سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کو مشکل سے نکال دیا

0

اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی) بحریہ ٹائون کے الجھے ہوئے معاملات رفتہ رفتہ سلجھ رہے ہیں ۔ بڑے تعمیراتی منصوبوں کی خالق اس کمپنی نے عدالت کو ڈھائی سو ارب ادا کرنے کی پیشکش کی ہے۔ یہ رقم جرمانے کی مد میں ادا کی جائے گی۔ جس میں زمین کے کچھ بڑے حصوں کی قیمت کا ازسر نو تعین بھی شامل ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ عدالت عظمیٰ اس رقم پر تیار نہیں۔ وہ مزید اضافہ چاہتی ہے۔ سو امید ہے کہ معاملہ تین سو ارب سے لے کر سوا تین سوارب  کے درمیان کہیں طے پاجائے گا۔ تب بحریہ ٹائون کراچی کے ڈیڑھ لاکھ سے زائد الاٹیز چین کا سانس لے سکیں گے ،جن کی نبضیں روز ڈوبتی ابھرتی ہیں۔ بحریہ ٹائون اسلام آباد اور مری کے الاٹیز کو بھی اس میں شامل کرلیا جائے تو یہ تعداد 2لاکھ کے لگ بھگ ہوتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بحریہ ٹائون پر آنے والے بحران نے لاکھوں الاٹیز اور تعمیراتی کارکنوں کے مستقبل پر تلوار لٹکادی ہے۔ اس میں کافی کچھ بحریہ ٹائون کے بڑوں کا اپنا بھی قصور ہے، لیکن سپریم کورٹ نے معاملہ فہمی اور دانش مندی کا ثبوت دیتے ہوئے نہ صرف مسئلے کا قانونی حل تلاش کیا ،بلکہ لاکھوں انسانوں کی روزی روٹی بھی محفوظ کرلی۔ بے شک رزق دینے والا اللہ ہے، لیکن انسانوں کو وہ ایک دوسرے کے لئے سبب بناتا ہے۔ بحریہ ٹائون نے تعمیراتی منصوبوں میں کچھ نہ کچھ بے قاعدگیاں ضرور کی ہوں گی ۔ کون نہیں کرتا، لیکن ان بے قاعدگیوں کو بنیاد بناکر لاکھوں الاٹیز اور کارکنوں کے رزق کا دروازہ بند کرنا کسی صورت سود مند نہیں تھا۔ اس سے نہ صرف اللہ رب العزت ناراض ہوتے ،بلکہ عوامی بے چینی میں بھی اضافہ ہوتا۔ پھر اصل بات یہ ہے کہ بحریہ ٹائون کے سربراہ ملک ریاض کی انتظامی صلاحیتوں میں کسی کو کوئی شک نہیں تھا ۔ اس لئے بھی کہ انہوں نے انتہائی غربت سے اپنا سفر شروع کیا تھا، لیکن سیاسی امور میں ان کی حد سے زیادہ دلچسپی نے کاروبار کے لئے مشکلات پیدا کردیں۔ اس میں بھی شک نہیں کہ سیاسی رہنمائوں سے تعلقات نے ان کے لئے آسانیاں بھی بہت پیدا کیں۔ تعمیراتی منصوبوں کی راہ میں حائل کئی سرخ فیتے ان تعلقات کے سبب ختم ہوئے، لیکن تعلقات کی یہ سطح اعتدال کی حد سے کچھ آگے جاچکی تھی۔ مثلاً آصف زرداری سے ان کے تعلقات کاروباری تھے، پھر ذاتی بن گئے۔ تبھی بحریہ ٹائون نے کراچی کا رخ کیا اور اس میں بھی شک نہیں کہ سندھ حکومت نے بحریہ ٹائون کراچی کے لئے زمین ہموار کرنے کے جو اقدامات کئے ،اس نے تیز رفتاری کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے۔ سندھ حکومت کی ایما پر ضلع ملیر میں رائو انوار جیسا خونخوار درندہ تعینات کیا گیا۔ جس نے بحریہ ٹائون کے لئے زمینوں کی خریداری میں ہر طرح کے حربے استعمال کئے اور آخر کار وہ نقیب اللہ شہید جیسے معصوم کو قتل کرکے قدرت کی گرفت میں آگیا۔ یہ الگ بات ہے کہ آصف زرداری سمیت وہ تمام نادیدہ اور غیبی طاقتیں بھی اسے سزا سے بچانے کے لئے میدان میں آگئیں، جو دیگر معاملات میں زرداری کے خلاف دانت تیز کئے بیٹھی تھیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ بحریہ ٹائون کراچی اور ملک ریاض پر آنے والی مشکلات کا سب سے بڑا سبب ان غریبوں کی آہیں ہیں ،جنہیں رائو انوار نے بے گناہ قتل کیا۔ یا اونے پونے زمین بیچنے پر مجبور کیا۔ اس بات کا پورا امکان ہے کہ ملک ریاض کو ان بہیمانہ کارروائیوں کا علم نہ ہو۔ یا ہو تو ان کی وسعت اور سنگینی سے وہ واقف نہ ہوں۔ بنیادی طور پر وہ رحم دل اور وسیع القلب انسان ہیں، لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ بحریہ ٹائون کراچی کے لئے درکار زمینوں کی فراہمی کے لئے رائو انوار ہر حد سے تجاوز کرگیا تھا اور اب اگر قدرت نے ملک ریاض کو دوبارہ موقع دیا ہے تو انہیں چاہئے کہ وہ کسی غیر جانبدار اور معتبر کمیٹی کی مدد سے ایسے متاثرین کی فہرست تیار کرائیں ، جن کی زمینیں ان کی مرضی کے بغیر ہتھیالی گئی تھیں۔ شاید ان کی تعداد بہت زیادہ نہ ہو ، لیکن جتنی بھی ہو، ان کی اشک شوئی ملک ریاض کا فرض ہے۔ کیونکہ دنیا میں حساب دینے میں شاید ان سے درگزر ہوجائے۔ آخر میں کوئی رعایت نہیں ہوگی۔ لہٰذا عمر کی ڈھلتی شام کے اس منظر کو شفق کی سرخی سے لہو رنگ نہ ہونے دیں۔ بلکہ چودھویں کے چاند کی ٹھنڈی میٹھی روشنی سے بدل دیں۔ اگر ایسی کوئی کمیٹی بنائی جائے تو اس میں ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے موجودہ سربراہ محمد سہیل اور ملیر ضلع کے موجودہ ایس ایس پی عرفان بہادر کو ضرور شامل کیا جائے کہ ان دونوں میں انسان دوستی دوسروں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ کمیٹی کی سربراہی کسی ریٹائرڈ ہائی کورٹ جج کو سونپی جانی چاہئے ۔ عدالت نے بحریہ ٹائون پر جو جرمانہ عائد کیا ہے ۔ اچھا ہوگا کہ اس کا بار بھی ملک ریاض موجودہ الاٹیوں پر نہ ڈالیں۔ وہ پہلے ہی پریشان اور درماندہ ہیں۔ ان کی جمع پونجی خطرے میں گھری ہوئی ہے۔ بہتر ہوگا کہ بحریہ ٹائون کراچی نئے سیکٹر کو کھولنے کی جو منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ اس کی قیمتوں میں کچھ ردوبدل کردے، تاکہ جرمانے کی اتنی بڑی رقم کی ادائیگی میں کچھ سہارا مل سکے۔ اصولاً تو یہ جرمانہ بحریہ ٹائون کو اپنی جیب ہی سے بھرنا چاہئے۔ لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ بحریہ ٹائون سے ہونے والی آمدنی کے مالک تنہا ملک ریاض نہیں ہیں ۔ بلکہ بہت سے دیدہ اور نایدیدہ لوگ بالواسطہ اور بلاواسطہ ان کے حصے دار ہیں۔ ان میں سے ایک ظاہرہے آصف زرداری ہیں، جن کے حوالے سے سامنے آنے والے بے نامی اکائونٹس کے ذریعے بحریہ ٹائون پر یہ الزام لگا ہے کہ اس نے زرداری کو اربوں روپے کی ادائیگی کی ہے۔ اس الزام میں بے شک صداقت ہوگی ۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ کراچی میں آپ ایک سو بیس گز کا مکان بھی بنانے جائیں تو ایک درجن سے زائد سرکاری محکموں کے عمل داروں اور درجنوں این جی اوز کو رشوت دینی پڑے گی۔ بصورت دیگر آپ ایک اینٹ بھی نہیں رکھ سکتے۔ بحریہ ٹائون تو پھر ہزاروں رہائشی یونٹ پر مبنی پورا شہر ہے۔ وہ بغیر رشوت دیئے کیسے تعمیر ہوسکتا تھا۔ کبھی موقع ملے تو آپ کراچی کے کسی بلڈر سے پوچھ لیں۔ وہ چھوٹا ہو یا بڑا۔ آپ کو تمام متعلقہ محکموں کے ریٹ بتادے گا۔ زمین کی لیز سے لے کر نقشہ بنوانے اور تعمیر کرنے کے تمام مراحل کے نیچے سونے کے پہیے لگانے پڑتے ہیں۔ جس سے نہ صرف پراجیکٹ کی لاگت بڑھ جاتی ہے ،بلکہ غیر قانونی تعمیرات اور قانونی تعمیرات میں تجاوزات کا راستہ بھی کھل جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ پھر تعمیراتی ادارے کیا کریں۔؟ روزی روٹی تو اُنہوں نے بھی کمانی ہے۔ وہ رشوت دینے سے انکار کردیں تو بوریا بستر سمیٹ کر ملک چھوڑنا پڑے گا۔ بحریہ ٹائون بھی عملاً ایسے ہی متاثرہ بلڈرز میں سے ایک ہے۔ فرق بس اتنا ہے کہ دوسرے بلڈرز کو دھونس کے نام پر کاٹا جاتا ہے۔ بحریہ کو دوستی کے نام پر نچوڑا گیا ہے۔ کام ایک ہی ہے، بس لیبل مختلف ہیں۔ بڑے بلڈرکو عزت بھی تو دینی ہوتی ہے ۔ رائو انوار کی درندگی اور بعض سرکاری بے قاعدگیوں سے ہٹ کر دیکھا جائے تو بحر یہ ٹائون کراچی ایک شاندار منصوبہ ہے۔ ویرانے میں گلاب اگانے کا ایسا تجربہ جس نے کراچی کے قدوقامت میں اضافہ کردیا ہے اور مڈل کلاس کے لئے خصوصاایک ہوادار کھڑکی کھل گئی ہے۔اس منصوبے کو ماڈل بناکر سندھ بھر میں رہائشی کالونیاں بنانے کی ضرورت ہے ۔ یاد رہے کہ تازہ بستیاں اہل نظر ہی آباد کرتے ہیں۔ وفاقی حکومت میں کوئی اہل نظر ہے تو پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر کے دشوار گزار ہدف کو بحریہ ٹائون جیسے اداروں کی معاونت سے حل کیا جاسکتا ہے۔ بس نیت نیک رکھنے کی ضرورت ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More