اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کی فوری تشکیل کا امکان نہیں

0

نجم الحسن عارف
پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق گورنر پنجاب مخدوم احمد محمود کی جیل میں نواز لیگ کے قائد میاں نواز شریف سے ملاقات دونوں جماعتوں کے درمیان رابطے بحال کرنے کی ایک کوشش تھی۔ ذرائع کے مطابق اس سلسلے میں آئندہ دنوں میں بھی رابطے اور ملاقاتیں جاری رہیں گی۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ ان رابطوں اور ملاقاتوں کے نتیجے میں اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کی فوری تشکیل کا کوئی امکان نہیں ہے۔ نواز لیگی ذرائع کے مطابق مخدوم احمد محمود کی نواز شریف سے ملاقات سے قبل باضابطہ طور پر اسمبلی میں پیپلزپارٹی کے پارلیمانی لیڈر نے رابطہ کیا تھا کہ ایک وفد میاں نواز شریف سے ملاقات کے لیے آنا چاہتا ہے۔ ان ذرائع کے مطابق میاں شہباز شریف کی دعوت پر سابق صدر آصف علی زرداری اور پی پی چیئرمین بلاول بھٹو اپوزیشن چیمبر میں چائے پر آنے کیلئے تیار ہیں۔ امکان ہے کہ یہ ملاقات قومی اسمبلی کے اگلے اجلاس کے دوران ممکن ہو سکتی ہے۔ جبکہ پی پی کے ارکان اسمبلی کا ایک وفد بھی آنے والے دنوں میں نواز لیگ کے قائد سے ملنے کے لیے جا سکتا ہے۔ ’’امت‘‘ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ کوٹ لکھپت جیل میں پیپلزپارٹی کے وفد نے سابق گورنر مخدوم احمد محمود کی زیر قیادت نواز شریف سے تقریباً 20 منٹ تک ملاقات کی۔ ملاقات میں مخدوم احمد محمود کے قریبی عزیز اور رکن صوبائی اسمبلی مخدوم عثمان بھی شریک تھے۔ ذرائع کے مطابق اس ملاقات کے دوران نواز لیگ کا کوئی رہنما موجود نہیں تھا۔ البتہ معمول کے مطابق جیل انتظامیہ کے نمائندے موجود رہے۔
دوسری جانب پی پی پنجاب کے ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ ملاقات، مخدوم احمد محمود کے ذاتی تعلقات کی بنیاد پر ہونے والی ایک ملاقات سے زیادہ کچھ نہ تھی۔ اسی وجہ سے پیپلزپارٹی نے اس بارے میں کوئی باضابطہ پریس ریلیز جاری کیا ہے نہ نواز لیگ نے اس سلسلے میں کوئی اعلامیہ جاری کیا ہے۔ ذرائع کے بقول دوطرفہ تعلقات اور رابطے تو پہلے سے موجود ہیں۔ ستمبر 2018ء میں بیگم کلثوم نواز کے انتقال پر سابق صدر آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو رائیونڈ میں میاں نواز شریف سے مل کر آئے تھے اور بعد میں بھی یہ رابطے منقطع کبھی نہیں ہوئے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں پی پی کے ایک ذمہ دار نے کہا کہ مخدوم احمد محمود کی ملاقات خالصتاً ذاتی بنیادوں پر تھی اس لیے مخدوم احمد محمود اپنے ایک عزیز ایم پی اے مخدوم عثمان کو بھی بطور خاص ساتھ لے کر گئے۔ پی پی کے اس باخبر رہنما نے یہاں تک کہا کہ اپوزیشن کے جس اتحاد کی باتیں ہورہی ہیں، وہ اگر بنا بھی تو کم از کم چھ ماہ لگ سکتے ہیں۔ فی الوقت اتحاد سے زیادہ رابطوں اور مشترکہ حکمت عملی پر غور کیا جارہا ہے۔ اس ذمہ دار نے یہاں تک کہا پی پی قیادت کی ہدایت پر یہ ملاقات ہوئی نہ اجازت سے۔ یہ محض ذاتی ملاقات تھی۔
