سرفروش

0

قسط نمبر: 222
عباس ثاقب
یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جس نے نوجوانی کے امنگوں بھرے دور میں اپنی جان خطرے میں ڈال دی۔ صرف اس لئے کہ وطن عزیز پاکستان کو دشمنوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔ جمال صاحب کراچی کے قدیم رہائشی ہیں اور ان دنوں گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ عمر کے آخری حصے میں بصد اصرار اس بات پر آمادہ ہوئے کہ اپنی زندگی کے تہلکہ خیز گوشوں سے پردہ اٹھائیں۔ ان کا اصل نام کچھ اور ہے۔ بعض نا گزیر اسباب کی بنا پر انہیں ’’جمال‘‘ کا فرضی نام دیا گیا ہے۔ اس کہانی کو ڈرامائی شکل دینے کیلئے کچھ زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی۔ کیونکہ یہ حقیقی ایڈوینچر کسی سنسنی خیز ناول سے زیادہ دلچسپ ہے۔ جمال صاحب کی کہانی ان لوگوں کیلئے دعوتِ فکر ہے، جنہیں یہ ملک بغیر کسی جد و جہد اور محنت کے ملا اور انہوں نے اس کی قدر کرنے کے بجائے اسی سے شکایات شروع کر دیں۔ امید ہے کہ قسط وار پیش کی جانے والی یہ کہانی ’’امت‘‘ کے خوش نظر قارئین کی پذیرائی حاصل کرے گی۔ (ادارہ)
مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ دونوں بہنوں نے میرا پیغام بخوبی سمجھ لیا تھا اور وہ کسی بھی متوقع یا غیر متوقع صورتِ حال کے لیے ذہنی طور پر تیار تھیں۔ میں نے بتایا کہ ہمیں علی الصباح روانہ ہونا ہے، تو ان دونوں نے جلد بیدار ہونے کے ارادے سے اپنے بستروں کا رخ کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ میں نے ان سے دو باتوں کی مزید اجازت مانگی۔ ’’دیکھو، اگر ہم کسی بھی وجہ سے واپس نہ لوٹ سکے، تب بھی تم دونوں کو کسی معاشی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ فی الحال تم یہ دس ہزار روپے اپنے پاس رکھ لو۔ اس کے علاوہ بھی ہم بہت بھاری رقم یاسر کے پاس بطور امانت چھوڑ کر جا رہے ہیں، جسے تم اپنے استعمال میں لا سکتی ہو‘‘۔
یہ کہہ کر میں نے اپنے پاس پہلے سے تیار نوٹوں کی گڈیاں رخسانہ کے ہاتھ میں دے دیں، جو اس نے حفاظت سے رکھنے کی ہدایت کے ساتھ جمیلہ کے حوالے کر دیں۔ ان کی مزید حوصلہ افزائی کر کے میں بیٹھک میں ظہیر کے پاس آگیا، جو بے چینی سے میرا انتظار کر رہا تھا۔ ’’شکر ہے، ایک مشکل مرحلہ نمٹ گیا‘‘۔ میں نے اسے دونوں بہنوں سے اپنی گفتگو کے بارے میں بتانے کے بعد کہا۔ ظہیر نے تائید میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔ ’’وہ تو ٹھیک ہے، لیکن اگر یہ دونوں بہنیں یاسر اور ناصر سے رشتوں کے بارے میں آپ کی تجویز مان لیتیں تو ہم دونوں بالکل بے فکر ہوکر اپنے مشن پر نکلتے‘‘۔ میں نے اسے تسلی دی کہ شاید وقت گزرنے کے ساتھ معاملہ خود بخود اس رخ پر آگے بڑھ جائے۔ اس کے بعد ہم دونوں صبح سویرے اٹھنے کے ارادے سے اپنے بستروں میں دبک گئے۔
صبح یاسر کے جگانے پر ہماری آنکھ کھلی۔ ناصر بھی اس کے ہمراہ تھا۔ اس نے بتایا کہ وہ رات ہی کو اپنے انتہائی قریبی دوست کی شیورلیٹ گاڑی چند دن کے لیے مستعار لے آیا تھا اور رات کو تیل پانی چیک کرلیا ہے۔ اب وہ روانگی کے لیے بالکل تیار ہے۔
