محمد زبیر خان
گلگت بلتستان میں ٹرائوٹ مچھلی کی جدید انداز میں افزائش نسل کے لئے تجرباتی کام جاری ہے۔ آزمائش کامیاب ہوئی تو اسلام آباد اور راولپنڈی کے شہریوں کو بھی ٹرائوٹ دستیاب ہو سکے گی۔ اس سے قبل عطا آباد جھیل میں ٹرائوٹ مچھلی کی افزائش کا تجربہ عملاً کامیاب نہیں ہو سکا تھا۔ عطا آباد جھیل میں مقامی مچھلیوں کی پندرہ اقسام ہیں۔ جبکہ گلگت بلستان میں اٹھارہ اقسام کی مچھلیاں موجود ہیں۔ مگر ابھی تک تجارتی بنیادوں پر کام شروع نہیں کیا گیا۔ صرف ایک دن اور ایک ماہ کے لائسنس محدود پیمانے پر دیئے جاتے ہیں۔
گلگت بلتستان پانی اور قدرتی ماحول کے حوالے سے جانا پہچانا جاتا ہے۔ سال 2012ء میں گلگت بلستان کی حکومت نے ٹرائوٹ مچھلی کی افزائش کا ایک منصوبہ تربیت دیا تھا، جس کے تحت پندرہ ہزار ٹرائوٹ مچھلیوں کو عطا آباد جھیل میں چھوڑا گیا تھا۔ ان مچھلیوں کا وزن بیس سے تیس گرام تھا۔ اس سے بھی ایک سال پہلے جھیل میں دس ہزار مچھلیاں چھوڑی گئی تھیں اور خیال کیا جا رہا تھا کہ عطا آباد جھیل جو دریائے ہنزہ میں لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے وجود میں آئی تھی، میں یہ مچھلیاں پرورش پا جائیں گی۔ لیکن منصوبے کے دو سال بعد پتا چلا کہ ایسا ممکن نہیں ہو سکا۔ ٹرائوٹ مچھلیاں عطا آباد جھیل میں مختلف مسائل کی وجہ سے پرورش نہیں پا سکی تھیں۔ اس حوالے سے گلگت بلستان محکمہ فشریز کے ڈائریکٹر غلام محی الدین نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ… ’’ہمارا خیال تھا کہ عطا آباد جھیل کا پانی چونکہ براہ گلئیشر سے آ رہا ہے، لہٰذا اس میں ٹرائوٹ فش کی افزائش ممکن ہو سکے گی۔ مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا۔ یہ منصوبہ پوری طرح کامیاب نہیں ہو سکا اور اس کی واحد وجہ یہ تھی کہ عطا آباد جھیل کا پانی کسی حد تک آلودہ ہو چکا تھا۔ جبکہ ٹرائوٹ مچھلی کو اپنی افزائش کے لئے بالکل صاف شفاف اور تازہ پانی کی ضرورت ہوتی ہے‘‘۔ ایک سوال پر ڈائریکٹر محمکہ فشریز کا کہنا تھا کہ ’’ایسا نہیں ہے کہ منصوبہ ختم کر دیا گیا ہے۔ بلکہ منصوبہ ابھی بھی جاری ہے اور فشریز ڈویلمپنٹ بورڈ اسلام آباد کے تعاون سے آزمائشی بنیادوں پر ٹرائوٹ فش کی افزائش کے لئے کام کیا جا رہا ہے۔ محسوس تو یہی ہوتا ہے کہ آزمائشی بنیادوں پر یہ منصوبہ کامیاب ہوگا، انشاء اللہ، اور اس کے بعد اس منصوبے کو عطا آباد جھیل سمیت پورے گلگت بلستان میں پھیلی ہوئی کئی سو جھیلوں میں پھیلا دیا جائے گا‘‘۔ غلام محی الدین نے بتایا کہ اس وقت ٹرائوٹ کی افزائش کے لئے جدید ترین پنجرے درآمد کئے گئے ہیں۔ ان پنجروں کو جھیل کے مختلف مقامات پر نصب کیا گیا ہے۔ مچھلیوں کو خوراک مصنوعی طریقے سے فراہم کی جاتی ہے اور پنجروں میں اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ ان میں ٹرائوٹ فش کی ضرورت کے مطابق پانی صاف اور شفاف رہے۔ پانی میں کوئی گندا پانی شامل نہ ہو سکے۔ یہ منصوبہ کامیاب ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ اگر یہ تجربہ کامیاب رہا تو پھر اس کو نہ صرف عطا آباد جھیل، بلکہ پورے گلگت بلستان میں پھیلا دیا جائے گا۔ ایک اور سوال پر ڈائریکٹر فشریز گلگت بلتستان کا کہنا تھا کہ ’’اس منصوبے کے بنیادی خدوخال یہ ہیں کہ گلگت بلستان کے پانی سے مچھلی کی افزائش کی جائے۔ بالخصوص ٹرائوٹ کی افزائش کی جائے اور اسے اسلام آباد اور راولپنڈی کی مارکیٹ تک پہنچایا جائے۔ ابتدائی تخمینوں اور اندازوں کے مطابق اس منصوبے کو جب مکمل طور پر شروع کیا جائے گا تو اس سے گلگت بلستان سے لے کر اسلام آباد، راولپنڈی اور اس کے قرب و جوار کے شہروں میں ٹرائوٹ مچھلی بارہ سو روپے کلو میں دستیاب ہو سکے گی۔ جس سے گلگت بلستان میں روزگار کے بھی نئے مواقع دستیاب ہوں گے‘‘۔ غلام محی الدین نے بتایا کہ عطا آباد جھیل میں مچھلیوں کی پندرہ اقسام پائی جاتی ہیں۔ جبکہ پورے گلگت بلستان میں مچھلیوں کی اٹھارہ اقسام ہیں۔ بدقسمتی سے ابھی تک ایسا کوئی بھی منصوبہ تیار نہیں ہو سکا جس سے بڑے پیمانے پر مچھلیوں کی تجارت کا کام ہو سکے۔ تاہم مقامی سطح پر محکمہ فشریز لائسنس جاری کرتا ہے، جس میں ایک دن کی فیس دو سو اور ایک ماہ کی فیس پانچ ہزار وصول کی جاتی ہے۔ گلگت بلستان میں سواتی یا ملھا مچھلی کے نام سے جو مچھلی جانی پہچانی جاتی ہے، وہ وافر مقدار میں موجود ہے۔
٭٭٭٭٭