مرزا عبدالقدوس
کوئٹہ سے گزشتہ پانچ برس کے دوران بتیس سے زائد ڈاکٹرز کو تاوان کی وصولی کے لئے اغواء کیا گیا، جن میں تقریباً بیس ڈاکٹرز زندہ واپس نہیں آسکے اور انہیں قتل کر دیا گیا۔ پچیس روز قبل معروف نیورو سرجن ڈاکٹر شیخ ابراہیم خلیل کو اغوا کیا اور ذرائع کے مطابق اغوا کاروں نے اب تک ان کے اہل خانہ سے رابطہ نہیں کیا۔ نہ ہی سرکاری انتظامیہ یہ طے کرسکی ہے کہ ان کے اغوا کار کون ہیں، ان کے مقاصد اور مطالبات کیا ہیں۔ بعض دیگر ذرائع کے بقول اس سلسلے میں کچھ پیش رفت ہو رہی ہے۔ لیکن اس پیش رفت سے مغوی ڈاکٹر کے اہلخانہ سمیت متعلقہ افراد میں سے کسی کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ یہی سبب ہے کہ کوئٹہ کے ڈاکٹرز کی ہڑتال پچیسویں روز میں داخل ہو گئی ہے اور اس کی وجہ سے صوبائی دارالحکومت کے تمام بڑے سرکاری اسپتال، بولان میڈیکل کمپلیکس، سول اسپتال، فاطمہ جناح میموریل اسپتال، شیخ خلیفہ بن زید اسپتال، مفتی محمود میموریل کمپلیکس اور بے نظیر بٹھو اسپتال عملاً بند ہیں۔ ڈاکٹرز کی ہڑتال کے سبب تقریباً آٹھ سے دس ہزار مریض روزانہ خوار ہورہے ہیں۔ بالخصوص غریب مریضوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ واضح رہے کہ بلوچستان میں سردی کی شدت میں اضافی کی وجہ سے ہر دوسرا تیسرا آدمی موسمی بیماریوں کا شکار ہے۔ عام افراد ان حالات میں سخت پریشان ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر ابراہیم خلیل کو تیرہ دسمبر کی رات زرغون روڈ سے ماڈل ٹاؤن کے علاقے سے اس وقت اغوا کیا گیا تھا جب وہ اپنے گھر سے اپنے نجی کلینک جارہے تھے۔ ان کی گاڑی بعد میں شہباز ٹاؤن سے مل گئی، لیکن ابھی ان کے بارے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی اور نہ ہی یہ معلوم ہو سکا ہے کہ انہیں کس گروپ، تنظیم نے اغوا کیا ہے۔ تھانہ بجلی روڈ کوئٹہ میں ان کے اغوا کا مقدمہ درج ہوا۔ اس کیس کے تفتیشی افسر سب انسپکٹر ملک آصف نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ اب تک اس کیس میںکوئی پیش رفت نہیں ہوسکی۔ اغوا کار کون ہیں اور ان کے کیا مقاصد ہیں، یہ سب جاننے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس صورت حال میں اب صوبائی انتظامیہ نے ایس ایس پی انوسٹی گیشن کوئٹہ کی سربراہی میں ایک جوائنٹ انوسٹی کیشن ٹیم (JIT) تشکیل دی ہے، جو ڈاکٹر ابراہیم خلیل کی بازیابی کے لئے کام کرے گی۔ ذرائع کے مطابق اس جے آئی ٹی میں آئی ایس آئی، ایم آئی، آئی بی، اسپیشل برانچ، سی ٹی ڈی کے ارکان کے علاوہ تفتیشی افسر کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر ابراہیم خلیل کا خاندان لاہور میں سکونت پذیر تھا، جب کہ وہ اکیلے کوئٹہ میں رہ رہے تھے۔ اس واقعے کے بعد ان کی اہلیہ نے کوئٹہ آکر انتظامی افسر کے علاوہ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن و دیگر محترک تنظیموں اور ذمہ داروں سے بھی ملاقات کی۔ ذرائع کے بقول ڈاکٹر ابراہیم کی اہلیہ بہت پریشان اور متفکر تھیں، لیکن ڈاکٹرز اور انتظامیہ کی اس سلسلے میں کوششوں کو دیکھ کر اورا ن سے بات چیت کر کے وہ کافی مطمئن ہوئیں۔
