پنجاب فوڈ اتھارٹی نے گزشتہ روز صوبے کے مختلف شہروں کے داخلی راستوں پر ناکہ بندی کر کے تقریباً پانچ ہزار لیٹر کیمیکل ملا مضر صحت دودھ ضائع کر دیا۔ اس دودھ میں مضر صحت کیمیکل یوریا کھاد، مختلف اقسام کے پاؤڈر اور پانی کی ملاوٹ کی گئی تھی۔ ڈائریکٹر جنرل پنجاب فوڈ اتھارٹی کیپٹن (ر) محمد عثمان کے مطابق اس دودھ کے استعمال سے بچوں اور بڑوں میں متعدد موذی امراض جنم لیتے ہیں۔ اس لئے پنجاب فوڈ اتھارٹی پورے صوبے میں اس طرح کے آپریشن اس وقت تک جاری رکھے گی جب تک 2022ء میں پورے صوبے میں پاسچرائزیشن کے قانون کا نفاذ نہیں ہوجاتا۔ اس قانون کے تحت جس مقام یعنی ڈیری فارم وغیرہ سے دودھ نکالا جائے گا، وہیں اس کی پیکنگ ہوگی اور یہ پیکنگ بھی عالمی اصولوں اور قواعد و ضوابط کے مطابق ہوگی۔
پنجاب فوڈ اتھارٹی کے ذرائع کے مطابق ناقص دودھ کے خلاف جاری مہم کے دوران مختلف ٹیموں نے بڑے شہروں کے داخلی و خارجی راستوں پر ناکہ بندی کر کے دودھ لے جانے والی 1544 گاڑیوں کی چیکنگ کی۔ اس دوران ایک لاکھ 88 ہزار 961 لیٹر دودھ کی موقع پر موجود لیبارٹریز اور آلات کی مدد سے جانچ کی گئی اور مضر صحت پایا جانے والا 4 ہزار 915 لیٹر دودھ تلف کر دیا گیا۔ ان ذرائع کے مطابق لاہور زون میں 769 گاڑیوں، راولپنڈی میں 414، ملتان میں 273 اور مظفر گڑھ زون میں 88 گاڑیوں کو چیک کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق کسی شخص کے خلاف مقدمہ درج نہیں کیا گیا، صرف دودھ ضائع کیا گیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ دودھ میں ملاوٹ کرنے والا کوئی شخص دوسری یا تیسری بار اسی جرم میں پکڑا جائے تو اس کے خلاف مقدمہ درج کیا جاتا ہے۔ ورنہ پہلی مرتبہ اس کا دودھ ضائع کر دیا جاتا ہے اور یہی اس کی سزا ہوتی ہے کہ اس کے دودھ میں کیمیکل، یوریا اور پاؤڈر دودھ کو گاڑھا کرنے کیلئے استعمال کئے گئے تھے یا دودھ کی مقدار بڑھانے کیلئے پانی کی ملاوٹ کی گئی تھی۔ ڈی جی پنجاب فوڈ اتھارٹی کیپٹن (ر) محمد عثمان کے مطابق اتھارٹی کی جانب سے کھلے دودھ کے خلاف جاری مہم کی وجہ سے ناقص اور ملاوٹ شدہ دودھ کی سپلائی میں واضح کمی آئی، جو خوش آئند ہے اور پاسچرائزیشن کا قانون لاگو ہونے تک یہ مہم جاری رکھی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ جعلی، ناقص اور مضر صحت دودھ کے خاتمے کیلئے پاسچرائزیشن کی قانون سازی کرچکے ہیں اور 2022ء کے بعد اس قانون کے تحت کھلے دودھ کی بجائے پیک شدہ یعنی ڈبے میں بند دودھ ہی فروخت ہوسکے گا۔
واضح رہے کہ پاکستان دودھ پیدا کرنے والا دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے، لیکن اس کے باوجود دودھ کی پیداوار ملکی ضروریات کے لئے ناکافی ہے۔ یعنی طلب، رسد سے زیادہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ملک میں سالانہ 25 ارب لیٹر دودھ کی پیداوار ہے۔ جس میں سے 95 فیصد دیہات یا نیم دیہی علاقوں سے حاصل کیا جاتا ہے۔ صرف پانچ فیصد دودھ شہری علاقوں میں قائم باڑوں سے حاصل ہوتا ہے۔ دنیا کا تیسرا بڑا دودھ پیدا کرنے والا ملک ہونے کے باوجود پاکستان سالانہ ہزاروں ٹن خشک دودھ بھی درآمد کرتا ہے۔
اس شعبے سے وابستہ ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ گائے، بھینس، اونٹ، بھیڑ اور بکریوں سے حاصل ہونے والا 40 فیصد دودھ براہ راست دودھ بیچنے والوں یعنی گوالوں سے صارفین تک پہنچتا ہے۔ اسی کھلے دودھ کے خلاف پنجاب فوڈ اتھارٹی مہم چلا رہی ہے۔ کیونکہ نہ صرف اس دودھ کی مقدار بڑھانے کیلئے اس میں پانی کی ملاوٹ کی جاتی ہے۔ بلکہ پانی ملانے کے بعد اسے گاڑھا کرنے کیلئے اس میں یوریا کھاد اور بال صفا پاؤڈر سمیت مختلف اقسام کے پاؤڈر اور کیمیکل بھی شامل کئے جاتے ہیں۔ جبکہ اگر اس دودھ کو بعض گوالے بغیر ملاوٹ کئے ہوئے بھی صارفین کو فراہم کریں تو دودھ دوہنے سے لے کر اسے بڑے لوہے یا پلاسٹک کے ڈرموں کے ذریعے سپلائی کرنے تک حفظان صحت کے اصولوں کو مکمل طور پر نظر انداز کیا جاتا ہے اور بعض اوقات پاکی اور ناپاکی کا بھی خیال نہیں رکھا جاتا۔ اس کے علاوہ ایسے گندے ڈرموں میں دودھ سپلائی کیا جاتا ہے، جس میں خطرناک جراثیم پرورش پا رہے ہوتے ہیں۔ دوسری جانب عام گھریلو صارفین کھلے دودھ کو تازہ، سستا اور ذائقے میں اچھا ہونے کی وجہ سے ڈبے کے پیک دودھ پر ترجیح دیتے ہیں۔ لیکن انہیں یہ علم نہیں کہ کھلا دودھ بھی ملاوٹ کی وجہ سے بہت زیادہ نقصان دہ ہے۔ پنجاب فوڈ اتھارٹی کے ذرائع کے مطابق ناقص کھلے دودھ کے خلاف مہم چلانے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو کھلے دودھ کے مضر صحت اثرات سے آگاہ کرنے کیلئے پنجاب حکومت مہم چلانے پر بھی غور کررہی ہے۔ کیونکہ لوگوں کو صحت بخش اور ہر قسم کے جراثیم سے پاک خوراک کی فراہمی پنجاب حکومت اور پنجاب فوڈ اتھارٹی کی اولین ترجیح ہے۔
Prev Post
Next Post