امت رپورٹ
کراچی میں غریبوں اور نادار افراد کیلئے مفت کھانے کی سہولت بھی خطرے میں پڑ گئی ہے۔ بلدیہ عظمٰی کراچی کے محکمہ انسداد تجاوزات نے مستحقین کو مفت کھانا کھلانے والے فلاحی اداروں کو اپنے دسترخوان 3 روز میں ہٹانے کا الٹی میٹم دے دیا ہے۔ سیلانی، چھیپا، ایدھی، جے ڈی سی، اعظم ویلفیئر اور المصطفیٰ ٹرسٹ سمیت دیگر اداروں کو منگل کے روز نوٹس دیئے گئے۔ واضح رہے کہ ان دسترخوانوں سے یومیہ تقریباً 2 لاکھ افراد کھانا کھاتے ہیں۔ فلاحی اداروں کے دستر خوانوں سے کھانا کھانے والے غریب و نادار افراد کا کہنا ہے کہ میئر کراچی شہر سے روزگار کے ذرائع ختم کرنے کے بعد اب غریب مزدوروں کے منہ سے نوالہ بھی چھیننا چاہتے ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ فلاحی اداروں کے دسترخوانوں کیخلاف کارروائی سے قبل انہیں اس کارخیر کیلئے متبادل جگہیں دی جائیں۔ سپریم کورٹ کے احکامات کی آڑ میں عوام دشمن فیصلے نہ کئے جائیں۔
بلدیہ کراچی کے اقدامات کے حوالے سے چھیپیا ویلفیئر کے روح رواں رمضان چھیپا کا ’’امت‘‘ سے گفتگو میں کہنا تھا کہ شہر میں تجاوزات کیخلاف آپریشن کے بعد دستر خوانوں پر لوگوں کی تعداد بڑھ گئی ہے۔ اگر یہ دستر خوان ختم کرائے گئے تو غریب و نادار افراد کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ’’امت‘‘ کے سروے کے دوران ان دسترخوانوں پر آنے والوں کا کہنا تھا کہ غریبوں سے مفت کا کھانا چھیننے والے دنیا کے علاوہ آخرت میں بھی رسوا ہوں گے۔ واضح رہے کہ کراچی میں تجاوزات کیخلاف گزشتہ 3 ماہ سے جاری آپریشن میں اب تک ایک لاکھ سے زائد شہری بے روزگار ہوچکے ہیں اور انہدامی کارروائیاں اب بھی جاری ہیں۔ گزشتہ منگل کو کے ایم سی کے محکمہ انسداد تجاوزات کی جانب سے شہر میں کام کرنے والے فلاحی اداروں کو نوٹس دیئے گئے ہیں کہ وہ تین دن کے اندر فٹ پاتھوں پر لگائے جانے والے اپنے دسترخوان ختم کردیں۔ اس کے بعد کارروائی کرکے سامان ضبط کرلیا جائے گا۔ واضح رہے کہ ان دسترخوانوں سے روزانہ تقریباً دو لاکھ افراد دو وقت کا کھانا کھاتے ہیں۔ یہ دسترخوان ریلوے اسٹیشن کے قریب، صنعی علاقوں، کوچ اڈوں اور سرکاری اسپتالوں کے قریب اس لئے لگائے جاتے ہیں کہ ان جگہوں پر کھانے پینے کی اشیا شہر کے دیگر مقامات سے مہنگی ملتی ہیں۔ فلاحی اداروں کے ملازمین مستحق افراد سے انتہائی شفقت سے پیش آتے ہیں اور ان کی عزت نفس کا خیال رکھتے ہوئے نہایت اہتمام سے انہیں کھانا پیش کرتے ہیں۔ ان دسترخوانوں پر کسی سے اس کا مذہب اور قومیت نہیں پوچھی جاتی۔ سیلانی ویلفیئر میں مستحق خواتین کو خواتین ورکرز ہی کھانا کھلاتی ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ چند سال قبل ہوٹل والوں نے بلدیاتی اداروں کے ساتھ مل کر ان دسترخوانوں کے خلاف کارروائیاں شروع کرائی تھیں، لیکن فلاحی ادارے انسانیت کی خدمت کیلئے ڈٹے رہے۔ اب شہر میں تجاوزات کیخلاف بے رحمانہ آپریشن کے باعث ہزاروں افراد بیروزگار ہوئے ہیں۔ دکانیں مسمار اور ٹھیلے پتھارے ہٹانے کی وجہ سے بعض گھرانوں میں فاقوں کی نوبت آگئی، جس کی وجہ سے ان دسترخوانوں پر کھانا کھانے والوں کا بھی رش بڑھ گیا ہے۔ لیکن بلدیہ کراچی کی جانب سے نوٹس ملنے کے بعد خیراتی اداروں کے ذمہ داران پریشان ہوگئے ہیں کہ وہ اپنے سینٹرز اور دسترخوان کہاں لے جائیں۔
