ضیاء الرحمن چترالی
حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ ’’انسانوں کے دل خدائے رحمن کی انگلیوں کے درمیان ہیں، وہ جب اور جس طرف چاہتا ہے انہیں پلٹ دیتا ہے۔‘‘ بالی ووڈ کے عالمی شہرت یافتہ فیشن ڈیزائنر محمد سلطان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایک دن حق تعالیٰ انہیں فلم نگری کے جوہڑ سے نکال کر اپنی آخری کتاب قرآن کریم کی عظیم خدمت کیلئے چنے گا۔ الجزیرہ نے دوحہ میں مقیم دنیا کا سب سے بڑا ڈریس تیار کرنے والے بین الاقوامی شہرت یافتہ اور گنیز بک کے ریکارڈ ہولڈر فیشن ڈیزائنر کی ایمان افروز داستان نشر کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق معروف بھارتی اداکارہ ایشوریا رائے کیلئے 27 جوڑے ڈیزائن کرنے والے محمد سلطان نے قرآن کریم نہایت قیمتی اور نادر نسخہ تیار کیا ہے۔ انہوں نے قرآن کریم کی آیات کو بہترین انداز میں اپنے ہی خط سے لکھ کر اسے خالص سونے کے نگینوں سے مزین کیا ہے۔ سلطان محمد پہلے بالی ووڈ کے لیڈیز فیشن ڈیزائنر تھے۔ وہ ایشوریا رائے سمیت مختلف انڈین اداکارائوں کے کپڑے ڈیزائن کرتے تھے۔ 52 میٹر کپڑے سے ایک لیڈیز سوٹ تیار کرنے پر ان کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں درج کیا گیا تھا، اسے دنیا کا سب سے بڑا جوڑا قرار دیا گیا تھا۔ مگر اچانک سلطان محمد کا دل دین کی طرف مائل ہوا اور انہوں نے عزم کیا کہ جس طرح انہوں نے لیڈیز کپڑوں کی ڈیزائننگ کرکے عالمی شہرت حاصل کی، اسی طرح وہ قرآن کریم کی بھی ایسی کوئی خدمت کریں۔ یہ سوچ کر پہلے انہوں نے بنیادی اسلامی تعلیم حاصل کرنا شروع کی اور ساتھ ہی عربی رسم الخط کی خطاطی کی تربیت بھی حاصل کرتے رہے۔ پھر وہ قطر کے دارالحکومت دوحہ چلے گئے، جہاں انہیں اپنے دیرینہ شوق کو پورا کرنے کیلئے مناسب ماحول بھی مل گیا۔ دوحہ میں انہوں نے مزید دینی تعلیم حاصل کی اور ساتھ ہی نامور اساتذہ کی نگرانی میں خطاطی کی خوب مشق کرکے بہترین خطاط بن گئے۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کا تہیہ کرلیا۔ چونکہ یہ محنت طلب کام ہونے کے ساتھ خطیر رقوم کا بھی متقاضی تھا۔ اس لئے محمد سلطان کو اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی اس پر لگانا پڑی۔ وہ 7 برس تک مسلسل اس منصوبے پر کام کرتے رہے۔ اپنے پاس موجود رقم ختم ہونے پر انہوں نے دوست احباب کا بھی تعاون حاصل کیا۔ آیات قرآنی کو انہوں نے پہلے ایک مخصوص کاغذ پر اپنے ہاتھ سے لکھا، اس کیلئے کمپیوٹر یا کسی اور چیز سے مدد نہیں لی۔ وہ پہلے آیات کو لکھتے، پھر ان کے نمبر ڈالتے۔ پھر لکھی ہوئی آیات پر چھوٹے چھوٹے قیمتی نگینوں کو چسپاں کرتے۔ انہوں نے ایسی مہارت سے یہ کام کیا ہے کہ ایسا لگتا ہے اس قرآن کو صرف نگینوں سے ہی لکھا گیا ہے۔ انہوں نے کلر کی ڈیزائننگ کیلئے سونے کے ساتھ دیگر دھاتوں اور موتیوں کو بھی جابجا استعمال کیا ہے۔ نگینوں سے آیتوں کو مزین کرنے کے بعد اوراق کی پلاسٹک کوٹنگ کی گئی تاکہ نگینے محفوظ رہیں، یہ انتہائی عرق ریزی کا کام تھا۔ محمد سلطان کے بقول ان کے اہل خانہ نے اس مبارک اور بابرکت کام میں بھرپور ساتھ دیا۔ یہ 10 ملین قطری ریال (38 کروڑ 17 لاکھ پاکستانی روپے) سے زیادہ کا منصوبہ تھا۔ (ایک امریکی ڈالر تقریباً پونے چار قطری ریال کے برابر ہے) جب محمد سلطان انڈیا میں تھے، تو انہوں نے اپنے والد اور خاندان کے دیگر افراد کے سامنے اپنا منصوبہ رکھا، سب نے حسب استطاعت تعاون کی پیشکش کی۔ ان کا پورا خاندان ڈیزائننگ سے وابستہ اور صاحب ثروت ہے۔ مگر اخراجات کا سوچ کر محمد سلطان ہمت نہ کرسکے۔ پہلے تو انہیں ایسا مخصوص کاغذ ہی نہیں مل رہا تھا، جو ان کے منصوبے کیلئے کارآمد ہو۔ پھر تلاش بسیار سے امریکہ سے ملا۔ اس مخصوص کاغذ کا سائز x24 18 اور x30 24 ہے۔ اس لئے ایک ہی ورق کا وزن 25 کلوگرام بنتا ہے۔ قرآن کریم مکمل ہونے کے بعد اس کا مجموعی وزن 750 کلوگرام بنا ہے۔ محمد سلطان کی خواہش کے مطابق ان کے ہاتھ کا تیار شدہ یہ نادر قرآنی نسخہ قطر کے متحف الفن الاسلامی نامی میوزیم کی زینت بنے گا۔ تاہم فی الحال اس کے کور پر کچھ کام باقی ہے۔ خطاط محمد سلطان نے بتایا کہ اس قرآن کریم میں 70 کلوگرام سونا لگا ہے۔ پہلے اور آخری صفحے کو انہوں نے خصوصی طور پر منفرد انداز سے ڈایزائن کیا ہے۔ صرف ان دو صفحات پر لگنے والے قیمتی نگینوں کی تعداد 60 ہزار ہے۔ جبکہ چاندی اور دیگر قیمتی جواہرات اس کے علاوہ ہیں۔ اس قرآن کریم کے صفحات کی تعداد 604 ہے۔ محمد سلطان کی خواہش ہے کہ آیات کے علاوہ تمام صفحات کو بھی سونے سے مزین کرنا چاہئے، تاہم ان کے پاس مزید گنجائش نہیں ہے۔ محمد سلطان نے بتایا کہ یہ عظیم الشان منصوبہ 7 برس میں مکمل ہوا۔ ہاتھ کی لکھائی کے بعد آیات کو سونے اور قیمتی نگینوں سے مزین کرکے تیار کردہ یہ دنیا کا پہلا قرآنی نسخہ ہے۔ کتاب الٰہی کی اس خدمت کو سلطان اپنے لیے اعزاز اور سرمایہ آخرت سمجھتے ہیں۔ آخر میں محمد سلطان کا کہنا تھا کہ اس کار خیر میں بہت سے دوستوں نے ان کے ساتھ دل کھول کر تعاون کیا۔ لیکن شیخ فہید بشیر کا سب سے کلیدی کردار تھا۔
٭٭٭٭٭
Next Post