قسط نمبر: 218
عباس ثاقب
یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جس نے نوجوانی کے امنگوں بھرے دور میں اپنی جان خطرے میں ڈال دی۔ صرف اس لئے کہ وطن عزیز پاکستان کو دشمنوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔ جمال صاحب کراچی کے قدیم رہائشی ہیں اور ان دنوں گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ عمر کے آخری حصے میں بصد اصرار اس بات پر آمادہ ہوئے کہ اپنی زندگی کے تہلکہ خیز گوشوں سے پردہ اٹھائیں۔ ان کا اصل نام کچھ اور ہے۔ بعض نا گزیر اسباب کی بنا پر انہیں ’’جمال‘‘ کا فرضی نام دیا گیا ہے۔ اس کہانی کو ڈرامائی شکل دینے کیلئے کچھ زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی۔ کیونکہ یہ حقیقی ایڈوینچر کسی سنسنی خیز ناول سے زیادہ دلچسپ ہے۔ جمال صاحب کی کہانی ان لوگوں کیلئے دعوتِ فکر ہے، جنہیں یہ ملک بغیر کسی جد و جہد اور محنت کے ملا اور انہوں نے اس کی قدر کرنے کے بجائے اسی سے شکایات شروع کر دیں۔ امید ہے کہ قسط وار پیش کی جانے والی یہ کہانی ’’امت‘‘ کے خوش نظر قارئین کی پذیرائی حاصل کرے گی۔ (ادارہ)
جمیلہ کی بات سن کر میرے دل کو دھچکا لگا۔ ان پر بیتی قیامت کے اس پہلو پر تو میری توجہ ہی نہیں گئی تھی۔ جانے اور بھی کتنے عذاب ہوں گے، جو یہ مظلوم بہنیں اپنے جگر پر سہتی رہی ہوں گی۔ یہ ان شیطانوں کے چنگل سے جسمانی طور پر تو آزاد ہوگئی ہیں، نفسیاتی اور جذباتی اعتبار سے ان ہولناک دنوں کے اندھیرے سایوں سے نکلنے اور معمول کی زندگی اپنانے میں جانے کتنا وقت لگ جائے گا۔
میں نے اپنی جلد بازی پر دل ہی دل میں خود کو سرزنش کی۔ ان دونوں کو ابھی بہت دنوں تک صرف زندگی کے نئے رنگوں سے ہم آہنگ ہونے کا موقع ملنا چاہیے۔ ابھی تو انہیں یقین کرنے میں مشکل پیش آرہی ہوگی کہ وہ واقعی آزادی کی نعمت سے ہم کنار ہو چکی ہیں۔
میں نے ماحول کی سنجیدگی دور کرنے کے لیے خوش گوار لہجے میں موضوع بدلا۔ ’’ارے بھئی، اتنا جذباتی طوفان بپا کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ مذہبی اور سماجی، دونوں اعتبار سے آپ لوگ اپنی مرضی کی مالک ہیں۔ کوئی آپ کو مجبور کیسے کر سکتا ہے۔ ہنستے مسکراتے ہوئے اپنی منشا بتا دیں کہ جناب، فی الحال ہمیں اس موضوع میں کوئی دل چسپی نہیں ہے، کوئی اور بات کریں‘‘۔
میری یہ کوشش کسی حد تک کامیاب رہی۔ جمیلہ بے ساختہ ہنس پڑی، جبکہ رخسانہ کے لبوں پر بھی دبی دبی مسکراہٹ ابھری۔ میں نے کہا۔ ’’ٹھیک ہے، آپ کا پیغام واضح طور پر پہنچ گیا۔ اس موضوع پر اب آپ کو تنگ نہیں کیا جائے گا۔ اور محترمہ جمیلہ صاحبہ، آپ سے بات کرتے ہوئے تو ویسے بھی احتیاط برتنے کی ضرورت ہے۔ آپ کے پاس تو گن موجود ہے اور آپ گولی چلانے میں بھی تکلف نہیں کرتی ہیں‘‘۔
میرے لہجے میں چھپے طنز اور سرزنش کا جمیلہ نے ذرا بھی اثر نہیں لیا، بلکہ میری جملے بازی کو ایک ہلکے سے قہقہے میں اڑا دیا۔ رخسانہ بھی اب خوش دلی سے مسکرا رہی تھی۔ میں نے اطمینان کا سانس لیا۔ ہم تینوں مزید کچھ دیر تک ہلکی پھلکی باتیں کرتے رہے۔ رخسانہ نے بتایا کہ اس نے شازیہ باجی سے کشمیری کشیدہ کاری سیکھ رکھی ہے اور اسے خاصی مہارت حاصل ہے۔ وہ اپنے اس ہنر کو کام میں لانا چاہتی ہے، تاکہ اپنے پسندیدہ مشغلے میں وقت گزارنے کے ساتھ ساتھ کچھ آمدنی کا ذریعہ بھی بن سکے۔ اس کے برعکس جمیلہ اپنی تعلیم کا سلسلہ شروع کرنے کے ساتھ ساتھ کھانا پکانے میں مہارت حاصل کرنے کی خواہش رکھتی تھی۔
