عظمت علی رحمانی
کراچی کی علمی و ادبی شناخت سمجھا جانا والا اردو بازار کے ایم سی، کی ’’انسداد ِ تجاوزات مہم‘‘ کے نام پر کسی بھی وقت مسمار کیا جاسکتا ہے۔ میئر کراچی کے اس ممکنہ اقدام سے شہر میں ایک بڑا تعلیمی بحران جنم لے گا۔ واضح رہے کہ مین اردو بازار اور اطراف میں اسکول و کالجز کی نئی و پرانی کتابیں، جنرل بکس، اسلامی کتب، کاپیوں، رجسٹر اور اسٹیشنری کی تین سو سے زائد دکانیں واقع ہیں، جن میں بیشتر ہول سیلرز ہیں۔ شہر بھر نہ صرف عوام بلکہ سینکڑوں ریٹیلر دکاندار یہاں کا رخ کرتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اردو بازار میں مختلف آئٹمز 33 سے 40 فیصد رعایت پر دستیاب ہوتے ہیں۔ ان دکانوں کے گرائے جانے سے ایک جانب لاکھوں شہری بالواسطہ، تو دوسری جانب دو ہزار سے زائد دکاندار اور ملازمین براہ راست راست متاثر ہوں گے۔
واضح رہے کہ چند روز قبل میئر وسیم اختر کی جانب سے شہر کی دیگر بڑی مارکیٹوں کی طرح اردو بازار کو بھی گرائے جانے کا نوٹس جاری کردیا گیا تھا۔ نوٹس ملنے کے بعد اردو بازار کے دکانداروں نے احتجاج کیا اورسوشل میڈیا پر بھی اردو بازار کے دکانداروں کے حق میں مہم چلائی گئی۔ شدید عوامی ردعمل کے پیش نظر میئر وسیم اختر نے اردو بازار کو گرانے کا فیصلہ فی الحال موخر کردیا ہے۔ میئر کراچی نے اس حوالے سے 6 رکنی کمیٹی بنائی ہے جس میں اردو بازار کے دو نمائندے، دو نمائندے متعلقہ ڈی ایم سی کے اور دو نمائندے ڈپٹی کمشنر آفس کے ہوں گے۔ مذکورہ 6 رکنی کمیٹی اس بات کا تعین کرے گی کہ اردو بازار کے نیچے سے گذرنے والا نالہ کس حد تک ان دکانوں کو بچاتے ہوئے خالی کرایا جا سکتا ہے۔ مذکورہ کمیٹی کی مشاورت سے دکانوں کو دو سائیڈ سے تین، تین فٹ تک توڑا جائے گا۔
تاہم کئی دکان داروں اور کے ایم سی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ میئر کراچی نے کمیٹی کا قیام صرف سخت عوامی ردعمل ٹالنے کیلئے کیا ہے۔ کیونکہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اورنگزیب مارکیٹ، بہادر شاہ مارکیٹ جیسی قدیم ترین مارکیٹوں کی طرح اردو بازار بھی 70 برس قبل نالے ہی پر تعمیر ہوا تھا۔ البتہ ان تینوں مارکیٹوں کی کنسٹرکشن میں یہ خیال رکھا گیا تھا کہ نالے کی روانی متاثر نہ ہو۔ اس حقیقت کو جانتے ہوئے بھی، اگر کوئی کمیٹی بنائی جا رہی جو اس بات کا جائزہ لے گی کہ اردو بازار نالے پر بنا ہوا ہے یا نہیں، تو یہ اس بات کی غمازی ہے کہ وسیم اختر نے اردو بازار اور اطراف کی دکانیں توڑنے کا مصمم فیصلہ کر رکھا ہے۔ کمیٹی کا ڈرامہ تو صرف وقت ٹالنے والی تکنیک ہے۔ اردو بازار کے بعض پرانے دکان داروں اور مقامی افراد کا یہ بھی کہنا تھا کہ بات اگر نالے کو کلیئر کرانے کی ہے تو سندھ سیکرٹریٹ کی کئی منزلہ عمارت بھی اس نالے پر بنی ہوئی ہے۔ جبکہ اس کی کنسٹرکشن بھی اردو بازار کی تعمیر کے تین عشرے بعد ہوئی تھی۔
