عباس ثاقب
میری طرف سے شہ پاکر شکتی ببر نے جوشیلے لہجے میں کہا۔ ’’آپ کی عزت، میری عزت ہے کنور جی۔ آپ حکم دو، جو میرے سے ہو سکا، ضرور کروں گا‘‘۔
میں نے قدرے مطمئن لہجے میں کہا۔ ’’مجھے تم سے یہی امید تھی صوبیدار جی، لیکن پہلے میری بات پوری سن لو، تاکہ معاملے کی نزاکت مزید اچھی طرح سمجھ سکو۔ تمہیں یہ تو پتا ہوگا کہ ہمارے علاقے میں ہوشیار پور کے قریب چوہل گووند پور وغیرہ کے قریب واقع کنگر اور میلی کے جنگلوں میں سانبھر، ہرن، گیدڑ، خرگوش وغیرہ سارا سال شکار کے لیے دستیاب ہوتے ہیں۔ لیکن تیندوے اور شیر کا شکار صرف سردیوں میں ملتا ہے۔ جب یہ جانور برفیلے پہاڑوں سے اتر کر میدانی علاقوں میں آتے ہیں۔ اسی لیے ہم نے جاتی سردیوں میں شکار کا پروگرام رکھا تھا‘‘۔
شکتی ببر نے سر ہلاکر تائید کی کہ وہ معاملے کو بخوبی سمجھ رہا ہے۔ میں نے اپنے لہجے میں اضطراب لاتے ہوئے کہا۔ ’’میرے دوستوں میں سے تین کے پاس بڑے شکار کے لائق بندوقیں موجود ہیں۔ باقیوں کے لیے میں نے اپنے پاس سے بندوبست کرلیا ہے۔ لیکن بدقسمتی یہ ہوئی کہ میں نے اس شکار کے لیے دلّی سے جو پکی گولیوں اور بارہ بور کے کارتوسوں کا ذخیرہ منگوایا تھا، وہ میرے ایک کارندے کی نالائقی کی وجہ سے ایک گہری ندی کی تہ میں گر گیا ہے۔ وہ جیپ پر ندی کا پُل پار کر رہا تھا کہ سامنے سے آتی ایک بیل گاڑی سے ٹکر ہوگئی، جس سے ایمونیشن کا صندوق ندی میں گر گیا‘‘۔
مجھے شکتی کے چہرے پر دبے دبے جوش کے آثار دکھائی دیئے۔ وہ بلاشبہ میری آمد کا مقصد سمجھ چکا تھا۔ میں اب اس کی طرف سے زبان کھولے جانے کا منتظر تھا۔ لیکن وہ میری توقع سے زیادہ محتاط نکلا۔
قدرے توقف کے بعد اس نے بے نیازی سے کہا۔ ’’یہ سب سن کر بہت افسوس ہوا کنور جی، لیکن میں سمجھ نہیں سکا کہ اس معاملے میں آپ کی بھلا کیا مدد کر سکتا ہوں؟‘‘۔
میں نے ایک گہرا سانس لیا اور پھر اس کے چہرے پر نظریں جماتے ہوئے کہا۔ ’’بھولے بننے کا ناٹک کیوں کر رہے ہو شکتی ببر، پورے پنجاب میں ایک تم ہی تو میرا یہ مسئلہ حل کر سکتے ہو!‘‘۔
شکتی میری بات سن کر کسمسایا۔ اس نے کچھ کہنا چاہا، لیکن پھر کچھ سوچ کر خاموش رہا۔ میں نے کہا۔ ’’بات یہ ہے کہ میں اپنے کوٹے کے علاوہ بلیک مارکیٹ سے بھی بھاری تعداد میں ایمونیشن خرید چکا ہوں۔ اب دلّی یا کہیں اور سے اتنی بھاری تعداد میں گولیاں ایک ساتھ حاصل کرنے کی کوشش کی تو خفیہ پولیس کو مخبری ہو سکتی ہے۔ تمہیں شاید پتا نہیں، میں علاقے کی سیاست میں بھی کافی سرگرم ہوں۔ ایسا کوئی اسکینڈل بنا تو میں مشکل میں پھنس جاؤں گا‘‘۔
