قادر خان کے والد قندھار کے معروف عالمی دین تھے

0

پہلی قسط
نمائندہ امت
بھارتی فلم انڈسٹری کے مقبول ترین مکالمہ نویس، ورسٹائل اداکار اور کامیاب اسکرپٹ رائٹر قادر خان مرحوم کی زندگی کے کچھ گوشے ایسے ہیں، جنہیں بے نقاب کرنے سے اس عظیم فنکار کی بے شمار پوشیدہ خوبیاں واضح ہوتی ہیں۔ 1937ء میں کابل میں جنم لینے والے قادر خان کے والد قندھار سے تعلق رکھنے والے عالم دین مولانا عبدالرحمان خان تھے۔ جبکہ والدہ اقبال بیگم کا تعلق پشین (بلوچستان، پاکستان) سے تھا۔ قادر خان پشتون قبیلے کاکڑ سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے والدین غریب تھے۔ قادر خان سے پہلے ان کے تین بیٹے ہوئے، لیکن آٹھ برس کی عمر پہنچنے تک تینوں انتقال کرگئے۔ قادر خان کی پیدائش پر ان کی والدہ نے اپنے شوہر سے کہا کہ اب میں کابل میں مزید نہیں رہ سکتی، کیونکہ یہاں کی آب و ہوا میرے بیٹے کو راس نہیں آئے گی اور کہیں یہ بھی اپنے بھائیوں کی طرح داغ مفارقت نہ دے جائے۔ چنانچہ یہ مختصر سا خاندان ہجرت کر کے بمبئی پہنچ گیا، جہاں ان کی کسی سے کوئی شناسائی نہ تھی۔
اجنبی ملک کے اجنبی شہر میں انتہائی کسمپرسی کی حالت میں یہ لوگ ایک جھونپڑ پٹی ’’کماٹھی پورہ‘‘ میں رہائش پذیر ہوئے۔ کماٹھی پورہ جہاں انتہائی غلیظ کچی بستی تھی، وہیں ہر بُرے کام کے اڈے یہاں موجود تھے۔ قحبہ خانے، منشیات کے اڈے، جوئے خانے… غرض ہر گندا دھندا اس بستی میں ہوتا تھا۔ بمبئی میں قادر خان کی والدہ اور والد میں چپقلش پیدا ہونے لگی۔ قادر خان جب صرف دو برس کے تھے تو ان کے والدین میں علیحدگی ہوگئی۔ قادر خان کہتے ہیں ’’یہ پہلا جھٹکا تھا جو زندگی نے مجھے دیا‘‘۔ ان کی والدہ کے کچھ رشتہ داروں نے انہیں سمجھایا کہ بمبئی شہر کی اس انتہائی غیر شریفانہ بستی میں ان کا اکیلا رہنا درست نہیں۔ یہ کہہ سن کر قادر خان کی والدہ کی دوسری شادی کرادی گئی۔ قادر خان کہتے ہیں کہ ’’دو برس کی عمر سے میرے دو باپ ہوگئے۔ ایک وہ جو گھر میں ماں کے ساتھ رہتا تھا اور دوسرا میرا سگا باپ جو ایک مسجد کا پیش امام تھا۔ مجھے جتنی محبت اپنی ماں سے ملی، اتنی ہی نفرت سوتیلے باپ سے ملی۔ وہ فلموں اور ڈراموں والا سوتیلا باپ تھا۔ انتہائی سخت مزاج اور تشدد پسند‘‘۔
قادر خان ایک برس کی عمر سے سول انجینیئر بننے تک اسی بستی میں پلے بڑھے۔ 2007ء میں ایک تفصیلی انٹرویو کے دوران اپنی ماضی کی یادوں سے گرد جھاڑتے قادر خان نے بتایا کہ ’’میں نے آٹھ نو برس کی عمر سے ہی تھیٹر میں کام کرنا شروع کردیا تھا۔ اس زمانے میں ایک سینیئر کیریکٹر جن کا نام اشرف خان تھا، نے محبوب خان کی فلم ’’روٹی‘‘ میں بھی کام کیا تھا۔ اشرف خان دراصل تھیٹر کے اداکار تھے اور خود بھی ڈرامے لکھتے اور ہدایت کاری بھی کرتے تھے۔ ان دنوں وہ ایک ڈرامہ ’’وامق عذرا‘‘ لکھ رہے تھے۔ عشقیہ داستان پر بنائے گئے ڈرامے میں نو عمر شہزادے وامق کا کردار ادا کرنے کیلئے ایک نو دس سال کے لڑکے کی ضرورت تھی۔ اب بھلا ایسا کون نو دس سال کا نو عمر لڑکا ہو سکتا ہے جو لمبا چوڑا اسکرپٹ یاد کر کے تماشائیوں کے سامنے مکالمات ادا کرسکے۔ میری والدہ نماز پڑھنے کیلئے مجھے مسجد بھیجا کرتی تھیں۔ لیکن میں بجائے مسجد جانے کے گھر کے قریب ایک قبرستان میں چلا جاتا اور قبروں کے درمیان بیٹھ کر خود سے باتیں کرتا۔ یہ میری بچپن سے عادت تھی کہ اپنے اردگرد کے لوگوں کو کام کاج کرتے یا باتیں کرتے بغور دیکھتا اور پھر یہ جانچتا کہ اس شخص نے کام زیادہ اچھا کیا ہے یا یہ بات کس طریقے سے کرتا ہے۔ کسی کے بات کرنے کا طریقہ یا بات پسند آجاتی تو قبرستان میں بیٹھ کر باآواز بلند اس بات کو دہرایا کرتا۔ یہ ایک عجیب و غریب عادت یا رویہ تھا، لیکن شاید مجھے قدرت نے پیدائشی طور پر ایک مکالمہ نگار اور ہدایت کار بنایا تھا جس کی قوت مشاہدہ غصب کی تیز تھی۔ میں اپنے آس پاس کے زندہ کرداروں کا بغور جائزہ لیتا اور ان کی باتوں کو یاد کرتا اور پھر اکیلا بیٹھ کر انہی کے انداز میں دہرانے کی کوشش کیا کرتا۔ نماز کا وقت گزرنے کے بعد میں گھر چلاجاتا۔ لیکن میری والدہ اکثر میری چوری پکڑ لیتی تھیں۔ ہم اتنے غریب تھے کہ مجھے پہننے کو چپلیں تک نصیب نہ تھیں اور برہنہ پا ہی مسجد جایا کرتا تھا۔ نماز سے پہلے وضو کیا جاتا ہے، لیکن میرے دھول مٹی میں اٹے گندے پائوں دیکھ کر والدہ سمجھ جایا کرتیں کہ میں مسجد نہیں گیا تھا۔ انہی دنوں اشرف خان اپنے ڈرامے کیلئے کمسن لڑکے کی تلاش میں تھے۔ کسی نے ان کو بتایا کہ ایک لڑکا قبرستان میں بیٹھا چیخ چیخ کر اپنے آپ سے باتیں کرتا رہتا ہے۔ اشرف خان کئی راتوں تک چھپ کر میری حرکات و سکنات کا جائزہ لیتے رہے اور پھر ایک رات جب میں اپنی روزانہ کی مشق میں مصروف تھا، اشرف خان نے میرے چہرے پر ٹارچ کی روشنی ڈالی اور پوچھا کہ تم یہ کیا بولتے رہتے ہو یہاں بیٹھ کر؟ میں نے جواب دیا کچھ نہیں، بس ایسے ہی جو اچھا لگتا ہے وہ بولتا رہتا ہوں۔ اشرف خان مجھے گھورتے ہوئے بولے، ڈرامے میں کام کرو گے؟ میں نے پوچھا کہ ڈرامہ کیا ہوتا ہے؟ اشرف خان کہنے لگے، یہی جو کچھ تم بول رہے ہو، اس سب کو ایک ساتھ جوڑ کر بولا جائے تو ڈرامہ کہلاتا ہے۔ اگلے دن ان کا اسسٹنٹ مجھے ایک چھوٹے سے بنگلے پر لے گیا جو اشرف خان کی رہائش گاہ تھی۔ اشرف خان نے میری تربیت کرنا شروع کردی۔ ان کی محبت، خلوص اور شفقت کے زیر اثر میں نے ایک ماہ میں ہی ڈرامے کے مکالمے یاد کرلئے اور کردار نبھانے کے قابل ہوگیا۔ ڈیڑھ ماہ بعد تھیٹر میں یہ ڈرامہ پیش کر دیا گیا۔ میری اداکاری کو تماش بینوں نے بہت سراہا، بے انتہا پذیرائی ملی۔ ایک دن تو ایک بڑے میاں نے اسٹیج پر آکر مجھ کو شاباش کے ساتھ سو روپے کا نوٹ بھی دیا۔ انہوں نے کہا تھا کہ تمہاری عمر کے بچے کیلئے یہ بہت بڑی رقم ہے۔ لیکن یہ دراصل تمہارے لئے ایک سرٹیفکیٹ ہے۔ اس کو سنبھال کر رکھنا تاکہ یہ یاد دلاتا رہے کہ تم نے کتنی چھوٹی عمر میں اسے حاصل کرلیا تھا۔ کافی عرصے تک میں نے وہ سو کا نوٹ بہت سنبھال کر رکھا۔ لیکن حالات کے آگے بھلا کس کی چلتی ہے؟ لوگ غربت سے مجبور ہوکر اپنے تمغے اور اسناد تک بیچ ڈالتے ہیں۔ میں کب تک یہ سرٹیفکیٹ سینے سے لگا کر رکھ سکتا تھا۔ یہ نوٹ بھی گھر والوں کے پیٹ کی آگ سرد کرنے کے کام آگیا۔ میری چال کے اکثر بچے غریب تھے اور صبح ہوتے ہی مختلف کام کاج کی تلاش میں گھروں سے نکل جاتے اور شام تک دو ڈھائی روپے کی مزدوری کما لاتے تھے۔ میں بھی مدرسے جاتا تھا، لیکن پڑھائی میں میرا دل نہیں لگتا تھا۔ میں سوچتا تھا کہ میں بھی ان بچوں کی طرح کوئی کام کاج کر کے روزانہ اتنا تو کما لائوں کہ گھر میں ایک وقت کا کھانا بن سکے۔ ایک دن میں نے پکا ارادہ کرلیا کہ آج مدرسے نہیں جائوں گا، بلکہ کام تلاش کروںگا۔ ابھی میں سیڑھیاں اتر ہی رہا تھا کہ پیچھے سے ایک ہاتھ میرے کاندھے پر جم گیا۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو ماں تھی۔ شاید اس نے میرے دل کی بات جان لی تھی۔ مجھ سے کہنے لگی کہ تین چار روپے کمانے جائے گا تو زندگی بھر تیری اور تیرے گھر کی غربت ختم نہیں ہوگی۔ ساری زندگی یہی تین چار روپے کمائے گا۔ غربت کو قتل کرنے والی صرف ایک ہی تلوار ہے اور وہ ہے قلم۔ میری ماں نے وہ سب بات کچھ اس انداز سے کہی کہ میرے دل میں اتر گئی اور پھر میں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ اب میں نے پڑھنا شروع کردیا۔ ہمارے پاس رہنے کے لئے ایک ہی کمرہ تھا۔ جب مجھے میتھمیٹکس کی پریکٹس کرنی ہوتی تو میں چاک خرید لاتا۔ کاغذ نہ ہونے کی وجہ سے میں فرش پر سوالات حل کرتا اور پورا فرش حسابی کلیوں سے بھر جاتا۔ میں اس کو مٹاکر دوبارہ مصروف ہوجاتا۔ ماں ایک کونے میں بیٹھ کر مجھے یہ سب کرتے دیکھتی۔ میں نے ڈپلومہ ان سول انجینئرنگ کیا۔ پھر گریجویشن ان سول انجینئرنگ کیا۔ پھر پوسٹ گریجویشن ان سول انجینئرنگ کیا۔ ساتھ ساتھ میرا لکھنے لکھانے کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ اس وقت میں ڈرامے لکھتا تھا۔ جب میری عمر تقریباً چوبیس برس تھی تو آل انڈیا ڈرامیٹک کامیڈی کیلئے میں نے ایک ڈرامہ لکھا، جس کا نام تھا ’’لوکل ٹرین‘‘۔ اس ڈرامے کو آل انڈیا بیسٹ ڈرامے کا ایوارڈ ملا۔ بیسٹ ایکٹر، بیسٹ ڈائریکٹر اور بیسٹ رائٹر کا ایوارڈ بھی ملا۔ مجھے کیش ایوارڈ پندرہ سو روپے کا ملا تھا۔ زندگی میں پہلا موقع تھا کہ مجھے ایک ساتھ پندرہ سو روپے ملے۔ اس وقت میری تنخواہ تین سو روپے ماہانہ تھی۔ جب تین سو روپے کمانے والے کو ایک ساتھ پندرہ سو روپے مل جائیں تو آپ اس کی حالت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ اس پلے کے ججز نریندر بیدی، رمیش بھیل صاحب، کامنی کوشل اور راجندر سنگھ بیدی صاحب تھے۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ آپ کو فلموں میں جانے کا شوق نہیں؟ فلموں کیلئے کیوں نہیں لکھتے؟ میں نے کہا کہ کبھی اس بات کا خیال نہیں آیا۔ نریندر بیدی کہنے لگے کہ میں ایک فلم بنارہا ہوں ’’جوانی دیوانی‘‘ کے ٹائٹل سے۔ آپ اس کیلئے ڈائیلاگ لکھیں۔ میں نے کہا کہ سر مجھے ڈائیلاگ لکھنے نہیں آتے۔ نریندر بیدی بولے کہ یہ جو پلے آپ نے لکھا ہے، بس یہی ڈائیلاگ ہوتے ہیں۔ انہوں نے دوسرے دن مجھے اپنے آفس بلایا اور مجھے کچھ سین لکھنے کیلئے دیئے۔ میں وہ سین دو گھنٹے میں لکھ لایا۔ نریندر بیدی بڑے حیران ہوئے۔ کہنے لگے کہ میں تو سمجھ رہا تھا کہ اب تم دو مہینے بعد آئو گے۔ بہرحال اس طرح میری پہلی فلم کا آغاز ہوا۔ اس فلم میں رندھیر کپور، جیا بہادری ستارے تھے۔ میں بطور رائٹر اور آر ڈی برمن بطور میوزک ڈائریکٹر تھے۔ یہ فلم 1972ء میں ریلیز ہوئی۔ اس فلم کے ڈائیلاگ لکھنے کا معاوضہ مجھے پندرہ سو روپے ملا تھا۔ اس طرح فلمی دنیا میں شہرت پھیل گئی کہ ایک نیا رائٹر آیا ہے، جو سین میں ڈائیلاگ بولنے کے طریقے بھی لکھتا ہے۔ اسی دوران ایک صاحب مجھ سے ملنے آئے اور کہنے لگے کہ جناب آپ میری فلم لکھ رہے ہیں۔ میں نے کہا کہ ابھی تو میں مصروف ہوں، لیکن ان صاحب نے ایک لفافہ میرے ہاتھ میں تھما دیا۔ لفافہ کافی موٹا سا لگا۔ ذرا سائیڈ میں جا کر رقم گنی تو پورے دس ہزار روپے تھے۔ یہ سائننگ امائونٹ تھا۔ یہ میرا پندرہ سو سے دس ہزار پر ڈائریکٹ جمپ تھا۔ اس کے بعد 1974ء میں میری ملاقات من موہن ڈیسائی سے ہوئی۔ وہ اس زمانے میں فلم ’’روٹی‘‘ بنا رہے تھے۔ وہ اپنے رائٹر اور مکالمہ نگار سے مطمئن نہیں تھے۔ پروڈیوسر حبیب نڈیاڈ والا نے من موہن ڈیسائی کو میرے بارے میں بتایا تو وہ مجھ سے بات کرنے پر راضی ہوگئے۔ اپنے مخصوص انداز میں مجھ سے کہنے لگے کہ دیکھو میاں بھائی، تم میرے کو ڈائیلاگ لکھ کر دے گا۔ اگر میرے کو پسند آئے گا تو میں لے گا۔ نہیں تو میں وہ ڈائیلاگ کا پیپر تیرے سامنے تیرے منہ پر پھاڑ کر پھینکے گا۔ میری بھی ایک انا تھی۔ میں نے ان سے پوچھا کہ سر جی ٹھیک ہے، اگر آپ کو پسند نہیں آئے تو آپ ڈائیلاگ کا پنا پھاڑ دو گے۔ لیکن اگر پسند آگئے تو پھر کچھ اس کا بھی بتائیے کہ پھر کیا کرو گے؟ من موہن ڈیسائی بولے، اگر ڈائیلاگ پسند آگئے تو میں تیرے کو سر پر بٹھا کر ناچوں گا۔ من موہن ڈیسائی نے مجھے کلائمکس لکھنے کو دیا تھا اور اگر آپ نے ’’روٹی‘‘ دیکھی ہے تو خود جانتے ہوں گے کہ اس کا کلائمکس کیسا ہے؟ ابھی من موہن ڈیسائی کے ساتھ ہی کام جاری تھا کہ پرکاش مہرہ کو بھی میری ضرورت پڑ گئی۔ اس وقت پرکاش مہرہ اور من موہن ڈیسائی مخالف کیمپ تھے۔ جو من موہن ڈیسائی کے ساتھ کام کرتا تھا وہ پرکاش مہرہ کے ساتھ کام نہیں کرسکتا تھا۔ اور جو پرکاش مہرہ کے ساتھ کام کرتا تھا، اسے من موہن ڈیسائی کے پاس جانے کی اجازت نہیں تھی۔ میں وہ واحد رائٹر تھا جو دونوں کیلئے کام کرتا تھا اور میرے ساتھ امیتابھ بچن بھی دونوں کیمپوں میں کام کرلیا کرتے تھے۔ لوگ اکثر مجھ سے پوچھتے کہ یار تم کس کیمپ میں ہو؟ من موہن ڈیسائی یا پرکاش مہرہ؟ میں کہتا کہ میں ان دونوں کے کیمپ میں نہیں، بلکہ یہ دونوں میرے کیمپ میں ہیں۔
(جاری ہے)

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More