ضیاء الرحمان چترالی
جاپان ایشیا میں سب سے ترقی یافتہ ملک ہے۔ لیکن اس کے باوجود وہاں عمر رسیدہ افراد کی زندگی عذاب سے کم نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب جاپانی بوڑھے بہتر زندگی گزارنے کیلئے جان بوجھ کر جرائم کرنے لگے ہیں، تاکہ جیل جا کر معاش کے جھنجٹوں سے ان کی جان چھوٹ جائے۔ اس رجحان میں رواں صدی کے اوائل سے ہر گزرتے برس کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق، جاپان کو بوڑھوں کا ملک کہا جاتا ہے۔ یہاں سو برس سے زائد عمر کے افراد کی تعداد 70 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ ملک کی 65 فیصد سے زائد آبادی عمر رسیدہ ہے۔ پہلے جاپانی معاشرے میں بزرگوں کا بڑا احترام کیا جاتا ہے، مگر اب انہیں ملکی معیشت پر بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ بڑھاپے کے باوجود جاپانی باشندوں کی محنت سے جان نہیں چھوٹتی۔ جاپان میں ایک چورانوے برس کا بابا ابھی تک جہاز اڑاتا ہے، جسے دنیا کا معمر ترین پائلٹ کہا جاتا ہے۔ لیکن اب جاپانی بڈھے بھی سیانے ہوگئے ہیں۔ وہ اب چھوٹے موٹے جرائم کرکے خود ہی حکومت کا مہمان بن جاتے ہیں۔ جیلوں میں انہیں مفت کھانا پینا، رہائش، طبی سہولیات کے ساتھ نرسوں کی خدمات بھی بغیر کسی چارجز کے ملتی ہیں۔ خود کمانے کے علاوہ جاپانی بوڑھوں کا ایک بڑا مسئلہ تنہائی کی اذیت بھی ہے۔ جیل جاکر اس سے بھی انہیں چھٹکارا مل جاتا ہے۔ حال ہی میں جاری ایک رپورٹ کے مطابق جاپان میں معمر افراد کے جرائم میں ملوث ہونے کی شرح میں 4 گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ جاپان کی جیلوں میں ہر پانچ میں سے ایک فرد بوڑھا ہے۔ گزشتہ تین دہائیوں کے دوران عمر رسیدہ جاپانی افراد، جو تنہا رہنے پر مجبور ہیں، ان کی تعداد میں 600 فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔ تنہا زندگی گزارنے سے یہ معمر افراد اتنے تنگ آجاتے ہیں کہ کوئی چھوٹا موٹا جرم کرکے جیل جانے کو ترجیح دیتے ہیں، تاکہ وہاں دوسرے لوگوں کے ساتھ رہ سکیں اور کوئی انہیں کھانا اور پانی فراہم کرنے والا موجود ہو۔ جاپان کی جیلوں میں ایک قیدی پر اوسطاً سالانہ 20 ہزار ڈالر خرچ کئے جاتے ہیں۔ جبکہ بوڑھے افراد کے صحت کی مسائل کی وجہ سے ان پر اور بھی زیادہ خرچ آتا ہے۔ جیل حکام کا کہنا ہے کہ ان کی جیلیں اب اولڈ ہوم جیسی نظر آنے لگی ہیں۔ جہاں بوڑھے قیدیوں کی تعداد بہت زیادہ ہو چکی ہے اور ان کی صحت کے مسائل کی وجہ سے جیل کا عملہ بھی پریشانی کا شکار رہتا ہے۔ 1980ء سے 2005ء کے دوران اکیلے رہنے والے بوڑھوں کی تعداد میں 6 گنا اضافہ ہوا ہے اور تعداد 6 ملین تک پہنچ چکی ہے۔ 2017ء کے سروے سے معلوم ہوا ہے کہ جیل جانے والے بوڑھوں میں نصف سے زیادہ اکیلے رہنے والے لوگ ہیں۔ 40 فیصد ایسے ہیں جن کا کوئی فیملی ممبر نہیں یا فیملی ممبران سے کوئی رشتہ رابطہ نہیں ہے۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ جب انہیں مدد کی ضرورت ہوتی ہے تو ان کے پاس کوئی نہیں ہوتا۔ چوری کرکے جیل پہنچنے والے ایک بابا کا کہنا تھا ’’میں جیل میں اپنی زندگی سے زیادہ لطف اندوز ہو رہا ہوں۔ یہاں میرے اردگرد بہت سے لوگ ہیں۔ مجھے یہاں تنہائی محسوس نہیں ہوتی۔ میں پہلے بھی قید ہوا تھا، لیکن مجھے رہا کر دیا گیا۔ تب میرا دل اداس رہنے لگا اور میں نے پھر ایک معمولی جرم کیا اور دوبارہ جیل پہنچ گیا‘‘۔ ایک 78 سالہ بوڑھی خاتون کا کہنا تھا ’’گو کہ جیل آکر آزادی سلب ہوگئی، لیکن دیگر تمام مسائل سے بھی جان چھوٹ گئی۔ میں یہاں بہت ریلکس محسوس کر رہی ہوں۔ تین وقت کا کھانا مل جاتا ہے، آرام کیلئے بستر موجود ہے، ہر ماہ میرا بیٹا مجھ سے ملنے آجاتا ہے اور مجھے کیا چاہئے؟‘‘۔ مقامی میڈیا کے مطابق بوڑھے افراد جیل جانے کے لئے عموماً کسی دکان سے کوئی چیز چرالیتے ہیں یا اسی نوعیت کا کوئی اور چھوٹا موٹا جرم کرتے ہیں، زیادہ تر بڈھے کھانے پینے کی تیار چیزیں اٹھالیتے ہیں۔ اس سے ایک تو پیٹ کی آگ بجھ جاتی ہے، پھر پکڑے جائیں تو جیل جانے کا مقصد بھی پورا ہوتا ہے۔ جاپانی قانون کے مطابق ایسی وارداتوں میں ملوث افراد کو چند ماہ کے لئے جیل بھیج دیا جاتا ہے۔ جیل سے رہائی کے بعد وہ دوبارہ کوئی ایسا ہی جرم کرتے ہیں اور پھر سے جیل پہنچ جاتے ہیں۔ گزشتہ ماہ اس حوالے سے ’’وائٹ پیپر ان کرائمز‘‘ (White Paper on Crime) نام کا ایک کتابچہ بھی شائع ہوا ہے۔ جس کے مطابق 2000ء میں جاپانی جیلوں میں 65 برس سے زائد عمر کے قیدیوں کی تعداد صرف 5 فیصد تھی۔ اب یہ شرح 21 فیصد سے تجاوز کر چکی ہے۔ سرکاری مہمان بننے والے معمر افراد میں مردوں کے مقابلے میں عورتوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ وہ عورتیں بقیہ زندگی جیل میں گزارنے کو ترجیح دیتی ہیں، جو نعمتِ اولاد سے محروم ہیں۔ بوڑھی عورتوں کے خلاف شکایات اور گرفتاری کے واقعات کسی دوسری عمر کے لوگوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں۔ جاپان کے جیلوں کی ہر پانچ میں سے ایک قیدی سینئر شہری ہے۔ 10 میں سے 9 بوڑھیوں کو سزا دکانوں سے چیزیں چوری کرنے پر دی گئی ہے۔ 50 فیصد سے زیادہ 65 سال سے زائد عمر کی خواتین کا تعلق غریب گھرانوں سے ہے۔ اس عمر کے معاشی مسائل کا شکار مردوں کی شرح 29 فیصد ہے۔ فرانسیسی جریدے لومونڈ سے بات چیت کرتے ہوئے ایک 78 سالہ جاپانی بابا کا کہنا تھا کہ ’’کل میں اپنے دوست سے ملاقات کیلئے جیل جائوں گا۔ میرے بچپن کا یہ یار کوئی عادی مجرم نہیں ہے۔ اس نے جیل جانے کیلئے مارکیٹ میں چوری کی تھی۔ پھر پولیس کو بھی یہی بتایا تھا کہ اس کا مقصد جیل جانا تھا‘‘۔ اس کے بقول جاپانی بوڑھے زیادہ تر سردیوں کی آمد سے قبل جیل پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں، جہاں سردی کے بچائو کے بھرپور انتظامات ہوتے ہیں۔ جبکہ بوڑھوں کو موسم کی مناسب غذا بھی فراہم کی جاتی ہے۔ جس کا وہ خود سے انتظام نہیں کرسکتے۔ اس بابا کو یہ فکر بھی کھائے جا رہی تھی کہ چند روز بعد میرے دوست کی مدت قید ختم ہو جائے گی۔ اب اس سردی میں وہ باہر آکر کیسے گزارا کرے گا؟ چوری کی سزا کاٹنے والی ایک 89 سالہ بوڑھی کا کہنا تھا کہ ’’میں نے چاول، اسٹرابیری اور ٹھنڈی دوائیں چرائیں اور ایک سال اور 6 ماہ قید کی سزا پائی۔ میری ایک بچی اور ایک نواسی ہے۔ میں ویلفیئر پروگرام کے تحت اکیلی زندگی گزار رہی تھی۔ میں پہلے اپنی بیٹی کی فیملی کے ساتھ رہتی تھی اور ساری بچت شدہ رقم اپنے بد تمیز داماد کی خدمت میں ضائع کر دی‘‘۔ ایک 80 سالہ خاتون کا کہنا تھا کہ ’’میری اولاد ہے، لیکن وہ مجھ سے کہتے ہیں کہ اب تم بے کار شے، بلکہ ہمارے لئے مسئلہ ہو‘‘۔ یہاں ہر ایک کی اپنی دل دکھانے والی داستان ہے۔ جاپان کی منسٹری آف جسٹس کے مطابق، یہ معمر افراد بڑے ڈھیٹ ہیں۔ جیلوں میں موجود بیشتر بوڑھے ایسے ہیں، جنہیں رہا کرنے کے بعد دوبارہ یا سہ بارہ وہ واپس آچکے ہیں۔ اب جاپانی حکومت ان بوڑھوں کیلئے الگ جیلیں بنانے کا سوچ رہی ہے۔ جاپان میں معمر افراد کیلئے حکومت یا پرائیویٹ سیکٹر نے کوئی بحالی کا بندوبست نہیں کیا ہے اور انہیں جیل میں رکھنے سے اخراجات بہت بڑھ رہے ہیں۔ بوڑھوں کی دیکھ بحال کے لیے مختص اخراجات کی وجہ سے میڈیکل کاسٹ 6 بلین ین سے زیادہ ہوگئی ہے جو کہ 10 سال قبل کے مقابلے میں 80 فیصد زیادہ ہے۔ بوڑھوں کو باتھ روم اور ٹائلٹ کے استعمال میں مدد کے لیے اسپیشل نوکروں کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔ رات کے وقت یہ ذمہ داریاں سیکورٹی گارڈز ادا کرتے ہیں۔
٭٭٭٭٭