شکتی سمجھ گیا کہ اب کھل کر بات کیے بغیر بات نہیں بنے گی۔ لیکن وہ اب بھی اپنے پتے چھپائے رکھنے پر مصر تھا۔ اس نے بغور مجھے دیکھا اور پھر معصوم لہجے میں کہا۔ ’’میں نے کہا ناں کنور جی، مجھے بتائیں تو سہی میں اس سلسلے میں آپ کی کیا مدد کر سکتا ہوں؟ میں تو شکار بھی نہیں کھیلتا کہ اپنے حصے کے کارتوس آپ کو پیش کردوں‘‘۔
میں نے اسے کسی طرح زبان کھولنے پر آمادہ نہ پاکر قدرے ناراض لہجے میں کہا۔ ’’تم عجیب بندے ہو شکتی جی۔ تمہارا کیا خیال ہے؟ میں سو میل کے قریب لمبا، بے آرامی والا یہ سفر تمہاری شکل دیکھنے کے لیے طے کر کے یہاں آیا ہوں؟ اب آنکھ مچولی چھوڑو اور سیدھے سیدھے بتاؤ کہ تم کتنا ایمونیشن مجھے مہیا کرسکتے ہو اور اس کے تمہیں کتنے دام چاہئیں؟ یہ بات کان کھول کر سن لو کہ مجھے پکا پتا ہے کہ تمہارے پاس کئی طرح کی گولیوں اور بارہ بور کے کارتوسوں کا بھاری ذخیرہ محفوظ ہے، جو تم نے انگریز فوج سے ہتھیایا ہے۔ مجھے یہ بات تم سے کئی بار خریداری کرنے والے ایک قابلِ اعتماد بندے نے بتائی ہے‘‘۔
اگلے چند لمحوں میں شکتی کے چہرے نے کئی رنگ بدلے۔ خوف، اضطراب، بے یقینی، عدم تحفظ، گو مگوں کی کیفیت۔ میں نے اسے اطمینان دلانے کے لیے نرم، لیکن مستحکم لہجے میں کہا۔ ’’شکتی جی، ہماری ملاقات کو زیادہ وقت نہیں ہوا ہے، لیکن میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ تمہارا یہ راز کم ازکم میری طرف سے کسی اور تک نہیں پہنچے گا۔ میں یشونت کی بھی ضمانت دیتا ہوں‘‘۔
اس قدر یقین دہانی کے باوجود اسے متذبذب پاکر میں نے پینترا بدلا اور اپنے لہجے میں عاجزی لاتے ہوئے کہا۔ ’’میں نے بتایا ناں کہ میں عزت داؤ پر لگنے پر مجبوراً یہاں آیا ہوں۔ میرے دوستوں کے سامنے میری بھد اڑنا تقریباً یقینی ہے۔ اگر تم مجھے زندگی بھر کی اس شرمندگی سے بچنے میں مددگار بن جاؤ تو میں مرتے دم تک تمہارا احسان مند
رہوں گا۔ میں تمہارے مال کی منہ مانگی قیمت دینے کو تیار ہوں، اور یقین کرو میں اتنا بے غیرت ہرگز نہیں ہوں کہ اپنے محسن کو نقصان پہنچانے کی کوشش کروں‘‘۔
اس موقع پر ظہیر نے معاملے میں مداخلت کی۔ وہ قدرے شکایت بھرے لہجے میں مجھ سے مخاطب ہوا۔ ’’کنور جی، آپ جیسی بلند مرتبہ شخصیت کو اس طرح کی منت سماجت زیب نہیں دیتی۔ میں نے آپ سے کہا تھا ناں کہ مجھے خود اس سے سودا کرنے کا موقع دیں؟ بہت سے لوگوں کو عزت راس نہیں آتی‘‘۔