تاہم مسلم لیگ نواز کے ذرائع اس ملاقات کو مولانا فضل الرحمان کی حالیہ دنوں میں اپوزیشن جماعتوں سے رابطوں کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ ان ذرائع کے مطابق یہ ملاقات پی پی کی اعلیٰ قیادت کی ہدایت پر ہوئی تاکہ دوطرفہ طور پر پائی جانے والی غلط فہمیوں کا ازالہ ہو اور معاملات میں بہتری آئے۔ اسی وجہ سے قومی اسمبلی کے آئندہ اجلاس میں دونوں پارٹیوں کی اعلیٰ قیادت اپوزیشن چیمبرز میں چائے کے کپ پر مل بیٹھنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اور مولانا فضل الرحمان بھی قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران اپوزیشن چیمبرز میں ایسی ہی ملاقات کے لیے آسکتے ہیں۔ لیگی ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا یہ رابطے یقیناً رنجشوں اور غلط فہمیوں کو دور کرنے میں مدد دیں گے۔ ان ذرائع نے البتہ ایک اور پہلو کی جانب توجہ مبذول کرائی کہ مسلم لیگ نواز کے مرکزی رہنما سمجھتے ہیں کہ فی الحال اپوزیشن کے کسی ایسے اتحاد کی فوری تشکیل مشکل ہے، جو پی ٹی آئی کی حکومت گرانے کی کوشش کرے۔ ان رابطوں کے نتیجے میں آنے والے بجٹ کے قریبی دنوں میں کوئی عملی پیش رفت ہو سکے تو اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ نواز لیگ کی اعلیٰ قیادت اس حکومت کو گرانے کی جدوجہد کرنے سے زیادہ خود گرنے کا موقع دینے کی طرف مائل ہے۔ نواز لیگ کے ذرائع نے ’’امت‘‘ کو یہ بھی بتایا کہ اس ملاقات میں یہ بھی زیر بحث نہیں آیا جو مسلم لیگ (ن) کے کئی رہنما جانتے ہیں کہ پی پی پی کی اعلیٰ قیادت کے مقتدر حلقوں اور پی ٹی آئی کی حکومت کے ساتھ معاملات طے پانا شروع ہو چکے ہیں۔ میاں نواز شریف نے یقیناً اس موقع پر اس طرف انگلی نہیں اٹھائی ہے۔ لیکن خرم دستگیر نے اس جانب اپنے ایک ٹویٹ میں ضرور اشارہ کیا ہے۔ ان ذرائع کے مطابق نواز لیگ کے پاس یہ اطلاعات پچھلے چند دنوں سے آرہی ہیں کہ پی پی قیادت کو اطمینان ہو گیا ہے کہ اب ان کی سندھ حکومت کسی خطرے سے دوچار ہوگی اور نہ منی لانڈرنگ وغیرہ کے کیسز میں پی پی کی اعلیٰ قیادت کے خلاف کوئی بڑا ایکشن ہو گا۔ اس صورتحال میں میاں نواز شریف اور نواز لیگ کی دوسری قیادت نہیں چاہتی کہ پی پی خود حکومت سے معاملات سدھارنے پر توجہ کئے ہوئے ہے تو نواز لیگ حکومت مخالف کسی اتحاد اور تحریک کیلئے گرمجوشی کیوں دکھائے۔ اس لیے حقیقت یہ ہے کہ نواز لیگ دیکھو اور انتظار کرو کی حکمت عملی کے ساتھ ساتھ رابطوں کو منقطع بھی نہیں رکھنا چاہتی ہے۔
لیگی ذرائع نے اس امر کا اعتراف بھی کیا کہ میاں شہباز شریف کے لیے نیب کی حراست میں ہونے کے باوجود مسلسل آسانیاں پیدا ہوتی چلی جائیں تو پی پی بھی اسی نظر سے دیکھتی ہے کہ نواز لیگ کے ’’بیک ڈور رابطے‘‘ بھی بے سود نہیں جارہے ہیں۔ اسی لیے پی پی کے حلقے میاں شہباز شریف کے قید میں ہوتے ہوئے متحرک رہنے کو اسی پس منظر میں دیکھتے ہیں، جس طرح نوز لیگ پی پی قیادت کے مقتدر حلقوں اور خود پی ٹی آئی حکومت کے ساتھ ’’بیک ڈور‘‘ رابطوں کو دیکھتی ہے۔ ذرائع نے دعویٰ کیا کہ پی ٹی آئی کے وزرا اور رہنمائوں کی بے چینی اور اضطراب بھی یقیناً بلاوجہ نہیں ہے۔ بلاشبہ میاں نواز شریف بھی اپنی جیل سے جلد رہائی کے لیے اسی وجہ سے بہت پرامید ہیں۔ اور پنجاب حکومت کی امکانی تبدیلی کی اطلاعات ملک کے اندر ہی نہیں بیرون ملک بھی اب زیر بحث آنے لگی ہیں۔ اس صورت حال میں دونوں بڑی اپوزیشن جماعتیں جہاں ایک جانب باہم رابطے بڑھا رہی ہیں، وہیں ملک کے مقتدر حلقوں سے بھی رابطہ توڑ دینے کو مفید خیال نہیں کرتی ہیں۔ اس لیے زیادہ امکان یہی نظر آتا ہے کہ دونوں بڑی جماعتیں فوجی عدالتوں کی مدت کار میں توسیع کے حوالے سے مقتدر حلقوں کی خواہش کو رد نہیں کریں گی۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More