عظمت علی رحمانی
پنجاب کی مساجد میں جمعہ کا سرکاری خطبہ نافذ کیا جانے لگا ہے۔ پولیس کی جانب سے مساجد کے ائمہ کو تیار شدہ مواد فراہم کیا جا رہا ہے۔ جبکہ سرکاری خطبہ فراہم کرنے کیلئے امام و خطیب کے واٹس ایپ گروپ بھی بنائے جا رہے ہیں۔ دوسری جانب دینی معاملات میں حکومت کی بڑھتی ہوئی مداخلت پر علمائے کرام نے سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔
یاد رہے کہ ماضی میں مختلف حکومتوں کی جانب سے مدارس، اہل مدارس اور نصاب کے حوالے سے تبدیلیوں اور اصلاحات کے اعلانات کئے جاتے رہے ہیں۔ جبکہ مشرف دور حکومت میں مدارس کے خلاف سخت پابندیاں فافذ کرنے اور نئے ماڈل دینی مدارس کے قیام کا منصوبہ بھی لایا گیا تھا۔ تاہم مشرف دور میں سرکاری خطبے کے نفاذ کا معاملہ نہیں اٹھایا گیا۔ جبکہ سابق دور حکومت میں ملک بھر کی مساجد میں بیک وقت اذان اور نماز کا آئیڈیا پیش کیا گیا تھا، جس کو سعودی عرب سے مماثلت و تشبیہ دی گئی تھی۔ مذکورہ منصوبے کو اسلام آباد کی مساجد و مدارس سے شروع کرنے کا باقاعدہ اعلان بھی کیا گیا تھا۔ تاہم یہ سلسلہ چل نہیں سکا۔ اب موجودہ حکومت کی جانب سے علمائے کرام کو اپ ڈیٹ کرنے اور دینی مدارس میں اصلاحات لانے کے اعلانات کئے جارہے ہیں۔ اس کے تحت خیبر پختون کی مساجد کے ائمہ کرام کو 10 ہزار روپے ماہانہ وظیفہ جاری کرنے کا بھی اعلان کیا گیا تھا، جس کی ملک بھر میں علمائے کرام کی جانب سے سخت مخالفت کی گئی۔ تاہم اب مرکز میں تحریک انصاف کی حکومت آنے کے بعد ایسے نا مکمل منصوبوں کو عملی جامہ پہنانا شرو ع کر دیا گیا ہے۔ دینی مدارس کے معاملات میں مداخلت، علمائے کرام پر پابندیاں، مدارس کی بندش سمیت اب پنجاب میں سرکاری خطبہ نافذ کرنے کا نہ صرف اعلان کر دیا گیا ہے، بلکہ اس پر عملدرآمد بھی کرایا جانے لگا ہے۔
’’امت‘‘ کو موصول ہونے والے سرکاری خطبے کی کاپی کے مطابق ملتان پولیس اسٹیشن کے ایس ایچ او طاہر اعجاز کے حکم پر سب انسپکٹر محمد اکبر نے مقامی مساجد کے ائمہ کرام کا واٹس ایپ گروپ بنایا ہے۔ اسی گروپ کے ذریعے تھانے کی حدود میں آنے والی مساجد کے ائمہ کرام کو سرکاری خطبے کا اعلامیہ فراہم کیا گیا ہے۔ سرکاری خطبے میں پانچ پوائنٹ لکھے گئے ہیں کہ جمعہ کا خطبہ ان ہی نکات کے حوالے سے دینا ہے۔ پہلے نمبر پر ’’لڑکیوں کے اسکولوں کے باہر اوباشوں کی نشاندہی‘‘ کے تحت عوام کو بتانا ہے کہ ایسے اوباش ایک طرف والدین اور طالبات کیلئے ذہنی اذیت کا باعث بنتے ہیں۔ دوسری جانب آنے والے دنوں میں جرائم کی راہ اختیار کرتے ہیں۔ ان کی نشاندہی کرنا، بے راہ روی کے خاتمے کیلئے نہایت ضروری ہے۔ دوسرا پوائنٹ ’’شادیوں میں ہوائی فائرنگ‘‘ کے تحت بتایا گیا ہے کہ یہ امر ایک طرف تو خوشی کو غمی میں تبدیل کر دیتا ہے۔ جبکہ معاشرے میں ایک جاہلانہ رسم کی طرف اشارہ کرتا ہے، جو قانون کی دھجیاں بکھیرنے کے مترادف ہے۔ لہٰذا اس پر کنٹرول، عوام اور پولیس کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ تیسرے پوائنٹ ’’ون وہیلنگ‘‘ میں لکھا گیا ہے کہ یہ ایک جان لیوا کھیل اور پیسے کا ضیاع ہے۔ یہ والدین کو بالآخر پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں دیتا۔ اس کی حوصلہ شکنی ہماری مشترکہ ذمہ داری ہے۔ چوتھے پوائنٹ ’’کم عمر ڈرائیونگ‘‘ کے تحت لکھا گیا ہے کہ یہ رحجان حادثات کی بڑی وجوہات میں سے ایک ہے۔ یہ کم عمری میں معذوری اور جان سے ہاتھ دھو بیٹھنے کا باعث بنتا ہے۔ جبکہ دیگر لوگوں کو بھی حادثات سے دوچار کرتا ہے۔ اس کی ہر گز اجاز ت نہیں دینی چاہیے۔ پانچویں پوائنٹ ’’خاندانی دشمنیوں کی نشاندہی اور کمیونٹی کے ذریعے اس کے خاتمے کی کوشش‘‘ کے تحت لکھاگیا ہے کہ پرانی دشمنیاں ہنستے بستے گھرانے اجاڑ دیتی ہیں۔ لیکن اگر کمیونٹی مل کر کوشش کرے تو جانی دشمنوں کو بھی دوست بنایا جاسکتا ہے او ر دلوں میں موجود کدورتیں دور کی جاسکتی ہیں۔
اس سلسلے میں مجلس احرار اسلام کے مرکزی رہنما امیر سید عطاء اللہ بخاری ثالث نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ’’ہمارے سرکل کے علمائے کرام کا بھی ایک واٹس ایپ گروپ بنایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ سب انسپکٹر مسجد میں آکر یہ خطبہ تحریری طور پر دے کر گیا ہے۔ میں نے تو اس کے مطابق خطبہ نہیں دیا۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس طرح کے اقدامات سے گریزکرے۔ علمائے کرام کو پہلے سے معلوم ہے کہ کیا بات کرنی ہے اور کیا نہیں کرنی۔ تھانے سے اس طرح کی ہدایات آنا ہتک آمیز رویہ ہے۔ پولیس نے تو یہاں تک بھی کہا ہے کہ اسی ہدایت پرعمل کرنا ہے، بصورت دیگر ہم جمعہ کی تقریر خود بھی سنیں گے۔ حکومت نے اگر ایسا کرنا تھا تو وفاق المدارس سے شیئر کیا جاتا، نہ کہ معاملہ تھانے کو دیا جاتا‘‘۔
جامعہ الصفہ کے نائب مہتمم مفتی محمد زبیر کا کہنا تھا کہ ’’عالم دین پر نہی عن المنکر لازم ہے۔ اس کیلئے اپنے علاقہ و حالات کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے اسے موضوع اور عنوان و مواد کا خود ہی انتخاب کرنے کی آزادی ضروری ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ اسلامی جمہوری ملک میں بھانڈ اور گانے بجانے والوں کو تو آزادی ہو، مگر مسجد کا خطیب پابند کردیا جائے‘‘۔ مفتی محمد زبیر کا مزید کہنا تھا کہ ’’چند غیر معتدل اور غیر مستند خطبا کی وجہ سے دیگر علما پر اس طرح کی ناروا پابندیوں کا کوئی جواز نہیں۔ کرنے کا کام یہ ہے کہ حکومت تمام مسالک کے معتدل اور اہل بصیرت علما کے ذریعہ خطبا کی ٹریننگ ورکشاپس کا اہتمام کرے۔ تاکہ خطبا و ائمہ، قوم کو درس اعتدال دے سکیں۔ مدارس کے ساتھ ریاست کا سلوک مسلسل نا مناسب چل رہا ہے۔ ریاست کو مدارس کے طلبہ کو اپنا اثاثہ قرار دینا لازم ہے۔ جبکہ علما کو بلا جواز فورتھ شیڈول میں ڈالنے سے انتہاپسندی میں اضافہ ہوگا‘‘۔
٭٭٭٭٭