارغ کرنے اور 50 ہزار روپے بطور ہرجانہ متاثرہ طالبہ کو ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ دوسری جانب جامعہ انتظامیہ کی جانب سے محتسب کے دیگر فیصلوں کو بھی ہوا میں اڑانے کا انکشاف ہوا ہے۔تفصیلات کے مطابق جامعہ کراچی انتظامیہ نےپیٹرولیم کی طالبہ شفا امتیاز کو ہراساں کرنے والے لیکچرار حسن عباس کے لئے ون پوائٹ ایجنڈے پر سینڈیکیٹ کا اجلاس طلب کرلیا ہے،معلوم ہوا ہے کہ طالبہ شفا امتیاز کی جانب سے صوبائی محتسب برائے تحفظ خواتین ورکرز میں گزشتہ سال19جون کو لیکچرار حسن عباس کے خلاف شکایت نمبر28 (KHI-S)/2018 درج کرائی گئی تھی،جس کا فیصلہ صوبائی محتسب کی جانب سے گزشتہ سال 20دسمبر کو سنایا گیا ،فیصلے میں صوبائی محتسب نے قرار دیا کہ متاثرہ طالبہ کی جانب سے لگائے گئے تمام الزامات درست ہیں،جس کی بنا پر لیکچرار حسن عباس کو فوری طور پر ملازمت سے فارغ کرنے اور متاثرہ طالبہ کو 30روز کے اندر 50ہزار روپے بطور ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دیا گیا۔ معلوم ہوا ہے کہ جامعہ انتظامیہ نے فیصلے پر عملدرآمد کرنے کے بجائے ملزم لیکچرار حسن عباس کے لئے سینڈیکیٹ کا اجلاس طلب کرلیا ہے ،ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ جامعہ انتظامیہ کو گزشتہ ماہ صوبائی محتسب کی جانب سے ایک اور فیصلے پر 30روز میں عملدرآمد کرنے کا حکم دیا گیا تھا تاہم نہ اس پر تاحال کوئی عملدرآمد ہوا اور نہ ہی سینڈیکیٹ کا اجلاس طلب کیا گیا۔ دوسری جانب معلوم ہوا ہے کہ جامعہ انتظامیہ تاحال محتسب اعلیٰ کے کسی بھی فیصلے پر عملدرآمد کرنے یا کرانے میں مکمل طور پر ناکام رہی اور انصاف کے تقاضے پورے کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہی ہے۔ ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ جامعہ انتظامیہ کے خلاف صوبائی محتسب میں شکایت نمبر POS/185/2015/KC دائر کی گئی جو کمپیورٹر آپریٹرز کی 13سے 16گریڈ میں اپ گریڈیشن سے متعلق تھی، مذکورہ شکایت کا فیصلہ ان کے حق میں آنے پر بھی وہ ترقیوں سے محروم ہیں۔ ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ جامعہ انتظامیہ نے 2010میں من پسند 46کمپویٹر آپریٹرز کو 16گریڈ سے نوازا تھا جبکہ 35سے زائد کمپیوٹر آپریٹرز کو نظر انداز کردیا تھا جو آج تک انہیں گریڈز پر ہیں۔ذرائع نے مزید انکشاف کیا ہے کہ اسی طرح ایک اور ہراسگی کیس پر کارروائی کرنے کے بجائے معاملہ تاحال دبا کر رکھا گیا ہے اور ملزم کو لیکچرار سے اسسٹنٹ پروفیسر پر ترقی بھی دی گئی اور تاحال تنخواہ بھی جاری ہے،معلوم ہوا ہے کہ جامعہ کراچی کے شعبہ سوشل ورک کے طلبہ و طالبات نے جولائی 2014میں شیخ الجامعہ کو اسسٹنٹ پروفیسر صابر مائیکل کی جانب سے ہراساں کرنے پر تحریری شکایت کی گئی تھی،طلبہ و طالبات نے اس سلسلے میں شیخ الجامعہ کو ثبوت بھی فراہم کئے تھے جس میں کال ریکارڈنگ بھی شامل تھی،شیخ الجامعہ نے صابر مائیکل کے خلاف درخواستیں اور شواہد ملنے پر آفس آرڈر نمبر B/Estt.(T)social work/2014مورخہ 9ستمبر 2014کو جاری کر کے انہیں جبری رخصت پر بھیج دیا تھا، ہراساں کرنے کے معاملے پر شیخ الجامعہ نے 24ستمبر 2014کو 4رکنی فیکٹ فائینڈنگ کمیٹی تشکیل دی،کمیٹی کا کنونیئرپروفیسر ڈاکٹر شکیل احمد خان کو بنایا جبکہ کمیٹی میں ڈاکٹر شمیم شیخ،ڈاکٹر کلیم رضا خان اور ڈاکٹر راحیلہ نجم کو بطور رکن شامل کیا گیا ،کنوینئر ڈاکٹر شکیل احمد خان نے 24فروری 2015کو کمیٹی کی انکوائری رپورٹ جمع کروائی جس میں صابر مائیکل کے خلاف کارروائی کی سفارش کی گئی تھی۔ اس پر جامعہ انتظامیہ نے محکمہ تعلیم کی ایڈیشنل سیکریٹری عزیز فاطمہ کو تفتیشی افسر لگایا تھا،تفتیشی افسر نے انکوائری مکمل کر کے جامعہ کے قوانین کے تحت کارروائی کرنے کی سفارش کی تھی لیکن جامعہ کراچی طالبات کو بھی تاحال انصاف نہ دلا سکی۔واضح رہے کہ جامعہ کراچی اینٹی ہراسمنٹ کمیٹی نے بھی لیکچرار حسن عباس کو قصور وار قرار دیا تھا۔