امت رپورٹ
کراچی آنے والے مسافروں کو لوٹنے کی وارداتیں بڑھنے لگی ہیں۔ ایئر پورٹ سے نکلنے والے مسافروں اور ہائی ویز سے دوسرے شہروں سے کراچی آنے والے افراد کو لوٹنے والے گروہ منظم انداز میں وارداتیں کر رہے ہیں۔ ڈکیت گروپ زیادہ تر جعلی پولیس اہلکار بن کر چیکنگ کے بہانے لوٹتے ہیں۔ بیشتر وارداتیں کراچی کے 14 تھانوں کی حدود میں ہوتی ہیں۔ پولیس تاحال کسی بڑے گروپ کو گرفتار نہیں کر سکی۔ تین روز قبل خواجہ اجمیر نگری پولیس نے 3 ملزمان کو اسلحہ، وائرلیس سیٹ اور پولیس کی جعلی وردیوں سمیت گرفتار کیا، جن سے تفتیش جارہی ہے۔ کراچی میں جاری آپریشن کے دوران سیکورٹی ادارے، وردی اور بیج بنانے والے دکانداروں کو احتیاط برتنے کی وارننگ جاری کرتے رہتے ہیں، تاہم ان پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا۔ جبکہ کراچی میں لوٹ مار کا بازار مزید گرم ہوتا جارہا ہے۔ پولیس اس حوالے سے ناکام ہورہی ہے۔ ڈکیت گروپ مختلف حربے استعمال کرکے شہریوں کو لوٹ رہے ہیں۔ کراچی میں جعلی پولیس والوں کی ورداتیں بھی دوبارہ شروع ہوچکی ہیں۔ یہ جعلی اہلکار بڑے منظم انداز میں وارداتیں کرتے ہیں۔ گرفتار ملزمان کے مطابق وہ رینٹ اے کار والوں سے کرائے پر کار حاصل کرتے اور اپنے پاس موجود جعلی نمبرز پلیٹیں لگاتے تھے۔ ان کا اصل ہدف ایئرپورٹ سے نکلنے والے بیرون ملک سے آنے والے ہوتے تھے۔ ان میں تگڑی اسامی کو ایئر پورٹ ہی پر مارک کرلیا جاتا تھا۔ ملزمان کے مطابق ڈکیت گروپوں کے ساتھ بعض ٹیکسی والے بھی ملے ہوئے ہوتے ہیں۔ جبکہ ان کی ریکی کرنے والے ساتھی بھی ایئرپورٹ پر موجود ہوتے ہیں۔ ٹیکسی والا جب شاہراہ فیصل پر آتا ہے تو ہیڈ لائٹ کو مخصوص انداز میں جلاتا ہے۔ اس طرح ڈکیت اس گاڑی کو فالو کرتے ہیں۔ عام طور پر تین الگ الگ پارٹیاں وارداتیں کرتی ہیں۔ ایئرپورٹ پر موجود اطلاع دینے والی، راستے میں تعاقب کرنے والی اور تیسری آگے کار کھڑی کرکے پولیس وردی میں موجود جعلی افسران و اہلکار، جو مسافروں کو روکتے ہیں۔ ملزمان بڑے منظم انداز میں چند منٹ میں واردات کرکے نکل جاتے ہیں۔ کراچی پولیس اسنیپ چیکنگ، موٹر سائیکل اور موبائل پر گشت اور پکٹ لگانے کے دعوے کرتی ہے، تاہم شاطر ملزمان واردات کرکے فرار ہوجاتے ہیں۔ ’’امت‘‘ کو معلوم ہوا کہ اس کی طرح وارداتیں کرنے والے زیادہ تر پرانے ڈکیت ہیں جو بہت سے طریقہ کار جانتے ہیں اور اگر پکڑے بھی گئے تو ضمانت پر رہا ہوکر دوبارہ وارداتیں شروع کردیتے ہیں۔ یہ وارداتیں زیادہ تر 9 تھانوں ایئرپورٹ، شاہراہ فیصل، بہادر آباد، فیروز آباد، عزیز بھٹی، ماڈل کالونی، شاہ فیصل کالونی، نارتھ ناظم آباد اور ڈیفنس پولیس اسٹیشن کی حدود میں ہوتی ہیں۔ پانچ سال قبل زیادہ تر ان مسافروں کو لوٹا جاتا تھا جو ٹیکسی لیتے تھے۔ اس دوران کئی ٹیکسی والے بھی پکڑے گئے تھے۔ اب ملزمان کے کارندے ایئرپورٹ پر ٹیکسی یا پرائیویٹ گاڑیوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ سب سے اہم رول کار سوار جعلی اہلکاروں کا ہوتا ہے کہ کس طرح وردی والا بندہ سڑک کنارے ہوکر گاڑی روکتا ہے اور گاڑی میں موجود جعلی پولیس افسر کے پاس کار والے کو بھیجتا ہے۔ جبکہ دیگر ملزمان تلاشی کے دوران کار سے سامان نکالتے ہیں اس دوران فیملی یا کار سوار کو یرغمال بناکر لوٹنے کے بعد ملزمان کار لے کر دھمکیاں دیتے فرار ہوجاتے ہیں اور کچھ آگے جاکر فوری طور پر کار کی نمبر پلیٹ تبدیل کرلیتے ہیں۔ جعلی اہلکاروں کے پاس پولیس وردی، پولیس کارڈ، پولیس کے وائر لیس سے ملتا جلتا واکی ٹاکی سیٹ بھی ہوتا ہے۔ اس طرح کار سوار ملزمان بڑے منظم انداز میں وارداتیں کررہے ہیں۔ مسافروں کو ان جگہوں پر روکتے ہیں جہاں خفیہ کیمرے نہ لگے ہوں اور پولیس کی موبائل آنے کا خطرہ نہ ہو۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ان گروپوں میں پولیس کے برطرف اہلکار بھی شامل ہیں جو ڈکیتوں کو پولیس کا طریقہ کار بتاتے ہیں، ورنہ سول آدمی کیلئے وردی، کارڈ اور وائر لیس سیٹ کا حصول مشکل ہے اور لوگوں کو روک کر پولیس کے انداز میں گھیر کر لوٹنا آسان نہیں۔ کراچی میں جس طرح ہر جرم کے پیچھے پولیس کے افراد کے ملوث ہونے کے شواہد ملتے ہیں، اسی طرح اس منظم جرم کے پیچھے بھی بعض پولیس اہلکار ملوث ہیں۔ جعلی پولیس اہلکار گاڑیوں میں شاہراہ پاکستان، نیشنل ہائی وے اور آر سی ڈی ہائی وے پر بھی لوٹ مار کرتے ہیں۔ زیادہ تر ان کا ہدف کوچوں اور کاروں میں آنے والے ہوتے ہیں۔ انہیں کسی بھی جگہ روک کر اسلحہ دکھاکر لوٹ مار کرتے ہیں۔ اس حوالے سے 5 تھانے فیڈرل بی صنعتی ایریا، سہراب گوٹھ، بلدیہ ٹائون، گڈاپ اور اسٹیل ٹائون تھانے کافی حساس ہیں۔