افغانستان میں بلیک واٹر کے 25 ہزار اہلکاروں کی موجودگی کا انکشاف

0

امت رپورت
افغانستان میں بلیک واٹر کے 25 ہزار سے زائد اہلکاروں کی موجودگی کا انکشاف ہوا ہے۔ جن کیلئے امریکی دفاعی حکام نے رواں سال کے بجٹ کی منظوری بھی دے دی ہے۔ امریکی فوج کے انخلا کی صورت میں پرائیویٹ ملیشیا کی تعداد میں مزید اضافے کا امکان ہے۔ باوثوق ذرائع کا کہنا ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کی کوششوں کے باوجود امریکہ افغانستان میں سازشوں سے باز نہیں آیا ہے۔ مذاکرات میں ممکنہ ناکامی کے خدشات پر واشنگٹن نے پلان بی پر بھی کام شروع کر رکھا ہے۔ بلیک واٹر کی تعیناتی اور ان کی تعداد میں اضافے کا مقصد امریکی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان میں خانہ جنگی کرانا اور افغان طالبان کے اہم رہنمائوں کو منظر سے ہٹانا ہے، تاکہ مستقبل میں طالبان کو مزید کمزور کیا جا سکے۔ امریکی ڈپارٹمنٹ آف ڈیفنس کی افغانستان میں موجود دستاویز کے مطابق اس وقت افغانستان میں بلیک واٹر کے ٹوٹل کنٹریکٹرز 25 ہزار 239 ہیں۔ ان میں امریکی شہریوں کی تعداد 10 ہزار 989 ہے۔ جبکہ ٹی سی این (تھرڈ کنٹری نیشنل) کی تعداد 10 ہزار 628 ہے، جن کا تعلق بھارت، فلپائن، تھائی لینڈ، یورپی ممالک اور لاطینی امریکا سے ہے۔ ان میں اسرائیلی شہری بھی شامل ہیں جو، ہرات میں تعینات ہیں۔ بلیک واٹر میں تین ہزار 622 افغان شہری بھی ہیں، جو مختلف قومیتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ واضح رہے کہ 2014ء سے پہلے بلیک واٹر میں افغان شہریوں کی تعداد 22 ہزار سے زیادہ تھی، جو اب کم ہوکر 3622 رہ گئی ہے۔ عراق اور شام میں بلیک واٹر کے 6 ہزار 318 افراد تعینات ہیں، جن میں تین ہزار 86 امریکی شہری۔ دو ہزار 405 دوسرے ممالک کے شہری اور 827 شامی و عراقی باشندے شامل ہیں۔ تاہم 31 دسمبر 2018ء کو ان کے کنٹریکٹ کی میعاد ختم ہوگئی ہے اور ممکنہ طور پر اب انہیں افغانستان میں تعینات کیا جاسکتا ہے۔ ذرائع کے بقول افغانستان میں بلیک واٹر کے حوالے سے امریکی محکمہ دفاع پنٹاگون نے 2008ء سے 2018ء تک کی تفصیلات جاری کر دی ہیں۔ جن کے مطابق 2012ء میں تقریباً ایک لاکھ سے زائد بلیک واٹر اہلکار تعینات تھے۔ تاہم معاہدہ ختم ہونے کے بعد 31 دسمبر 2014ء کو یہ تعداد 40 ہزار رہ گئی تھی، جو اب بھی 25 ہزار سے کچھ زائد ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ امریکی فوج کے انخلا کے بعد افغانستان میں طالبان کی فتح کو خانہ جنگی میں تبدیل کرنے کیلئے یو ایس سینٹرل کمانڈ نے بلیک واٹر کی مزید تعیناتی پر بھی غور شروع کر دیا ہے۔ امریکی فوج کے انخلا کے بعد ان امریکی کرائے کے قاتلوں کے ذریعے طالبان کے اعلیٰ عہدیداروں کو منظر سے ہٹانے کا منصوبہ ہے۔ ذرائع کے مطابق امریکہ نہیں چاہتا کہ افغان طالبان مذہب کی بنیاد پر جہاد کے ذریعے کامیابی حاصل کریں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ افغان طالبان کی جانب سے امریکہ کو افغانستان میں فوجی اڈا رکھنے کی اجازت دینے سے انکار پر امریکہ نے افغان جنگ بلیک واٹر کو ٹھیکے پر دینے پر غور شروع کر دیا ہے۔ اس حوالے سے پہلے افغان انٹیلی جنس کے سابق چیف رحمت اللہ نبیل اور پھر قندھار کے سابق پولیس چیف جنرل رازق، جو ایک حملے میں مارے گئے، کے ذریعے بلیک واٹر کی تعیناتی کے حوالے سے بات چیت جاری تھی۔ ذرائع کے مطابق اسداللہ خالد جو ایک خودکش حملے میں زخمی ہوئے تھے، وہ چھ ماہ تک بھارت میں زیر علاج رہے اور پھر علاج کیلئے امریکہ چلے گئے تھے۔ امریکہ سے واپسی پر انہیں وزیر دفاع بنایا گیا، جبکہ سابق انٹیلی جنس چیف امراللہ صالح کو وزیر داخلہ بنایا گیا ہے۔ ان دونوں کی تقرری کا مقصد بلیک واٹر کے مزید اہلکاروں کی افغانستان میں تعیناتی کیلئے قانونی دستاویزات فراہم کرنا ہے۔ امریکی محکمہ دفاع کی جانب سے جاری کردہ دستاویزات کے مطابق بلیک واٹر کو بیس سپورٹ، امریکی تنصیبات کی تعمیر، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور کمیونی کیشن یعنی جاسوسی سپورٹ، لاجسٹک، مینٹی ننس، ٹرانسپورٹیشن، ترجمانی، تربیت، سیکورٹی، صحت، سماجی خدمات اور مینجمنٹ ایڈمنسٹریشن کیلئے استعمال کیا جائے گا۔ یعنی ایک پورے مکنزم کے تحت بلیک واٹر کو افغان حکومت کے اندرونی معاملات تک رسائی دی جائے گی۔ افغانستان کے مقامی ذرائع کے مطابق بلیک واٹر میں پہلے افغان شہریوں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ تاہم 2014ء میں کنٹریکٹ ختم ہونے پر انہیں بے یارومددگار چھوڑنے اور طالبان کی جانب سے انہیں نشانہ بنائے جانے کے بعد بلیک واٹر کیلئے مقامی بھرتی میں امریکیوں کو مشکلات کا سامنا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور دیگر ممالک سے بھرتیاں کی گئیں، تاہم ایسے اہلکار مقامی آبادی کیلئے مشکلات پیدا کر سکتے ہیں۔ ذرائع کے بقول افغانستان میں بلیک واٹر کیلئے بجٹ کی منظوری کے بعد اب صاف نظر آرہا ہے کہ امریکہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں متبادل منصوبے پر بھی کام کر رہا ہے، جو بہت خطرناک ہے۔ دوسری جانب سابق افغان صدر حامد کرزئی نے بھارتی دارالحکومت دہلی میں ایک کانفرنس سے خطاب میں کہا ہے کہ امریکہ افغانستان میں اس لئے نہیں آیا ہے کہ واپس چلا جائے۔ وہ طویل مدت تک قیام کیلئے آیا ہے اور افغانوں کا خون بہانے کے بعد اب اپنے لئے محفوظ اڈے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ حامد کرزئی کا کہنا تھا کہ ان کی اطلاعات کے مطابق افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات میں پیش رفت اس لئے نہیں ہو رہی ہے کہ امریکہ دو فوجی اڈے چاہتا ہے اور طالبان یہ مطالبہ ماننے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ ذرائع کے مطابق افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات میں اچانک تعطل پیدا ہونے کے بعد مذاکرات ناکامی کی طرف بڑھ رہے ہیں، جس کی وجہ امریکہ کی سازشی سرگرمیاں ہیں۔ طالبان ذرائع کا کہنا ہے کہ افغان طالبان بلیک واٹر کی تعیناتی کے منصوبے سے آگاہ ہیں۔ جب بھی مذاکرات ہوئے تو ایجنڈے میں یہ بات شامل کی جائے گی کہ امریکی سفارت خانے کے سوا افغانستان میں کسی بھی امریکی تنصیبات کی حفاظت غیر ملکی کنٹریکٹرز نہیں کریں گے اور نہ ہی افغانستان میں موجود سیکورٹی کمپنیاں کریں گی۔ جبکہ افغان عوام کو پہلے ہی متنبہ کر دیا گیا ہے کہ وہ بلیک واٹر میں شمولیت سے باز رہیں۔ ایک سوال پر افغان طالبان کے ذرائع کا کہنا تھا کہ افغانستان میں بلیک واٹر کے اہلکاروں کی تعداد 25 ہزار سے کہیں زیادہ ہے اور یہ تعداد 32 سے33 ہزار کے درمیان ہے۔ کیونکہ بلیک واٹر میں کام کرنے والے بہت سے افغان شہریوں نے طالبان کے خوف سے اپنی شناخت کو چھپا رکھا ہے اور وہ سیکورٹی امور کے بجائے دیگر خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More