ٹی ایل پی قائدین کی عدالت میں پیشی کو خفیہ رکھا گیا

0

نجم الحسن عارف
تحریک لبیک کی قیادت سے اہلخانہ عدالت میں پیشی کے موقع پر بھی ملاقات نہ کر سکے اور نہ ہی اہلخانہ اور ساتھیوں کو ریمانڈ کے چوبیس گھنٹے بعد ملاقات کی اجازت دی گئی۔ بدھ کے روز تقریباً ڈیڑھ ماہ بعد پہلی بار علامہ خادم حسین رضوی، پیر افضل قادری، پیر اعجاز اشرفی اور فاروق الحسن کو اینٹی ٹیرراسٹ کورٹ میں پیش کیا گیا، لیکن اس پیشی کو اتنا خفیہ رکھا گیا کہ ان کے اہلخانہ بھی اس سے بے خبر رہے۔ اگلے روز بھی پنجاب پولیس نے اہل خانہ اور تحریک لبیک سے وابستہ سیاسی کارکنوں کو تادم تحریر ملاقات کی اجازت نہیں دی ہے۔ عدالت میں پیشی کا معاملہ خفیہ رکھنے کے باوجود عدالتی احاطے میں سیکورٹی کے غیر معمولی انتظامات نے حکومتی رازداری کا بھانڈا پھوڑا اور تحریک لبیک کے وکیل احسان عارف ایڈووکیٹ نے راولپنڈی سے کسی اور مقصد کے لیے لاہور پہنچنے والے اپنے وکلا ساتھیوں مرتضی علی پیرزادہ ایڈووکیٹ، طاہر منہاس ایڈووکیٹ اور ناصر منہاس کو بھی فوری طور پر عدالت پہنچنے کی ہدایت کر دی۔ تاہم اہلخانہ اور پارٹی کارکنوں کے پہنچنے سے قبل ہی چاروں اسیر رہنمائوں کا ریمانڈ حاصل کر لیا گیا۔ ٹی ایل پی رہنمائوں کو بکتر بند گاڑیوں میں انتہائی سخت سیکورٹی میں عدالت لایا گیا تھا۔ کوٹ لکھپت جیل سے علامہ خادم رضوی اور پیر اعجاز اشرفی کو ایک بکتر بند گاڑی میں لایا گیا۔ جبکہ پیر افضال قادری کو گوجرانوالہ جیل سے لایا گیا۔ اسی طرح فاروق الحسن کو راولپنڈی کی اڈیالہ جیل سے لاہور لایا گیا۔ عدالت میں موجود ذرائع کے مطابق پہلے تین رہنمائوں کو عدالت میں پہنچایا گیا۔ جبکہ چوتھے رہنما کو راولپنڈی سے لانے میں دیر ہو گئی، تاہم عدالتی کارروائی محض چند منٹ میں نمٹا دی گئی۔ ان ذرائع کے مطابق حکومت کی ہدایت پر پولیس نے چاروں اسیر رہنمائوں کا ساٹھ دنوں کے لئے جسمانی ریمانڈ حاصل کرنے کی کوشش کی، لیکن عدالت نے پولیس کو بیس دن کا ریمانڈ دیا ہے۔ اب ان چاروں اسیر رہنمائوں کو بائیس جنوری کو دوبارہ عدالت میں پیش کیا جائے گا۔
تحریک لبیک کے سینئر وکیل احسان عارف ایڈووکیٹ کے بقول پولیس اور انتظامیہ کی یہ قانونی ذمہ داری اور ملزمان کے اہلخانہ کے حقوق میں شامل ہے کہ انہیں ملزمان کی ریمانڈ کے لیے عدالت میں پیشی سے پہلے بتایا جائے۔ لیکن اس معاملے میں عدالت کے سامنے پولیس نے اپنے زیر حراست اہم رہنمائوں کے ساتھ غیر قانونی رویہ اختیار کرتے ہوئے ان کے اہل خانہ اور ان کے تنظیمی عہدیداروں کو اس اچانک پیشی سے لا علم رکھا۔ اس سوال پر کہ اس کے باوجود آپ اور راولپنڈی سے آئے وکلا کی ٹیم کے تین ارکان کیسے عدالت میں پہنچ گئے؟ احسان عارف ایڈووکیٹ نے کہا ’’مجھے بالکل نہیں بتایا گیا تھا، بلکہ میں اتفاقاً اپنے کسی اور کام کے لئے عدالت میں پہنچا تھا۔ جب میں نے عدلت میں انتہائی غیر معمولی سیکورٹی انتظامات اور پولیس کی بھاری نفری تعینات دیکھی تو میرا ماتھا ٹھنکا۔ میں نے عدالت کے اہلکاروں سے جاننے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ علامہ خادم رضوی کو عدالت میں پیش کیا جارہا ہے۔ میں پھر نہ صرف خود وہیں رک گیا۔ بلکہ پنڈی سے کوٹ لکھپت جیل میں لبیک کی اسیر قیادت سے ملنے آنے والوں کو اس خفیہ رکھی گئی پیش رفت سے آگاہ کیا اور انہیں مشورہ دیا کہ کوٹ لکھپت جیل نہ جائیں، بلکہ سیدھا عدالت آجائیں۔ اس طرح حکومت کی اس پیشی کو خفیہ رکھنے کی سازش ناکام بنائی گئی۔ تاہم کارکنوں کو اطلاع نہ ہو سکنے کی وجہ سے صرف دس پندرہ کارکن ہی عدالت میں پیشی کے موقع پر پہنچ سکے‘‘۔ ایک اور سوال کے جواب میں احسان عارف ایڈووکیٹ کاکہنا تھا کہ ’’دونوں اہم رہنمائوں علامہ خادم حسین رضوی اور پیر افضل قادری کے چہروں پر نقاہت عیاں تھی۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ انہیں جیل میں پچھلے پندرہ دن سے راتوں کو جگایا جا رہا ہے۔ یہ تشدد کی ایک نہایت اذیت انگیز صورت ہوتی ہے۔ اس وجہ سے دونوں بزرگ رہنمائوں کی کمزوری اور نقاہت ان کے چہروں سے نمایاں تھی۔ پیر افضل قادری ضعیف العمر ہونے کے ساتھ ساتھ عارضہ قلب میں بھی مبتلا ہیں۔ لیکن انہیں بھی اس اذیت سے گزارا جا رہا ہے۔ یہ بھی اہم بات ہے کہ اسی عارضہ قلب کی وجہ سے انہیں راولپنڈی کے اہم ترین اسپتال میں بھی اچانک لے جانا پڑا تھا۔ دوسری جانب حد یہ ہے کہ علامہ خادم رضوی صاحب جو دونوں ٹانگوں سے معذور ہیں، انہیں واش روم جانے کے لئے بھی ضروری سہولیات نہیں دی جا رہیں۔ ان کی صحت درست نہیں ہے۔ وہ جیل میں ہونے کی وجہ سے واش روم بھی جانے سے قاصر رہے ہیں۔ لیکن عدالت سے ان کے لیے خدمت گار کی سہولت مانگنے کے باوجود یہ سہولت دینے سے فاضل جج نے معذوری طاہر کر دی‘‘۔ احسان عارف ایڈووکیٹ نے کہا کہ اگر (آج) جمعہ کے روز بھی اہلخانہ کو ان سے ملاقات کی اجازت نہ ملی تو قانون کے مطابق اپنا جائز حق لینے کے لیے عدالت سے رجوع کیا جائے گا۔ ریمانڈ پر موجود کوئی بھی ملزم ہو، اس سے اہلخانہ مل بھی سکتے ہیں۔ اس کے لئے کھانا بھی لا سکتے ہیں۔ لیکن جیل میں جیل والوں کے ہاتھوں کا بنا ہوا کھانا کھانے سے ان اسیران کی صحت پہلے ہی خراب تر ہے۔ اب تھانے میں ہوتے ہوئے بھی ان کے گھر والوں کا رابطہ نہیں ہونے دیا جا رہا۔ اسی طرح عدالت نے ان کے طبی معائنے کا بھی حکم دیا ہے۔ لیکن اس حکم پر بھی جمعہ کے روز تک عمل نہ ہوا تو اس معاملے کو بھی عدالت میں اٹھائیں گے۔
واضح رہے کہ تحریک لبیک کے اسیر سیاسی قائدین کے گھر والے جمعرات کے روز ان سے ملنے کے لئے جب تھانہ سول لائن پہنچے تو انہیں بتایا گیا کہ بیس روزہ ریمانڈ پر ان لوگوں کو تھانہ قلعہ گوجر سنگھ میں رکھا گیا ہے۔ وہاں جا کر مل لیں۔ خیال رہے اسیر قائدین کے خلاف سول لائن تھانے میں ہی مقدمہ درج ہے۔ یہاں سے ناکام لوٹنے کے بعد اسیران کے عزیز و اقارب اور ساتھی تھانہ قلعہ گوجر سنگھ پہنچے تو وہاں انہیں بتایا گیا کہ اسیران یہاں نہیں، بلکہ ما ڈل ٹائون تھانے میں بند کیا گیا ہے، اس لیے وہاں چلے جائیں۔ بعد ازاں رات گئے تحریک لبیک کے وکیل احسان عارف نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ انہیں معلوم ہوا ہے کہ اسیر رہنمائوں کو سی آئی اے تھانہ ماڈل ٹائون میں رکھا گیا ہے۔ ادھر تحریک لبیک کے اندرونی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ علامہ خادم حسین رضوی کا جیل میں کھانا چونکہ جیل کے لوگ ہی تیار کرتے رہے ہیں، اس لیے خدشہ ہے کہ ان کے کھانے میں کوئی غلط چیز شامل نہ کی جاتی رہی ہو۔ کیونکہ ان کی صحت پہلے جیسی نہیں رہی اور نقاہت بھی نمایاں ہے۔ ذرائع کے مطابق اہلخانہ آج جمعہ کے روز پھر اپنے پیاروں سے تھانے میں ملاقات کی کوشش کریں گے۔ بائیس جنوری تک یہ کوشش جاری رہے گی۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More