پھر وہ جارحانہ لہجے میں شکتی ببر سے مخاطب ہوا۔ ’’صوبیدار جی، تم کو دراصل اندازہ نہیں ہے کہ کون سی ہستی تم سے بات کر رہی ہے۔ پہلے تومیری یہ بات ذرا کان کھول کر سن لو، ہم پکی اطلاع کے ساتھ یہاں آئے ہیں، اور اگر کنور جی کو تمہیں پکڑوانا ہوتا تو انہیں صرف ایک فون گھمانا پڑتا۔ کنور یدوندر سنگھ جی آف پٹیالا ان کے اسکول کے دور کے ساتھی ہیں‘‘۔
مجھے خطرہ محسوس ہوا کہ ظہیر نے کچھ زیادہ سخت ہاتھ ڈال دیا ہے، لہٰذا میں نے معاملہ سنبھالنے کی کوشش کی۔ ’’یار شکتی ببر، تم خود بتاؤ، کیسے یقین دلاؤں تمہیں کہ مجھ سے تم کو کوئی خطرہ نہیں ہے؟‘‘۔
پتا نہیں ظہیر کی گُھرکی نے کام دکھایا یا میری عاجزی متاثر کرگئی تھی، بہر حال اس مرتبہ شکتی نے بات شروع کی تو اس کا لہجہ اعتماد لیے ہوئے تھا۔ ’’ٹھیک ہے کنور جی، خطرے کو نظر انداز کر کے میں آپ کی بات کا اعتبار کرلیتا ہوں۔ آپ بتائیے کہ کس طرح کا ایمونیشن چاہیے؟ اور کتنی تعداد میں؟‘‘۔
میں نے اطمینان کا سانس لیتے ہوئے کہا۔ ’’دھن باد شکتی جی۔ تم نے میرا مان رکھ لیا۔ دیکھو اب تم سیدھی بات کر رہے ہو تو تھوڑی سی مہربانی اور کر دو۔ مجھے یہ بتادو کہ تمہارے پاس کس کس طرح کی گولیاں، کتنی تعداد میں موجود ہیں۔ ہو سکتا ہے میں شکار کے علاوہ استعمال ہونے والی گولیاں بھی خرید لوں۔ میرے بہت سے دشمن ہیں۔ اس لیے آٹھ دس محافظ رکھے ہوئے ہیں اور ہمیں ایمونیشن کی ضرورت پڑتی رہتی ہے‘‘۔
قدرے تذبذب کے بعد شکتی ببر نے مضبوط لہجے میں بتایا۔ ’’بالکل درست گنتی تو میں نے بھی نہیں کی، لیکن میرے اندازے کے مطابق میرے پاس اسٹین گن کی گولیوں کے چھ سیل بند ڈبے محفوظ ہیں۔ یعنی تقریباً بارہ سو گولیاں۔ تھری ناٹ تھری کا ایک ہزار گولیوں والا تھیلا ہاتھ لگا تھا، جس میں سے دو سو کے قریب گولیاں میں فروخت کر چکا ہوں۔ پندرہ سو کے قریب بارہ بور کے کارتوس تھے، لیکن ان میں سے چار سو کے قریب کارتوس میں بیچ چکا ہوں‘‘۔
میں نے دل ہی دل میں خوش ہوتے ہوئے بظاہر بے نیازی سے پوچھا۔ ’’سنا ہے تم نے رائفلیں وغیرہ بھی لوٹی تھیں؟‘‘۔
اس نے ہاں میں گردن ہلائی۔ ’’ہاں، لیکن وہ میں نے بٹوارے سے پہلے ہی ٹھکانے لگا دی تھیں۔ اس زمانے میں میرے پتا زندہ تھے اور انہیں چھاپے کا خطرہ لگا رہتا تھا‘‘۔
میں نے پوچھا۔ ’’یہ تمام ایمونیشن قابلِ استعمال حالت میں ہے ناں؟ میرا مطلب ہے سیلن وغیرہ سے برباد تو نہیں ہوگیا؟‘‘۔
میری بات سن کر شکتی ببر نے ہلکا سا قہقہہ لگایا۔ ’’آپ فکر نہ کریں کنور جی، پندرہ سال فوج میں جھک نہیں ماری۔ ایک دانا بھی خراب نہیں ہونے دیا۔ ایمونیشن تو ہماری زندگی کی ضمانت ہوتا ہے۔ اس کی حفاظت تو ہمیں سب سے پہلے سکھائی جاتی ہے‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