میں نے پوچھا کہ کسی ناخوش گوار صورتِ حال میں کار کے پولیس کے ہتھے چڑھ جانے یا نقصان پہنچ جانے کی صورت میں کیا ہوگا۔ ناصر نے یقین دلایا کہ وہ اپنے دوست کے ساتھ مل کر معاملہ سنبھال لے گا۔
اس اثنا میں جمیلہ نے بتایا کہ ناشتہ تیار ہے۔ ہم چاروں نے مل کر ناشتہ کیا۔ میں نے اپنا ہلکا پھلکا میک اپ کرتے ہوئے یاسر کو رسماً دونوں لڑکیوں سے اپنی گفتگو کے بارے میں بتایا۔اس میک اپ کے بعد میں بھاری مونچھوں والا ادھیڑ عمر زمیں دار دکھائی دے رہا تھا، جس کی اچکن کی اوپری جیب سے قیمتی جیبی گھڑی کی سنہری زنجیر لٹک رہی تھی، اور ہاتھ میں ٹیک کی قیمتی چھڑی تھی، جس پر نگینے جڑے ہوئے تھے اور دستہ ہاتھی دانت کا تھا۔
میرے لباس کے علاوہ شان دار گاڑی بھی میری امارت کی گواہی دے رہی تھی۔ یاسر نے یقین دلایا کہ اب مجھے ان دونوں کی طرف سے فکرمند ہونے کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔ ظہیر نے منصوبے کے مطابق ڈرائیور کی وردی زیب تن کر رکھی تھی اور اس کے سر پر چھجے والی کڑک ٹوپی تھی۔ میں نے اس کے چہرے پر بھی پتلی اور نوکیلی مونچھوں کا اضافہ کر دیا تھا۔ سادہ شیشوں کی عینک نے بھی اس کی شکل خاصی بدل ڈالی تھی۔ یہ سب انتظام بھی ناصر نے کیا تھا۔ ظہیر نے احاطے میں کھڑی چمچاتی ہوئی گاڑی کے اسٹیئرنگ کے پیچھے بیٹھ کر اگنیشن میں چابی گھمائی۔ چابی گھومتے ہی ہلکی سی زن زناہٹ کے ساتھ طاقت ور انجن اسٹارٹ ہو گیا۔ سب کو خدا حافظ کہہ کر ہم کہر اور ٹھنڈ میں لپٹی سڑک پر نکلے تو دور دور تک کوئی ذی روح دکھائی نہیں دے رہا تھا۔
جی ٹی روڈ پر چڑھنے کے بعد ظہیر نے گاڑی کی رفتار بڑھا دی۔ وہ طاقت ور گاڑی چلانے میں اسے یقیناً مزا آرہا ہوگا۔ جبکہ میں اپنی آن بان اور شان کے اظہار کے لیے گردن اکڑائے، سامنے سڑک پر نظریں جمائے رکھنے پر مجبور تھا۔ یہ گاڑی، ظاہر ہے، جیپ کے مقابلے میں کہیں زیادہ آرام دہ تھی اور سردی کی شدت بھی ہمیں زیادہ تنگ نہیں کر پا رہی تھی۔
لیکن کھنا کے اڈے پر پہنچنے تک ہی میری گردن دکھنے لگی اور میں نے اپنے کر و فر کا مظاہرہ مناسب وقت تک کے لیے ملتوی کر دیا۔
جی ٹی روڈ کو رام پور قصبے سے ملانے والے چوراہے پر ہمیں پہلی بار پولیس کی گاڑی سڑک کنارے کھڑی دکھائی دی۔ ہم دونوں ہی کسی ہنگامی صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے تیار ہوگئے۔ میرے پاس پولیس اہل کاروں کو سنانے کے لیے ایک پُر اثر اور قابلِ یقین کہانی تیار تھی۔ لیکن وہاں موجود سنتری اور ان پر تعینات حوالدار مجھے کچھ زیادہ مستعد دکھائی نہ دیئے۔ انہوں نے ہماری گاڑی روکنے کے لیے کوئی اشارہ نہیں کیا۔ لہٰذا ظہیر ان پر بے نیازانہ نظر ڈالتے ہوئے گاڑی سیدھی آگے بڑھا لے گیا۔
ظہیر لدھیانے میں اپنی شکل دکھانے سے گریزاں تھا، لہٰذا اس نے شہر کی حدود شروع ہونے سے ذرا پہلے گاڑی ایک ذیلی سڑک پر گھما دی اور پھر ایک لمبا چکر کاٹ کر دریائے ستلج سے ذرا پہلے واقع لادھو والا قصبے سے دوبارہ جی ٹی روڈ پر آگیا۔ ظہیر کے مطابق منڈی گوبند گڑھ سے کپورتھلا کا فاصلہ اسّی میل سے زائد تھا اور وہ پُر امید تھا کہ ہم زیادہ سے زیادہ اڑھائی گھنٹوں میں یہ فاصلہ طے کرلیںگے۔
