افغان حکومت طالبان سے مذاکرات کیلئے پاکستان کی مدد لینے پر مجبور

0

محمد قاسم
افغان حکومت نے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور امریکہ کی مدد سے طالبان کو مذاکرات پر رضامند کرنے میں ناکامی کے بعد ایک بار پھر پاکستان سے مدد لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس ضمن میں بات چیت کیلئے آئندہ ہفتے مصالحتی کمیشن کا ایک بڑا وفد اسلام آباد پہنچے گا۔ دوسری جانب افغان پارلیمان کے آخری اجلاس میں شمالی اتحاد کے اراکین کی جانب سے پاکستان پر شدید تنقید کی گئی۔ ذرائع کے مطابق کابل حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کیلئے پاکستان سے مدد لی جائے، کیونکہ اس حوالے سے امریکہ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی کوششیں ناکام ہوگئی ہیں، اور افغان طالبان نے کابل حکومت کے ساتھ بات چیت سے انکار کردیا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ افغان مصالحتی کمیشن کے اعلیٰ عہدیدار محمد عمر دائود زئی نے اعلان کیا ہے کہ آئندہ ہفتے افغانستان سے ایک وفد اسلام آباد جا رہا ہے، جو پاکستان کے اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کرکے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات شروع کرانے کیلئے مدد طلب کرے گا۔ عمر دائود زئی کے مطابق پاکستان نے افغان مسئلے کو حل کرنے کیلئے حال ہی میں بہت کوششیں کی ہیں۔ لیکن جب تک افغان حکومت اور طالبان کے درمیان براہ راست بات چیت نہیں ہوتی، بعض مسائل حل نہیں ہوں گے۔ انہوں نے بتایا کہ افغان مصالحتی کمیشن کا وفد پاکستان کے بعد تمام ہمسایہ ممالک کا بھی دورہ کرے گا۔ عمر دائود زئی کے بقول امریکہ نے افغان طالبان سے مذاکرات میں جو پیش رفت کی ہے، وہ صرف اور صرف امریکی مفاد میں ہے۔ اس سے افغان عوام اور حکومت کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ پورے افغانستان کے عوام امن چاہتے ہیں، لیکن امریکہ نے صرف اپنے مفادات کی خاطر طالبان سے مذاکرات کئے۔ زلمے خلیل زاد صرف امریکہ کے نمائندے ہیں۔ طالبان افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات سے انکار کر کے غلطی کر رہے ہیں، کیونکہ افغانستان میں دیگر اقوام بھی بستی ہیں اور انہیں بھی اعتماد میں لینا ضروری ہے۔ عمر دائود زئی کے مطابق اس حوالے سے پاکستان اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ افغان مصالحتی کمیشن کے ارکان پاکستانی حکام کے سامنے اپنا موقف رکھیں گے۔ ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ افغان صدر نے مصالحتی کمیشن کو دورۂ پاکستان کی ہدایت کی ہے۔ صدر اشرف غنی نے اس سے قبل متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور امریکہ کی مدد سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی کوشش کی تھی، لیکن ناکام رہے تھے۔ ذرائع کے بقول افغان طالبان اور ایران کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں ایرانی حکام نے طالبان سے درخواست کی تھی کہ وہ افغان حکومت کے ساتھ بات چیت کریں، تاہم طالبان نے آمادگی ظاہر نہیں کی تھی۔ اب ایک طرف افغان حکومت کی ہدایت پر مصالحتی کمیشن کے ارکان طالبان سے مذاکرات کیلئے پاکستان کی مدد حاصل کرنے کیلئے کوشاں ہیں اور دوسری جانب ختم ہونے والی افغان پارلیمان کے اراکین نے پاکستان پر شدید تنقید کی ہے۔ شمالی اتحاد سے تعلق رکھنے والے کئی اراکین نے کہا ہے کہ امریکہ نے افغانستان میں خود کو شکست سے بچانے کیلئے پاکستان سے مدد لینا شروع کر دی ہے۔ جبکہ امریکہ کو چاہیے کہ وہ پاکستان کو کوئی کردار نہ دے۔ بلکہ پاکستان پر دبائو میں اضافہ کیا جائے۔ اراکین پارلیمان کا کہنا تھا کہ افغان صدر نے پاکستان کے کئی دورے کئے، لیکن انہیں مذاکرات میں کوئی کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ اب امریکہ اپنے مقاصد کیلئے پاکستان کے ساتھ مل کر خود تو طالبان سے مذاکرات کر رہا ہے، لیکن افغان حکومت کو اس سارے عمل سے باہر نکال دیا ہے۔ لہذا افغان حکومت کو چاہیے کہ وہ امریکیوں کو افغانستان سے چلے جانے کا کہے اور تمام مذاکراتی عمل ختم کردے۔ دوسری جانب مبصرین نے اراکین پارلیمان کے ان الزامات کو بے وقت قرار دیا ہے کیونکہ پارلیمان کی مدت ختم ہوچکی ہے۔ لغمان سے منتخب ہونے والے حزب اسلامی کے رکن پارلیمان عبدالکبیر کا ’’امت‘‘ سے گفتگو میں کہنا تھا کہ ان اراکین پارلیمان کو گزشتہ چھ برسوں میں یہ باتیں کیوں یاد نہیں آئیں۔ اب جبکہ افغانستان کا مسئلہ حل ہونے کی طرف جا رہا ہے تو اس میں روڑے اٹکائے جارہے ہیں۔ الیکشن کے بعد اس پارلیمان کا اجلاس بلانا غیر قانونی ہے ۔نئے پارلیمانی انتخابات کے بعد اس پارلیمان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ افغان حکومت طالبان کے ساتھ مذاکرات کیلئے کوشاں ہے لیکن افغان طالبان نے شدید سردی کے باوجود شمالی افغانستان میں نئی کارروائیاں شروع کر دی ہیں۔ گزشتہ روز سرائے پل کے دور افتادہ علاقے صیاد میں طالبان نے ایک بڑی کارروائی میں 24 سے زائد سیکورٹی اہلکاروں کو ہلاک کردیا، جن میں پولیس کے سپاہی، اعلیٰ فوجی افسران اور مقامی انٹیلی جنس چیف بھی شامل تھی۔ ذرائع کے بقول گزشتہ اٹھارہ برسوں میں جنوری میں یہ طالبان کی بڑی کارروائی ہے۔ پہلی بار طالبان نے برف باری والے علاقوں میں اپنی کارروائیاں جاری رکھی ہوئی ہیں، جس کا مطلب ہے کہ انہوں نے شدید سردیوں میں بھی لڑائی جاری رکھنے کی منصوبہ بندی کی ہوئی ہے۔ اس سے قبل سردیوں میں شمالی اور مشرقی افغانستان کے صوبہ کنڑ اور نورستان میں برف باری کی وجہ سے طالبان کی کارروائیاں رک جاتی تھیں۔ جبکہ شہروں میں بھی پچاس فیصد کمی آ جاتی تھی، لیکن اس بار کارروائیوں میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More