ریڈ بک4خواتین سمیت112انسانی اسمگلر ز ایف آئی اے کو مطلوب
اسلام آباد(وقاص منیر چوہدری) فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی( ایف آئی اے )نے انسانی اسمگلنگ میں ملوث انتہائی مطلوب ملزمان کی ریڈ بک 2018 جاری کر دی۔ ایف آئی اے کی جانب سے جاری کردہ ریڈ بک میں انتہائی مطلوب ملزمان کی فہرست میں پہلی مرتبہ 4 خواتین کے کوائف بھی درج ہیں‘ چاروں خواتین انسانی اسمگلنگ کر کے لوگوں سے پیسے بٹورتی رہیں۔ ریڈ بک 2018 میں ایف آئی اے کی گرفت میں نہ آنے والے ملزمان کی تعداد 112 ہے جبکہ 2017 میں انسانی اسمگلروں کی کل تعداد 101تھی۔ایف آئی اے ریڈ بک کے مطابق 12انسانی اسمگلر بیرون ممالک فرار ہو چکے ہیں‘ فرار ہونے والے اسمگلروں کی گرفتاری کے لیے انٹر پول پولیس سے بھی مدد لی جا رہی ہے۔دستاویزات کے مطابق ایف آئی اے ریڈ بک میں2017ء میں باون انسانی سمگلرز کو شامل کیا گیا جن میں سے 13کو گرفتار کر لیا گیا جب دیگر انسانی اسمگلرز تا حال ایف آئی اے کی گرفت میں نہ آسکے 2018ء میں انسانی اسمگلرز کی ریڈ بک کے مطابق تعداد 58تک پہنچ گئی پنجاب کے 58انسانی اسمگلرز کے بعد دوسرے نمبر پر اسلام آباد کے30میں سے 2انسانی اسمگلرز کو ایف آئی اے حکام کی جانب سے حراست میں لیا گیا ہے جبکہ اسلام آباد میں مفرور انسانی سمگلرز کی تعداد 34ہو گئی ایف آئی اے نے 2017ء کی ریڈ بک کے مطابق 17میں سے 3انسانی اسمگلرز کو صوبہ سندھ سے گرفتار کیا گیا صوبہ سندھ کے2018ء کی ریڈ بک کے مطابق 15انسانی اسمگلرز کو تا حال گرفتار نہ کیا جا سگاہے ۔کے پی کے میں انسانی سمگلنگ کے حوالے سے 2017کی ریڈ بک میں کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا جبکہ 2018کی ریڈ بک میں کے پی کے کے تین جبکہ بلوچستان کے 2انسانی اسمگلرز کے نام شامل ہیں ۔ دستاویزات کے مطابق وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کی ریڈ بک میں سمگلرز کی تعداد میں آئے روز اضافہ معمول بن چکا ہے جو کہ ادارے کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے 2017ء کی ریڈ بک میں انسانی اسمگلرز کے نام شامل تھے جن میں سے ملک بھر سے 18کو گرفتار کیا جاسکا جبکہ 29نئے کیسز رپورٹ ہوئے 2018ء کی ریڈ بک میں انسانی اسمگلرز کی تعداد 112تک پہنچ گئی انتہائی مطلوب انسانی اسمگلرز میں پہلی بار چار خواتین کے نام بھی شامل کئے گئے ہیں جو کہ انسانی اسمگلنگ کے دھندے میں ملوث ہونے کے حوالے سے مطلوب ہیں اس سے قبل لیگی حکومت کے دور میں ایف آئی اے میں موجود چند کالی بھیڑوں کے انسانی اسمگلنگ میں ملوث ہونے کی اطلاعات پر سابق وزیر داخلہ کی جانب سے کر پٹ افسران کی فہرستیں مرتب کرنے کا حکم دیا گیا تھا تاہم سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے احکامات کو ہوا میں اڑا دیا گیا جس کی وجہ سے بیرون ملک پاکستانیوں کو مشکوک نظروں سے دیکھا جانے لگا۔