چند ہی منٹ بعد ہم دریائے ستلج پر بنے پُل کے قریب پہنچ گئے۔ مجھے پتا تھا کہ یہاں ہمارا واسطہ لازماً پولیس سے پڑے گا۔ لہٰذا میں فوراً جاگیردار کے رنگ میں آگیا۔ میرا اندازہ غلط نہیں نکلا۔ پل سے ذرا پہلے ایک خیمے کی شکل میں ایک عارضی پولیس چوکی موجود تھی اور سڑک کنارے قائم ناکے پر کھڑے مسلح سنتری ہر گاڑی میں جھانک کر اور سرسری پوچھ گچھ کے بعد گاڑیوں کو پُل پر جانے کی اجازت دے رہے تھے۔ ظہیر نے گاڑی کی رفتار ہلکی کر دی اور ناکے پر پہنچ کر بریک لگا دیا۔ گھنی خشخشی داڑھی اور اوپر کی طرف ڈوری سے بندھی موٹی مونچھوں والے سنتری نے خوابیدہ نظروں سے گاڑی میں جھانکا اور پھر قدرے احترام سے مجھ سے مخاطب ہوا۔ ’’سرکار، تسی کون او تے کتھے چلے او؟‘‘۔
میں نے ہریانوی لہجے میں رعب دار آواز کے ساتھ کہا۔ ’’پہلاں تو یہ گیان دو سنتری جی، یہ چوکی، ناکہ کس کھوسی میں لگا رکھا اے تھم نے؟ کوئی منتری آن والا ہے کے؟‘‘۔
میرے لہجے کے تحکم نے حسب منشا اثر کیا۔ اس نے عاجزی سے کہا۔ ’’نہ جی، بس اوپر والوں کا آرڈر ہے۔ مٹھو سنگھ جی کے بنگلے پر بھاری ڈاکا پڑا ہے پٹیالے میں۔ ڈاکو ان کے منیجر اور گارڈ کو مار کے لاکھو ں کا مال لے گئے ہیں‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’یار یہ تو سارے پنجاب نے بیرا (پتا) ہے، کیا ان لٹیروں نے کھبر نہ ہوگی؟ وہ باؤلے ہیں، جو اپنی گچی (گردن) پکڑوانے پولیس ناکوں پر آویں گے؟‘‘۔
سنتری نے کھسیانا ہوکر کہا۔ ’’کیا کریں سرکار، ڈیوٹی تو ڈیوٹی ہے ناں!‘‘۔
اتنا کہہ کر اس نے ظہیر کو گاڑی پُل پر لے جانے کی اجازت دے دی۔ پھگواڑا قصبے پر ایک بار پھر ہماری گاڑی میں جھانکا گیا۔ تاہم میرے بگڑے ہوئے تیور دیکھ کر حوالدار نے محض نام پوچھنے پر اکتفا کیا۔ میں نے ایک حقارت بھری نظر اس کی خستہ حال وردی پر ڈالی اور رعونت بھرے لہجے میں کہا۔ ’’کیا مصیبت ہے۔ پنجاب میں تو سفر کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ ہر دو میل پر ناکے لگے ہیں۔ کیوں روکا ہے ہمیں؟ کیا ہم تمہیں کوئی چور ڈاکو لگتے ہیں؟ خانہ پُری کرنی ہے تو لکھ لو۔ ہمارا نام کنور مہندر سنگھ بھلّا ہے، اور ہم نابھے کے نمبردار ہیں۔ اپنے بیمار عزیز کو دیکھنے کپورتھلے جارہے ہیں‘‘۔
حوالدار نے منمناتے ہوئے زحمت دینے پر مجھ سے معذرت کی اور گاڑی لے جانے کی اجازت دے دی۔ مجھے اندازہ تھا کہ جالندھر پہنچنے پر ایک بار پھر یہ کہانی دہرائی جائے گی۔ چنانچہ میں نے آرام دہ نشست کی پشت سے سر ٹکاکے آنکھیں بند کر لیں اور ہلکے خراٹیں لینے لگا۔ مضافاتی علاقے سے ذرا پہلے لگے ناکے پر گاڑی رُکی تو سہی، لیکن شاید مسافروں پر ایک نظر ڈالنے پر اکتفا کیا گیا۔ مزید پونے گھنٹے کے سفر کے بعد ہم کپورتھلا پہنچ گئے۔ ظہیر نے ایک مقامی باشندے سے ڈوگراں والا گاؤں کا پتا پوچھا اور پھر ایک نیم پختہ اور نیم ہموار راستے پر گاڑی ڈال دی۔ اب میں دوبارہ رئیس زمانہ، کنور مہندر سنگھ بھلّا کے روپ میں آچکا تھا۔ (جاری ہے)

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More