قسط نمبر232
عباس ثاقب
یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جس نے نوجوانی کے امنگوں بھرے دور میں اپنی جان خطرے میں ڈال دی۔ صرف اس لئے کہ وطن عزیز پاکستان کو دشمنوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔ جمال صاحب کراچی کے قدیم رہائشی ہیں اور ان دنوں گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ عمر کے آخری حصے میں بصد اصرار اس بات پر آمادہ ہوئے کہ اپنی زندگی کے تہلکہ خیز گوشوں سے پردہ اٹھائیں۔ ان کا اصل نام کچھ اور ہے۔ بعض نا گزیر اسباب کی بنا پر انہیں ’’جمال‘‘ کا فرضی نام دیا گیا ہے۔ اس کہانی کو ڈرامائی شکل دینے کیلئے کچھ زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی۔ کیونکہ یہ حقیقی ایڈوینچر کسی سنسنی خیز ناول سے زیادہ دلچسپ ہے۔ جمال صاحب کی کہانی ان لوگوں کیلئے دعوتِ فکر ہے، جنہیں یہ ملک بغیر کسی جد و جہد اور محنت کے ملا اور انہوں نے اس کی قدر کرنے کے بجائے اسی سے شکایات شروع کر دیں۔ امید ہے کہ قسط وار پیش کی جانے والی یہ کہانی ’’امت‘‘ کے خوش نظر قارئین کی پذیرائی حاصل کرے گی۔ (ادارہ)
میں نے کچھ سوچ کر ظہیر سے پوچھا۔ ’’تم جب پچھلی کھیپ لے کر گئے تھے تو راستے میں کوئی مشکل تو پیش نہیں آئی تھی؟ میرا مطلب ہے مال پکڑے جانے کا کوئی خطرہ تو محسوس نہیں ہوا تھا‘‘۔
ظہیر نے نفی میں سر ہلایا، تاہم اس کے بجائے یاسر نے میرے سوال کا جواب دیا۔ ’’جمال بھائی، ہم لوگوں کی گاڑیوں کا کشمیر کے مختلف حصوں میں آنا جانا لگا رہتا ہے۔ خصوصاً سردیوں کے موسم میں تو یہ تسلسل مزید بڑھ جاتا ہے۔ راستے میں واقع پولیس چوکیوں والے اکثر اہلکار ہماری گاڑیاں پہچانتے ہیں۔ کیونکہ ہم ہر پھیرے میں ان کا نذرانہ بلا تعرض ان تک پہنچاتے رہتے ہیں۔ لہٰذا خالی ٹرک میں کوئی جھانکنے کی بھی زحمت نہیں کرتا۔ ظہیر کلینر کے بھیس میں ساتھ گیا تھا تو کسی پولیس والے نے اس پر دوسری نظر ڈالنے کی بھی زحمت نہیں کی تھی۔ سو بات کی ایک بات، ناگہانی پر تو کسی کا زور نہیں چلتا، لیکن بظاہر کوئی خطرہ نہیں ہے‘‘۔
میں نے اس کی بات سن کر اطمینان کے اظہار کے لیے سر ہلایا اور پھر ظہیر سے سوال کیا۔ ’’اب تم بتاؤ کہ تم یہ کھیپ کب کشتواڑ لے جانا چاہتے ہو؟‘‘
ظہیر نے کہا۔ ’’میرا بس چلے تو میں ابھی نکل پڑوں۔ لیکن میں پہلے شازیہ کی بازیابی کی مہم میں شامل ہونا چاہتا ہوں۔ یہ ہتھیار یہاں محفوظ ہیں۔ یہ ابھی وہاں پہنچ جائیں یا آٹھ دس دن بعد، کچھ زیادہ فرق نہیں پڑے گا‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’یار یہ تو تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔ میں تمہاری اس خواہش کا بھی احترام کرتا ہوں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہم شیامک کی گردن پکڑنے کے لیے فی الحال پٹیالے کا رخ نہیں کر سکتے۔ تم راستے میں پولیس والوں کی مستعد نفری تو دیکھ ہی چکے ہو۔ پٹیالے کے رخ پر تو وہ اور بھی زیادہ چوکس ہوں گے اور عین ممکن ہے گاڑیوں اور مسافروں کے کوائف کی چھان بین اور ان کی جامہ تلاشی بھی لی جا رہی ہو‘‘۔
ظہیر نے میری تائید میں سر ہلایا اور پھر سوالیہ نظروں سے مجھے دیکھا۔ میں نے کہا۔ ’’میرا مشورہ یہ ہے کہ تم کل ہی اپنے مالِ غنیمت سمیت کشتواڑ روانہ ہو جاؤ۔ اپنا سامان منزل پر پہنچاکر تین چار دن میں تمہارے واپس آنے تک معاملہ مزید ٹھنڈا پڑ جائے گا۔ پھر ہم دونوں بھائی کوئی اچھی سی حکمتِ عملی بناکر اپنے مشن پر نکل پڑیں گے‘‘۔
ظہیر نے میری رائے سے اتفاق کیا۔ اس کے لہجے پر گمبھیر سنجیدگی چھاتے دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی۔ قدرے توقف کے بعد اس نے باری باری ہم سب پر نگاہ ڈالی اور بھاری لہجے میں کہا۔ ’’ہو سکتا ہے میری بات آپ سب کو بے موقع لگے، لیکن حقیقت تو یہی ہے۔ اگر شیامک سے معلومات اگلوانے کی کوشش میں اللہ رب العزت کی طرف سے اوپر روانگی کا حکم آگیا تو یہ اسلحہ میرے ساتھیوں تک پہنچنا مشکل ہو جائے گا‘‘۔
