پنجاب حکومت کے مبہم اعلان سے پتنگ بازوں کی شامت آگئی۔ پولیس کی جانب سے تھانوں کی سطح پر پتنگ بازوں کے خلاف کارروائیاں تیز کر دی گئی ہیں اور مک مکا کرکے چھوڑا جا رہا ہے۔ پولیس کی طرف سے پتنگ بازی کے ساتھ جوئے کے الزامات بھی لگائے جانے لگے۔ پچھلے دو روز میں میڈیا رپورٹس کے مطابق 70 پتنگ باز گرفتار کئے گئے۔ زیادہ گرفتاریاں گنجان آبادیوں والے تھانوں میں عمل میں آئیں۔ دوسری جانب لاہور ہائی کورٹ میں بسنت کی اجازت دینے کے اعلان کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت آج متوقع ہے۔ ’’امت‘‘ کے ذرائع کے مطابق پولیس اور انتظامیہ بسنت کی اجازت دینے کے حق میں نہیں۔ تاہم صوبائی حکومت عوام کے درمیان زیر بحث موضوعات کی تبدیلی کے لئے اس معاملے پر بحث جاری رکھنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔ یہی سبب ہے کہ وزیر قانون بشارت راجہ کی زیر قیادت قائم کمیٹی اس حوالے سے اپنی رپورٹ پیش نہیں کرسکی ہے۔
واضح رہے کہ صوبائی وزیر اطلاعات و ثقافت فیاض الحسن چوہان نے پچھلے ماہ صوبے میں بسنت منانے کی اجازت دینے کے حکومتی اصولی فیصلے کا عندیہ دیا تھا۔ تاکہ ان کے بقول لاہور کے روایتی تہوار سے عوام لطف اندوز ہو سکیں۔ لیکن ان کے اس اعلان کے ساتھ ہی عوام کی طرف سے سخت رد عمل سامنے آنا شروع ہو گیا۔ ایسے خاندانوں کے ہاں وزیر اطلاعات کے اس عندیے پر زیادہ افسوس ظاہر کیا گیا جن کے جگر گوشے بسنت کے دنوں میں گلا کٹنے سے جاں بحق ہو گئے تھے۔ میڈیا میں بھی بسنت کے حق میں کم ہی رائے سامنے آئی۔ جبکہ لاہور ہائی کورٹ بار کے معروف رکن صفدر شاہین پیر زادہ نے صوبائی حکومت کی طرف سے بسنت کی اجازت دیئے جانے کی اطلاعات کے خلاف ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر دی۔ اس درخواست میں فاضل وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ بسنت ایک خونی کھیل کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ اسی بنیاد پر اس کے خلاف پابندی عائد کی گئی تھی۔ اس خونی کھیل کی وجہ سے متعدد قیمتی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔ اس لیے فاضل عدالت بسنت منانے کے حکومتی اعلان کو کالعدم قرار دے۔ بعد ازاں صفدر شاہین پیر زادہ ایڈووکیٹ نے عدالت عالیہ سے یہ بھی درخواست کی کہ صوبائی حکومت کا یہ اقدام سپریم کورٹ کے فیصلے کی توہین ہے۔ اس لیے توہین عدالت پر مبنی اس اقدام کا بھی نوٹس لیا جائے۔ صفدر شاہین ایڈووکیٹ نے ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عدالت عالیہ نے بسنت کے خلاف تمام درخواستوں کو اکٹھا کر دیا تھا اور آج منگل کے روز ان کی عدالت عالیہ کے سنگل رکنی بینچ میں سماعت متوقع ہے۔ صوبہ پنجاب میں پتنگ بازوں کی طرف سے خطرناک ڈور کے استعمال کے نتیجے میں معصوم بچوں اور نوجوانوں کے گلے کٹنے کے واقعات پیش آنے لگے تو صوبائی حکومت نے پتنگ بازی کی ممانعت پر مبنی ایک قانون کی تشکیل ممکن بنائی، جسے اینٹی کائٹ فلائنگ ایکٹ 2009ء کا نام دیا گیا۔ اس قانون میں البتہ یہ گنجائش رکھی گئی ہے کہ ضلعی حکومت چاہے تو موسم بہار کے دوران پندرہ دنوں کے لیے پتنگ بازی کی شہریوں اجازت دے سکتی ہے۔ لیکن ضلعی حکومت کو اس حوالے سے صوبائی حکومت سے پیشگی اجازت لینا ہوتی ہے۔ لیکن یہاں معاملہ صوبائی وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان کے اعلان سے مختلف انداز میں سامنے آیا ہے کہ صوبائی حکومت سے ضلعی حکومت نے موسم بہار کے دوران پندرہ دنوں کی کوئی سہولت نہیں مانگی، بلکہ یہ صوبائی حکومت کا خالصتاً اپنا ’’انیشی ٹیو‘‘ ہے۔ حتیٰ کہ صوبائی وزیر اطلاعات کے اس اعلان کے بعد سامنے آنے والے ردعمل پر صوبائی وزیر قانون کی زیر صدارت قائم کردہ کمیٹی میں لاہور کے میئر کو شامل نہیں کیا گیا، جس کا صاف مطلب ہے کہ یہ خالصتاً صوبائی حکومت کی اپنی کوشش اور خواہش ہے کہ بسنت کا باب ایک مرتبہ پھر کھل جائے اور اس پر مثبت یا منفی بحث ہوتی رہے۔ دوسری جانب ’’امت‘‘ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ماضی میں لاہور پولیس نے ہمیشہ بسنت اور جان لیوا پتنگ بازی کے خلاف رائے دی ہے۔ کیونکہ کسی بھی افسوسناک واقعے کے بعد پیدا شدہ صورت حال میں سارا ملبہ پولیس پر گرا دیا جاتا تھا۔ اس وجہ سے اگر کسی مرحلے پر کسی حکومتی یا سرکاری ذمہ دار نے بسنت کے حق میں بھی رائے دی تو پولیس نے بالعموم مخالفت کی۔ ان ذرائع کا کہنا ہے کہ اب بھی پولیس ہی نہیں صوبائی انتظامیہ کی اعلیٰ ترین سطح سیبھی بسنت کے حق میں رائے کا امکان نہیں۔ اعلیٰ سرکاری حکام سینئر پوزیشنوں پر ہوتے ہوئے ریٹائرمنٹ سے پہلے کسی ایسی بحث یا عوامی غم و غصے کا نشانہ نہیں بننا چاہتے، جس میں معصوم بچوں اور نوجوانوں کا ناحق خون بہنے کا سوال آتا ہو۔ اور اس کے ساتھ ان کا نام آئے۔ ذرائع کے بقول اعلیٰ سرکاری حکام اپنی نجی ملاقاتوں میں یہ تاثر دیتے ہیں کہ وہ بسنت کا خونی کھیل کھیلنے کے لیے کسی کو اپنا کندھا پیش نہیں کریں گے۔ ذرائع نے بتایا کہ سرکاری حکام کی طرف سے بسنت کو مفید نہ سمجھنے کا ہی نتیجہ ہے کہ صوبائی وزیر قانون بشارت راجہ کی کمیٹی ابھی تک رپورٹ پیش نہیں کرسکی ہے۔ جبکہ آئندہ دنوں میں بھی امکان زیادہ نہیں کہ کمیٹی بسنت کے حق میں کوئی متفقہ رائے یا رپورٹ پیش کر سکے گی۔ ادھر لاہور کے 80 سے زائد تھانوں میں روایتی انداز میں پولیس پتنگ بازوں کے خلاف اپنی معمول کے مطابق کارروائی جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ کارروائی نومبر، دسمبر، جنوری اور فروری کے دوران بالعموم تیزی اختیار کرتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود اسے پتنگ بازوں کے خلاف باضابطہ آپریشن نہیں کہا جا سکتا۔ البتہ ہفتے اور اتوار کے دو دنوں میں جب ’’ویک اینڈ‘‘ کا موقع ہوتا ہے، پولیس زیادہ متحرک نظر آتی ہے۔ جیسا کہ ہفتہ اور اتوار کے روز بھی شہر کے مختلف تھانوں میں بالعموم اور گنجان آبادیوں کے حامل تھانوں میں بالخصوص پولیس نے پتنگ بازی کو روکتے ہوئے مجموعی طور پر تقریباً ستر نوجوانوں کو حراست میں لیا۔ ان زیرحراست لیے گئے نوجوانوں میں سولہ سترہ سال کی عمر کے نوجوان بھی شامل ہیں۔ تھانہ شاہدرہ، تھانہ شالیمار، تھانہ شاد باغ، مغل پورہ تھانہ، تھانہ شفیق آباد و دیگر تھانوں میں ’’امت‘‘ نے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ کوئی بڑا آپریشن ڈیزائن کیا گیا ہے نہ ہی ایسا کوئی آپریشن پتنگ بازوں کے خلاف کیا جارہا ہے۔ بس معمول کی کارروائی ہے کہ پتنگ بازی خلاف قانون ہے، اس لیے جہاں کوئی قانون کی خلاف ورزی کرتا نظر آتا ہے تو اسے گرفتار کر کے باضابطہ مقدمہ درج کر دیا جاتا ہے۔ تاہم ’’امت‘‘ کو معلوم ہوا ہے کہ پولیس کے بعض اہلکاروں کے لیے ایک اچھا موقع بن گیا ہے۔ کیونکہ پتنگ بازوں کو پکڑ کر، کچھ لے دے کر انہیں گھر بھیجا جا رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق یہی وجہ ہے کہ جن چند تھانوں میں گرفتاریاں ریکارڈ پر لائی گئی ہیں، وہاں بھی اکا دکا مقدمات ہی بنائے گئے۔ زیادہ سے زیادہ تعداد بھی اگر ہے تو ’’سنگل ڈیجٹ‘‘ سے زیادہ نہیں۔ ان میں سے بھی اکثر ضمانت کرا چکے ہیں یا ضمانت کے لیے درخواست دے چکے ہیں۔ خیال رہے کہ اینٹی کائٹ فلائنگ ایکٹ 2009ء کی دفعہ 3/4 کے تحت مقدمات درج کئے گئے ہیں، جو قابل ضمانت دفعات ہیں۔ تاہم لاہور میں صوبائی حکومت کے اعلان کے مطابق ماہ فروری میں بسنت منائی جا سکے گی یا نہیں، اس کا انحصار بشارت راجہ کمیٹی اور اعلیٰ عدالت کے فیصلے پر ہے۔ ٭
(باقی صفحہ4بقیہ نمبر12)
Prev Post