اسلام آباد(رپورٹ: اخترصدیقی ) تحریک انصاف کے 18 جعلی بنک کھاتے معمہ بن گئے۔اسٹیٹ بنک نےاپنے وضاحتی بیان میں کہا ہے کہ اس ضمن میں الیکشن کمیشن کو کسی قسم کی رپورٹ نہیں بھجوائی۔دوسری جانب پی ٹی آئی کے منحرف رہنما اکبر ایس بابر نے دعوی کیا ہے کہ یہ معلومات حکمران جماعت کے اکاؤنٹس رکھنے والے بینکوں نے الیکشن کمیشن کو براہ راست فراہم کی ہیں۔جن کی روشنی میں ایسے کئی اہم رہنما نااہل ہوسکتے ہیں، جن کے دستخطوں سےاسلام آباد، لاہور، کراچی، کوئٹہ، پشاورمیں اکاؤنٹس کھولے گئے۔انہوں نے اس حوالے سے اسٹیٹ بینک کی جانب سے 12 جولائی 2018 کو لکھا ایک خط بھی دکھایا ،جس میں تمام بینکوں کوپابندکیا گیا تھا کہ وہ الیکشن کمیشن کو تحریک انصاف کے کھاتوں کے بارے میں معلومات فراہم کریں۔اکبر ایس بابر نے مزید دعوی کیا کہ لیکشن کمیشن کو پیش کردہ رپورٹس میں بطور پارٹی چیئرمین عمران خان کا تصدیق نامہ بھی شامل ہے، اور یہ معاملہ وزیراعظم کیلئے بھی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ذرائع کے مطابق تحریک انصاف کے بینک اکاؤنٹس اور اثاثوں کی چھان بین کرنے والی خصوصی کمیٹی اپنی رپورٹ مکمل کرنے کے قریب پہنچ گئی ہے۔ جو ممکنہ طور پر رواں ماہ کے آخر میں الیکشن کمیشن میں جمع کرادی جائے گی اور اس میں بہت سے انکشافات سامنے آئیں گے ۔ ذرائع نے روزنامہ ’’امت ‘‘کوبتایا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے سیاسی جماعتوں کے اکاؤنٹس کی چھان بین کرنے والی کمیٹی میں تحریک انصاف نے ابھی تک کوئی تفصیل جمع نہیں کرائی، تاہم بینکوں کی جانب سے دی گئی تفصیلات موجودہ حکومت کے لیے خطرہ بن سکتی ہیں ، کئی نامی گرامی شخصیات آئین کے آرٹیکل 62ون ایف کی زدمیں آسکتی ہیں ۔ذرائع کاکہناہے کہ لیکشن کمیشن کے ڈائریکٹر جنرل برائے قانون اور ڈیفنس اسٹیبلشمنٹ کے 2 سینئر آڈیٹرز پر مشتمل خصوصی کمیٹی نے رپورٹ مرتب کرناشروع کردی ہے ۔امکان ہے کہ رواں ماہ کے آخرمیں رپورٹ مکمل ہونے کاامکان ہے ،جس کے بعداس رپورٹ کوالیکشن کمیشن میں جمع کرایاجائیگااور اس کے ساتھ ساتھ خصوصی کمیٹی اپنی سفارشات بھی جمع کرائے گی اور ان چھپائے گئے اکاؤنٹس میں موجودرقوم بارے بھی تفصیلات دی جائیں گی ،جس کاجائزہ لے کر الیکشن کمیشن مزیداس کیس کافیصلہ کرے گا۔ذرائع کاکہناہے کہ فروری کے شروع میں اس کیس کوالیکشن کمیشن میں جانے کاامکان ہے اور اس دوران الیکشن کمیشن کی جانب سےپی ٹی آئی کے فنانس بورڈمیں شامل شخصیات کوبھی نوٹس جاری کیے جانے کا امکان ہے ۔الیکشن کمیشن ان تمام بنک اکاؤنٹس کی منی ٹریل بھی طلب کرسکتاہے۔پی ٹی آئی کے بانی رکن اور درخواست گزار اکبر ایس بابرنے روزنامہ ’’امت ‘‘سے گفتگومیں بتایاکہ آڈٹ کمیٹی نجانے کب رپورٹ الیکشن کمیشن میں جمع کرائے گی ۔اس بارے وہ کچھ نہیں کہ سکتے ہیں ،تاہم تحریک انصاف کے لندن کے اکاؤنٹس سے کروڑوں روپے کی ٹرانزیکشن ہوئی ہیں ۔آسٹریلیامیں بھی ایک کمپنی رجسٹرڈ ہے ،وہاں سے مڈل ایسٹ سے ،سعودی عرب سے بھی پیسہ آیاہے ۔انھوں نے کہاکہ وہ چار سال سے الیکشن کمیشن کے چکرکاٹ رہے ہیں اور خود پی ٹی آئی نے ان معاملات کورکوانے کے لیے بہت کوششیں کی ہیں ،مگرابھی تک انھیں اس میں کامیابی نہیں مل سکی ہے ۔کمیٹی کے دائرہ کار کوالیکشن کمیشن اور اسلام آبادہائی کورٹ میں چیلنج کیاگیااس بارے 25سے زائد احکامات جاری ہوئے ۔کمیٹی نے پی ٹی آئی سے اکاؤنٹس کی تفصیلات مانگیں مگرابھی تک وہ نہیں دی گئی ۔دریں اثنا اسٹیٹ بنک کی جانب سے ایک وضاحتی بیان میں کہا گیا ہے کہ مرکزی بنک کی جانب سے کوئی رپورٹ الیکشن کمیشن کونہیں بھیجی۔میڈیا میں شائع ہونے والی خبر بے بنیاد ہے۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ ہر بینک انفرادی طورپرمطلوبہ معلومات دینے کا پابند ہے، بینک الیکشن کمیشن کو معلومات خود فراہم کرتے ہیں۔واضح رہے کہ گزشتہ روز ایک رپورٹ میں اسٹیٹ بنک کے حوالے سے بتایا گیا تھا کہ تحریک انصاف ملک بھر میں 18 غیرقانونی اکاونٹس استعمال کر رہی ہے۔رپورٹ کے مطابق حکمران جماعت کے ملک کے مختلف شہروں میں کل 26 بینک اکانٹس ہیں لیکن الیکشن کمیشن میں جمع کروائی گئی معلومات میں صرف 8 کے بارے میں بتایا گیا اس لئے یہ جعلی یا غیر قانونی اکاونٹس کے زمرے میں آتے ہیں۔