کچھ دیر میں ناصر ہم سے اجازت لے کر اپنے آڑھت خانے میں چلا گیا۔ اس کے جانے کے بعد ظہیر اور میں دونوں بہنوں کی زندگی میں آنے والی انقلابی تبدیلیوں اور ان کی ذہنی کیفیت کے بارے میں تبادلہ خیال کرتے رہے۔ پھر ہماری گفتگو شازیہ کی بازیابی اور جلد از جلد شیامک کی گردن ناپنے کی ضرورت کی طرف گھوم گئی۔ ہم دونوں ہی اس حوالے سے اضطراب کا شکار تھے۔ ہمارا بس چلتا تو اسی وقت اٹھ کر پٹیالے کی طرف روانہ ہو جاتے۔ لیکن ہم کسی بھی بے احتیاطی یا جلد بازی سے گریز بھی کرنا چاہتے تھے۔ کچا ہاتھ ڈالنے کے نتیجے میں نہ صرف شازیہ کا سراغ لگانا مزید مشکل ہوجاتا۔ بلکہ مٹھو سنگھ کے اثر و رسوخ کے باعث پولیس بھی غیر معمولی مستعد ہوگی اور ان کے ہتھے چڑھنے سے نہ صرف شازیہ کی تلاش کا معاملہ دھرے کا دھرا رہ جائے گا، ظہیر کی سربراہی میں جاری کشمیر کی آزادی کی جدوجہد کو بھی سخت دھچکا پہنچے گا۔ لہٰذا ہم دونوں نے اتفاق کیا کہ اس صورتِ حال میں معاملہ ٹھنڈا ہونے کا انتظار ہی بہترین حکمتِ عملی ہے۔
شام ڈھلے یاسر حسبِ وعدہ واپس لوٹ آیا۔ مجھے اس کے چہرے پر تناؤ نظر آیا، جسے میں نے گزشتہ رات کے واقعے کا نتیجہ سمجھا۔ لیکن اس نے محفل جمتے ہی کہا۔ ’’بھائی لوگو، آپ جو کچھ کر آئے ہیں اس نے طوفان برپا کر دیا ہے۔ مٹھو سنگھ کے خاص بندے مانک کو ناری نکیتن کے پہرے دار سمیت قتل کرنے اور وہاں پناہ گیر دو لڑکیوں کے اغوا کی واردات نے پورے پنجاب میں تہلکا مچا دیا ہے۔ آپ اندازہ نہیں کر سکتے کہ پولیس کیسے ہر شہر اور قصبے میں اور چھوٹی بڑی سڑکوں پر کس طرح سختی سے لوگوں سے پوچھ گچھ کرتی پھر رہی ہے۔ خود مجھے لدھیانے میں اور پھر وہاں سے یہاں سے پہنچتے ہوئے تین جگہ پر روک کر تلاشی لی گئی ہے اور سوال جواب کیے گئے ہیں۔ خصوصاً جیپ سواروں کی تو مصیبت آئی ہوئی ہے‘‘۔
اس نے جو کچھ بتایا، وہ غیر متوقع نہیں تھا۔ ظاہر ہے، مٹھو سنگھ کو اپنے خاص بندے سے محروم ہونے کے ساتھ ساتھ کم از کم دو لاکھ روپے کے نقصان سے بھی دو چار ہونا پڑا تھا۔ اس نے ساری سرکاری مشینری کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ہوگا۔ لیکن اس کے باوجود ردِ عمل کی اس قدر غیر معمولی شدت واقعی چونکا دینے والی تھی۔ میں نے جیپ کے حوالے سے مزید وضاحت چاہی تو یاسر نے بتایا۔ ’’پولیس والوں کو شاید جیپ سواروں کے حوالے سے خصوصی ہدایات دی گئی ہیں۔ سڑک پر چلنے والی کسی بھی جیپ کو نظر آتے ہی روک لیا جاتا ہے اور جیپ چلانے والوں کو وضاحت مانگے بغیر گاڑی سمیت سیدھا تھانے پہنچا دیا جاتا ہے۔ جہاں ان سے سختی سے چھان بین کی جاتی ہے اور جیپ کا بھی باریک بینی سے جائزہ لیا جاتا ہے۔ میرا خیال ہے کھوجیوں کی بھی مدد لی جارہی ہوگی‘‘۔
میں نے اس کی بتائی ہوئی باتیں غور سے سنیں اور پھر اپنا خیال ظاہر کیا۔ ’’میرا خیال ہے کہ ہمارے حوالے سے زیادہ تر معلومات شیامک کے ذریعے ہی پولیس تک پہنچی ہیں اور وہ ان ہی بنیاد پر ساری کارروائی کر رہی ہے۔ اور ہاں، یاد آیا، مانک کا ایک گھریلو ملازم بھی مجھے اور سردار امر دیپ کی جیپ کو پہچان سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے پولیس نے اس سے بھی پوچھ گچھ کر کے معلومات حاصل کی ہوں‘‘۔
ناصر نے کہا۔ ’’اب اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں کہ فی الحال آپ لوگوں کا روپوش رہنا ہی خطرے سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔ دونوں جیپیں بھی پولیس کی نظروں سے چھپا کر رکھنی پڑیں گی‘‘۔ (جاری ہے)