کوئٹہ میں موجود ذرائع نے بتایا کہ گزشتہ پانچ برسوں میں 32 سے ڈاکٹرز اغوا کئے گئے ہیں اور ان میں سے بیس کے قریب قتل کئے گئے۔ مسلسل اغوا کے بعد کوئٹہ کے ڈاکٹرز اور میڈیکل کے شعبے سے وابستہ پروفیسرز کافی خوف زدہ ہیں اور ڈاکٹروں کی بڑی تعداد نے شام کے بعد گھروں سے نکلنا بند کردیا ہے۔ اگر مجبوراً کسی ڈاکٹر کو کہیں جانا بھی پڑے تو وہ اکیلے جانے سے گھبراتا ہے اور فیملی کے دو تین افراد کو ساتھ لے کر باہر نکلتا ہے۔
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن بلوچستان کے صوبائی صدر ڈاکٹر فرید کے مطابق اسّی نوّے فیصد ڈاکٹر خوف زدہ ہیں اور انہوں نے اپنی سرگرمیاں محدود کرتے ہوئے اپنے آپ کو شام کے بعد گھروں تک محدود کرلیا ہے۔ ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر فرید نے کہا کہ ’’ہمارا حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ ڈاکٹر ابراہیم خلیل کو جلد از جلد بخیریت بازیاب کرایا جائے۔ ہم سیاسی لوگ نہیں ہیں کہ حکومت یا انتظامیہ پر ناکامی وغیرہ کا الزام عائد کریں۔ لیکن یہ حقیقت ہمارے سامنے ہے کہ ہمار ایک انتہائی سینئر ساتھی پچھلے پچیس دن سے بازیاب نہیں ہوئے۔ اس سلسلے میں وزیر داخلہ بلوچستان، ہوم سیکریٹری، آئی جی پولیس سے بھی ہمارا مستقل رابطہ ہے۔ وہ ہمیں تسلی بھی دے رہے ہیں۔ لیکن عملاً ابھی تک کچھ نہیں ہوا‘‘۔ ایک سوال پر انہوں نے تصدیق کی کہ 2013ء سے اب تک 32/ 35 ڈاکٹرز کوئٹہ سے اغوا ہوئے ہیں۔ ان میں سے بعض بھاری رقم دے کر واپس آئے، جبکہ غالباً بیس ڈاکٹرز کو قتل کردیا گیا۔ ڈاکٹر فرید نے مزید بتایا کہ اغوا ہونے والے تمام ڈاکٹر میڈیکل کے شعبے میں نمایاں مقام کے حامل تھے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ کوئٹہ کے تمام بڑے اسپتالوں میں او پی ڈیز بند ہیں، جس سے یقیناً روزانہ آٹھ سے دس ہزار مریض متاثر ہو رہے ہیں۔ ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’’ہمیں ان غریب افراد کی مشکلات کا احساس ہے۔ اسی وجہ سے ان اسپتالوں میں ہم نے ایمرجنسی سینٹر قائم کئے ہیں۔ اسی طرح ٹراما سینٹر اور لیبر روم بھی کھلے ہیں۔ لیکن جب ڈاکٹرز ہی عدم تحفظ کا شکار ہوں اور درجنوں ڈاکٹرز کے اغوا اور قتل کے بعد بھی انہیں تحفظ حاصل نہ ہو تو ہم بھی مجبور ہیں کہ پرامن احتجاج کا راستہ اختیار کریں‘‘۔ ڈاکٹر فرید کے مطابق ڈاکٹر ابراہیم خلیل کی اہلیہ جو پہلے بہت خوفزدہ تھیں، کوئٹہ میں متعلقہ افراد، خصوصاً ڈاکٹرز سے ملاقات کے بعد کافی مطمئن ہوئیں۔ ایسوسی ایشن سمیت سب لوگ ڈاکٹر صاحب کی بحفاظت واپسی کیلئے نہ صرف دعا گو ہیں، بلکہ متعلقہ سرکاری و انتظامی اداروں سے بھی رابطے میں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جس تسلسل کے ڈاکٹرز کا اغوا ہوا، اس سے یہ تاثر بنتا ہے کہ ڈاکٹرز کو نسبتاً آسان ہدف سمجھ کر جرائم پیشہ افراد اغوا کر کے تاوان طلب کرتے ہیں۔ اس کا سد باب حکومت اور امن و امان کے ذمہ دار اداروں کی ذمہ داری ہے۔ ذرائع کے مطابق مغوی ڈاکٹر کی بازیابی اگر چند دنوں میں نہ ہوئی تو پی ایم اے احتجاج کا سلسلہ اگلے مرحلے میں پورے صوبہ بلوچستان تک پھیلا سکتی ہے۔
٭٭٭٭٭