ہمارے چہروں پر ابھرتے اداسی و دلگیری کے آثار دیکھ کر اس نے اپنا لہجہ خوش گوار بناتے ہوئے بات آگے بڑھائی۔ ’’ویسے بھی اسلحے کی یہ کھیپ میں اس لیے بھی جلد از جلد کشتواڑ پہنچانا چاہوں گا کہ اس طرح میں کافی عرصے کے لیے اپنے ساتھیوں کے پاس ایمونیشن کی کمی کی فکر سے آزاد ہوجاؤں گا۔ ہو سکتا ہے کچھ مزید حریت پسند میرے ساتھیوں سے آن ملے ہوں اور انہیں ہتھیاروں کی کمی کا سامنا ہو‘‘۔
میں نے ماحول کا تناؤ دور کرنے کے لیے کہا۔ ’’تو بھائی پھر دیر کیوں کرتے ہو؟ ویسے بھی تمہارا علاقہ تو ان دنوں برف سے ڈھکا ہوا ہوگا۔ موسم سے لطف اندوز ہونے کا موقع بھی ملے گا‘‘۔
ظہیر کے کچھ کہنے سے پہلے جمیلہ بول پڑی۔ ’’برف باری؟… میں نے کبھی دیکھی تو نہیں، لیکن دل میں شوق بہت ہے‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’کوئی بات نہیں، اگلے ٹرپ پر ناصر تمہیں کلینر بناکر بھیج دے گا۔ موسم کا مزا لینے کے ساتھ ٹرک کی صفائی ستھرائی اور دیکھ بھال کا تجربہ بھی ہو جائے گا‘‘۔
میری بات سن کر سب نے قہقہہ لگایا۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ ڈھیٹ لڑکی سب سے زور سے ہنسی تھی۔ اس نے بمشکل اپنی ہنسی روکتے ہوئے کہا۔ ’’میں تیار ہوں، لیکن شرط یہ ہے کہ آپ میرے چہرے پر بھی وہ موٹی سی، اوپر مڑی نوکوں والی مونچھیں لگاکر کلینر بنائیں گے!‘‘۔
اس کی بات پر ایک اور قہقہہ بلند ہوا۔ میں نے جمیلہ کو کہا۔ ’’وعدہ رہا، تمہیں اتنا خطرناک قسم کا مونچھڑ بناؤں گا کہ لوگ ڈاکو سمجھ کر ڈر جائیں گے۔ پستول چلانا تو تمہیں آتا ہی ہے! چاہو تو یہی دھندا اپنا لینا!‘‘۔
وہ ہری مرچ صفت لڑکی کب چپ رہنے والی تھی۔ اس نے پٹاخ سے جواب دیا۔ ’’پستول چلانے سے بات تھوڑی بنے گی۔ آپ کو مجھے بندوق اور اسٹین گن چلانا بھی سکھانا پڑے گا۔ بلکہ میں تو کہتی ہوں ایک اسٹین گن اور شاٹ گن یہیں روک لیں۔ میں مشق کرلوں گی‘‘۔
یہ سن کر ظہیر نے گھور کر جمیلہ کو دیکھا اور پھر اسلحے والی بوری کو پیٹھ کے پیچھے کر کے جمیلہ کو اپنا راستہ ناپنے کا اشارہ کیا۔ اسی طرح کی خوش گپیوں میں رات کا دوسرا پہر شروع ہوگیا۔ ناصر کا کہنا تھا کہ وہ کل ہی خفیہ خانے والا ٹرک بلوالے گا اور رات ہوتے ہی اس میں اسلحے کی کھیپ لادکر کشتواڑ روانہ کر دے گا۔ بالآخر اس خوش گوار محفل کا اختتام ہوا اور سب اپنے اپنے ٹھکانوں پر سونے چلے گئے۔ ظہیر نے اسلحے والی بوری خاص طور پر اپنے پلنگ کے نیچے رکھی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ اسے آج نہایت خوش گوار نیند آئے گی۔ اور واقعی وہ بستر پر لیٹنے کے بعد بہت جلد گہری نیند میں کھو گیا۔
میں نے بھی سونے کی کوشش کی، لیکن دماغ بے اختیار آگے کے بارے میں سوچنے لگا۔ مجھے کئی دنوں تک وہاں قیدی بن کر بیٹھے رہنے کے خیال سے الجھن ہو رہی تھی۔ میں آج دن کے تجربے کی روشنی میں اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ عمدگی سے حلیہ بدل کر سفر کرنے میں اتنا زیادہ خطرہ نہیں ہے۔ کیونکہ پنجاب کی بیشتر پولیس ابھی تک تفتیش اور چھان بین کے جدید طریقوں کی کچھ زیادہ سدھ بدھ نہیں رکھتی۔
کچھ بدعنوانی اور نااہلی بھی پولیس کی کارکردگی کو ناقص بنا دیتی ہے۔ ایسے میں اگر میں حلیے میں مناسب تبدیلی کر کے عوامی سواری کے ذریعے امر دیپ کے گاؤں کا رخ کروں تو کچھ زیادہ خطرہ درپیش نہیں ہوگا۔ میں اتنے دنوں سے ان کی جیپ لے کر غائب ہوں۔ کم ازکم امر دیپ تو شدید تشویش میں مبتلا ہوگا۔ انہیں اپنی خیریت کا اطمینان دلانا میری اخلاقی ذمہ داری ہے۔ جیپ کی غیر موجودگی کا تو کوئی بھی مناسب بہانہ بنایا جاسکتا ہے۔ یہ سب سوچ کر میں نے فیصلہ کیا کہ کل نہیں تو پرسوں صبح میں بھی چھاجلی گاؤں کی طرف نکل جاؤں گا۔ اس کے بعد مجھے بھی رفتہ رفتہ نیند آگئی۔ (جاری ہے)
Prev Post