محمد زبیر خان
نقیب محسود کے والد محمد خان محسود کا کہنا ہے کہ وہ عمر بھر انصاف کے حصول کیلئے جدوجہد کرتے رہیں گے۔ بیٹے کی شہادت کو ایک سال گزرنے کے باوجود وہ مایوس نہیں ہوئے۔ مگر اب انصاف کے راستے میں حائل رکاوٹیں دور ہونی چاہئیں اور انصاف ہوتا بھی نظر آنا چاہیے۔ دوسری جانب جرگہ کے ابتدائی ارکان اور تحریک شروع کرنے والے رہنما اور کارکنان مایوس ہوچکے ہیں۔ جرگہ کے بعض ارکان جو اس وقت حکمران جماعت کا حصہ ہیں، وہ بھی عملاً صرف معاملات کو ٹھنڈا کرنے میں مصروف ہیں۔ عمران خان اور کراچی سے پختون علاقوں سے منتخب ہونے والے تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی چاہتے تو کیس کو پنجاب، اسلام آباد ، پشاور منتقل کروایا جاسکتا تھا اور ٹرائل کے لئے ڈیڈ لائن مختص کی جا سکتی تھی۔ اس کیس میں عمران خان بھی اپنا وعدہ پورا کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔
سابق ایس ایس پی ملیر رائو انوار کے ہاتھوں قتل ہونے والے نقیب اللہ محسود کی پہلی برسی کے موقع پر نقیب شہید کے والد محمد خان نے بھی کراچی سہراب گوٹھ میں ایک جرگے میں شرکت کی۔ جرگہ کی کارروائی کوئی تین بجے شروع ہوئی اور رات گئے تک جاری رہی۔ اس موقع پر جرگہ میں تحریک انصاف کے منتخب رکن قومی اسمبلی سیف الرحمن اور دیگر ارکان صوبائی اسمبلی پیش پیش تھے۔ جنہوں نے عملاً نقیب اللہ کے والد محمد خان محسود کو اپنے حصار میں لے رکھا تھا۔ یہ ارکان اسمبلی محمد خان محسود سے کسی کو بھی زیادہ بات کرنے کی اجازت نہیں دے رہے تھے۔ اس جرگہ میں نقیب اللہ کے لئے تحریک شروع کرنے والے اور جرگہ کے پرانے ممبران کی بڑی تعداد نے شرکت نہیں کی۔ اس موقع پر ’’امت‘‘ نے بمشکل کسی کے ذریعے محمد خان محسود سے رابطہ کیا تو انہوں نے انتہائی مختصر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’بیٹے کو شہید ہوئے ایک سال گزر چکا ہے، مگر میں اب بھی مایوس نہیں ہوں۔ انصاف کیلئے میری جدوجہد ساری زندگی جاری رہے گی۔ مجھے پوری امید ہے کہ انصاف ہوگا۔ بہت اہم لوگوں نے ہم سے وعدے کئے تھے کہ انصاف فراہم کریں گے۔ اور مجھے پوری امید ہے کہ وہ اپنے وعدوں کو وفا کریں گے۔ لیکن اب انصاف کے راستے میں حائل رکاوٹیں دور ہونی چاہئیں اور انصاف ہوتا بھی نظر آنا چاہیے‘‘۔
نقیب اللہ محسود کے قتل پر تشکیل پانے والے جرگہ کے ابتدائی رکن، انصاف کے حصول کیلئے تحریک شروع کرنے والے اور اس کیس کے وکیل پیر رحمان ایڈووکیٹ نے ’’امت‘‘ کے ساتھ بات کرتے ہوئے انصاف کے حوالے سے اپنی مایوسی کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ کیسا انصاف اور کہاں کا انصاف ہے کہ ایک قاتل آزاد گھوم رہا ہے۔ نقیب اللہ کے کیس میں کوئی انصاف ہوتا نظر نہیں آرہا ہے اور نہ ہی اس میں کسی کی دلچسپی ہے۔ نہ ہی ایسے اقدامات کئے جارہے ہیں کہ جن سے انصاف ملنے کی امید ہو سکے۔ ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’’اگر نواز شریف کے کیس اور دیگر کیسز میں ٹرائل مکمل ہونے کی ڈیڈ لائن دی جا سکتی ہے تو اس کیس میں بھی دی جاسکتی تھی۔ اس کیس کو اسلام آباد اور پشاور منتقل کیا جاسکتا تھا۔ اس کی دوبارہ تفتیش ممکن ہوسکتی تھی۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اگر حکومت چاہتی تو وہ راؤ انوار کی ضمانت کے خلاف اپیل کر سکتی تھی۔ اگر نقیب اللہ کیس میں پولیس رپورٹ ہی کو لے لیا جاتا تو اس میں بھی راؤ انوار کے حوالے سے بہت سے شواہد موجود تھے۔ حکومت چاہتی تو کیس میں استغاثہ دلچسپی لیتا اور تاخیری حربے استعمال نہ کئے جاتے۔ اگر ایسا ہوتا تو راؤ انوار کی ضمانت نہیں ہو سکتی تھی‘‘۔ پیر رحمان ایڈووکیٹ نے کہا کہ اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے، اس سے انہیں لگتا کہ انصاف ملے۔ یہ تو صرف اور صرف معاملہ ٹھنڈا کرنے کے لئے ہو رہا ہے۔ کیونکہ وہ نوجوان جنہوں نے تحریک کا آغاز کیا تھا، وہ مایوس ہو چکے ہیں۔ وہ جرگہ سے الگ ہوگئے ہیں۔ وہ عمائدین جنہوں نے گزشتہ سال آگے بڑھ کر تحریک چلائی تھی، وہ بھی خاموش ہیں اور عملاً وہ بھی ایک سال بعد منعقد ہونے والے جرگہ میں شریک نہیں ہیں۔ اس لئے یہ جو کچھ ہو رہا ہے، یہ صرف اور صرف دکھلاوا ہے اور اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’’اگر اب بھی سنجیدگی دکھائی جائے۔ اب بھی اگر انصاف کی طرف بڑھا جائے تو شاید کچھ مشکل نہ ہو، مگر ایسی کوئی خواہش ہی موجود نہیں ہے‘‘۔ پیر رحمان ایڈووکیٹ نے کہا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ اب نقیب اللہ کیس کے حوالے سے کچھ بچا ہے۔ بس اب رسمی کارروائی ہی باقی ہے، اور وہ بھی لگتا ہے کہ جلد کر دی جائے گئی۔
جرگہ کے ایک اور رکن اور نقیب اللہ کیس میں انصاف کے حصول کیلئے تحریک شروع کرنے والے ڈاکٹر اللہ نواز نے ’’امت‘‘ کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ نقیب اللہ کی برسی کی تقریبات میں شریک نہیں ہوئے۔ درحقیقت انہیں اور ان کے کئی ساتھیوں کو اب جرگہ میں بلایا ہی نہیں جاتا اور نہ ہی اعتماد میں لیا جاتا ہے۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ’’اس لئے نہیں بلایا جاتا، کیونکہ ہم لوگ دو ٹوک موقف رکھتے ہیں۔ کھل کر بات کرتے ہیں۔ جرگہ اور نقیب اللہ کا معاملہ انصاف کے بغیر ختم کرنے والے ایک پیج پر ہیں۔ جرگہ بھی انصاف کیلئے کوئی فعال کردار ادا کرنے سے قاصر ہے نہ کرتا ہوا نظر آرہا ہے۔ نقیب اللہ کے لئے چلائی جانے والی تحریک کو بڑے طریقے سے پیچھے کر دیا گیا ہے۔ اس تحریک میں اب کچھ بھی باقی نہیں بچا۔ سب کچھ بڑی منصوبہ بندی کے ساتھ کیا گیا ہے۔ راؤ انوار کو بچانے کی منصوبہ بندی کامیاب رہی ہے‘‘۔