چھیپا ویلفیئر ٹرسٹ کے بانی و چیئرمین رمضان چھیپا کا کہنا ہے کہ وہ کسی صورت انسانیت کی خدمت چھوڑ نہیں سکتے۔ حکومت کو کوئی متبادل بندوبست کرنا چاہئے، بصورت دیگر غریب اور نادار افراد کو سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑے گا اور وہ فاقوں کا شکار ہونگے۔ انہوں نے بتایا کہ چھیپا دستر خوانوں کیلئے روزانہ تیس سے پینتیس ہزار لوگوں کھانا پکاتے ہیں، جو دونوں وقت مختلف مقامات پر کھلایا جاتا ہے۔ آج کل تجاوزات کیخلاف آپریشن کی وجہ سے بیروزگار ہونے والے افراد زیادہ آنے لگے ہیں۔ لیکن اب ان سے دو وقت کی روٹی بھی چھینی جارہی ہے۔ ایدھی فاؤنڈیشن کے ترجمان انور کاظمی کا ’’امت‘‘ سے گفتگو میں کہنا تھا کہ بلدیہ والے دسترخوان بھی ہٹا رہے ہیں، جن پر ہزاروں افراد کھانا کھاتے ہیں۔ مختلف مقامات پر قائم ایمبولینس سینٹرز بھی ختم کرنے کو کہا جارہا ہے۔ ان اقدامات کی وجہ سے غریب اور مستحق افراد کو بہت تکلیف اور پریشانی ہوگی۔ نمائش چورنگی پر لگائے جانے والے سیلانی کے دسترخوان پر موجود سلیم کا کہنا تھا کہ اگر غریب کو بھوکا مارو گے تو وہ جرم کی طرف جائے گا۔ پہلے ہی لوگ فاقوں کا شکار ہوکر خودکشیاں کررہے ہیں۔ میئر کراچی سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ دسترخوان بند نہ کریں۔ پہلے ان اداروں کو متبادل جگہ دیں۔ سلیم کا کہنا تھا کہ یہاں پر بیروزگار بھی پیٹ بھرتے ہیں اور نشہ کرنے والے بھی آتے ہیں۔ اگر انہیں مفت روٹی نہ ملی تو وہ چوری کریں گے۔ حکومت کو اس بارے میں ہمدردانہ فیصلہ کرنا چاہئے۔ سلیم کا کہنا تھا کہ کراچی شہر میں بے گھر افراد کیلئے کوئی شیلٹر ہوم نہیں ہے۔ چند اداروں نے مفت کھانے کا سلسلہ شروع کیا ہے تو اس کو بھی بند کرانے کی تدبیریں ہورہی ہیں۔ سلیم کے بقول وہ 5 سال سے یہاں آکر کھانا کھا رہا ہے، جس سے روازنہ سو ڈیڑھ سو روپے کی بچت ہوجاتی ہے جو اس کے بچوں کے کام آتے ہیں۔ اس کو 600 روپے دیہاڑی ملتی ہے، روزانہ کام بھی نہیں ملتا۔ یہ دسترخوان اس جیسے لوگوں کیلئے بہت بڑی نعمت ہیں۔ کھانے کے انتظار میں دسترخوان پر بیٹھے توفیق کا کہنا تھا کہ جتنی عزت دستر خوان والے دیتے ہیں ہوٹل کے ویٹر نہیں دیتے۔ خستہ خان نے شکوہ کیا کہ یہ ادارے لاکھوں غریبوں کو کھانے کھلاتے ہیں، ان کی حوصلہ افزائی کے انہیں بجائے پریشان کیا جارہا ہے۔ حکومت کو ان کی مدد کرنی چاہئے تاکہ یہ لوگ زیادہ سے زیادہ غریبوں کو سہولتیں پہنچا سکیں۔ جمیل کا کہنا تھا کہ ان دسترخوانوں پر آنے والے لوگ مجبور ہوتے ہیں۔ بلدیہ والے غریبوں کی بددعائوں سے ڈریں۔ محبوب نے بتایا کہ ہوٹل پر نارمل کھانا ڈیرھ دو سو روپے میں ملتا ہے۔ کم آمدنی والوں اور بیروزگاروں کیلئے یہ دسترخوان بہت بڑا سہارا ہیں، خدارا انہیں ختم نہ کیا جائے۔ میئر کراچی فلاحی اداروں سے میٹنگ کر کے متبادل جگہ کا بندوبست کریں۔ ہاشم نے کہا کہ فلاحی اداروں کے دسترخوان بند ہوگئے تو غریب فاقوں سے مرجائیں گے۔ جبار کا کہنا تھا کہ دسترخوان کو بند کرنے کے بجائے متبادل جگہ دی جائے۔