اردو بازار کے پرانے دکان دار اور کراچی جنرل بک سیلرز ایسوسی ایشن کے وائس چیئرمین محمد راشد کا ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’’مئیر وسیم اختر کے ساتھ معاملات بڑی حد تک کلیئر ہوگئے ہیں۔اب ایک کمیٹی بنائی جارہی ہے جس میں دو اردو بازار، دو میونسپل اور ڈیم ایم سی کے نمائندے ہوں گے۔ نالے پر آنے والی دکانیں کلیئر کرائی جائیں گی۔ ان دکانوں کو دونوں اطراف سے گرایا جائے گا۔‘‘
واضح رہے کہ اردو بازار اور اطراف میں مجموعی طور پر کتابوں اور کاپیوں کی تقریباً 300 دکانیں ہیں۔ دکانوں کے اوپر 100کے لگ بھگ پبلشرز وغیرہ کے دفاتر بھی قائم ہیں۔ ان دکانوں میں ہاشمی ٹرسٹ کی 125دکانیں ہیں جن کے اوپر دفاتر قائم ہیں۔ اس کے علاوہ نوشین سینٹر میں 45 دکانیں ہیں، اس کے اوپر 15دفتر قائم ہیں۔ ان دکانوں میں سے ہر ایک دکان پر کم از کم 4 سے 5 افراد کام کرتے ہیں۔
کراچی جنرل بک سیلرز ایسوسی ایشن کے بانی ممبر مصطفیٰ انصاری کا اس ضمن میں کہنا تھا کہ ’’اردو بازار میں نالے کے قریب 70 دکانیں ہیں، جن کو شاید دو، دو فٹ گرایا جائے۔ اس کے علاوہ قوی امکان ہے کہ ہاشمی ٹرسٹ اور نوشین سینٹر کی کسی دکان کو بھی نہیں ہلایا جائے کیونکہ وہ کے ایم سی کی نہیں بلکہ پرائیویٹ ملکیت ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ دکان داروں کو تکلیف دیئے بغیر اس مسئلے کو حل کیا جائے۔‘‘
کراچی جنرل بک سیلرز ایسوسی ایشن کے جوائنٹ سیکریٹری عظمت علی کا کہنا تھا کہ ’’ہمارے وفد نے میئر سے ملاقات کی تھی، جس میں ارشد نسیم صدیقی، سید ظفرالحسن شاہ، محمد اسلم اور آفتاب شامل تھے۔ وفد میں بہادر شاہ مارکیٹ اور اورنگزیب مارکیٹ کے تاجروں کی نمائندگی بھی تھی۔ ملاقات کے دوران میئر وسیم اختر کا کہنا تھا کہ اگر نالہ کلیئر ہوجاتا ہے تو ہم کسی کو تکلیف نہیں دیں گے۔‘‘
ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری سہیل زکی کا کہنا تھا کہ اردو بازار میں کاپیوں، کتابوں اور اسٹیشنری کی سینکڑوں دکانیں ہیں جہاں سے شہر بھر کے دکاندار اور طلبہ و طالبات خریداری کرتے ہیں۔ فنانس سیکریٹری رضوان ظفر کا کہنا تھا کہ اردو بازار شہر کی قدیم مارکیٹ ہے۔ یہاں کے دکاندار کے ایم سی کو کرایہ ادا کرتے ہیں۔ یہاں سے ہول سیل اور ریٹیل پر کتابیں مل جاتی ہیں اور دیگر علاقوں کے مقابلے میں یہاں سے سستی کتابیں کاپیاں ملتی ہیں۔حکومت کو چاہئے کہ یہاں کے دکان داروں کو مزید سہولیات دے۔
ویلکم بک پورٹ کے مالک اصغر زیدی کا کہنا تھا کہ اردو بازار کے سیدھے ہاتھ پر موجود طاہر مارکیٹ کی دکانیں نالے پر قائم نہیں ہیں۔ اس لئے انہیں نہ توڑا جائے۔
٭٭٭٭٭