امت رپورٹ
کراچی پولیس منشیات کی ترسیل کے نیٹ ورک توڑنے میں ناکام ہوگئی۔ ٹرینوں میں چیکنگ بڑھنے کے بعد انٹر سٹی بسوں اور کوچز کے ذریعے بلوچستان اور خیبرپختون سے چرس، ہیروئن، آئس اور کرسٹل سمیت دیگر منشیات کراچی لائی جارہی ہے۔ ذرائع کے مطابق منشیات اسمگلروں نے کوچز کے ملازمین کو دھندے میں شامل کرلیا ہے، جن کی مدد سے گاڑیوں کی چھتوں، ٹول بکس اور مسافروں کے سامان میں منشیات رکھ کر کراچی لائی جاتی ہے۔ اسمگلروں کی باہمی چپقلش کی وجہ سے مقامی پولیس کو کسی گاڑی میں منشیات کی موجودگی کی خبر مل جاتی ہے۔ ایسی ہی ایک مخبری پر چار روز قبل سوات سے آنے والی کوچ پر چھاپہ مارا گیا، جس میں سے چرس اور ہیروئن برآمد ہوئی۔ گرفتار کئے گئے 4 ملزمان سوات کے حاجی حبیب نامی اسمگلر کیلئے کام کرتے تھے۔ تاہم پولیس نے گرفتار ملزمان کیخلاف مقدمہ درج کرکے معاملہ نمٹا دیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پولیس کی جانب سے کراچی میں 22 بڑے منشیات ڈیلروں کے خلاف کبھی کارروائی کی گئی اور نہ ہی 30 بڑے اڈوں پر کریک ڈاؤن کیا گیا۔ صرف نشے کے عادی افراد کو پکڑ کر نارکوٹکس ایکٹ کے تحت کارروائی کرکے خانہ پری کردی جاتی ہے۔
شہر میں منشیات کی ترسیل اور فروخت کے نیٹ ورک کیخلاف موثر کارروائیاں نہ ہونے کی وجہ سے منشیات کا استعمال بڑھتا جارہا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ کچھ عرصہ قبل بہت زیادہ فروخت اور استعمال ہونے والی ’’آئس‘‘ نامی منشیات کے بعد اب ’’تنزانیہ‘‘ نامی نشہ متعارف کرایا گیا ہے۔ شہر کے فٹ پاتھوں، بس اڈوں اور پارکوں میں ہر طرف نشے کے عادی افراد بیٹھے نظر آتے ہیں۔ جبکہ تعلیمی ادارے بھی اس لعنت سے محفوظ نہیں۔ بعض گروپ طلبا و طالبات کو بھی منشیات سپلائی کرتے ہیں۔ کراچی پولیس بڑے دعوے کرتی ہے کہ منشیات فروشوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا جائے گا۔ اس حوالے سے اعلیٰ افسران کی سخت ہدایات کے بعد مقامی تھانے نشے کے عادی افراد یا دو چار گرام منشیات فروخت کرنے والوں کو پکڑ کر سوشل میڈیا پر اپنی کارکردگی کی تشہیر شروع کردیتے ہیں۔ ذرائع کے بقول کراچی میں بڑا مسئلہ دیگر شہروں سے منشیات کی ترسیل کو روکنے کا ہے۔ کیونکہ پولیس اور دیگر متعلقہ اداروں کے کرپٹ افسران اور اہلکار منشیات مافیا کے سرپرست بنے ہوئے ہیں۔ اگر کہیں سے پکی مخبر ملے بھی تو منشیات اسمگلروں کیخلاف کارروائی سے قبل ہی پولیس میں موجود کالی بھیڑوں کی وجہ سے منشیات اسمگلروں اور فروخت کرنے والوں کو پہلے سے اطلاع مل جاتی ہے، جس کے نتیجے میں کارروائی ناکام ہوجاتی ہے۔ ذرائع کے مطابق پولیس اور دیگر متعلقہ اداروں کے کرپٹ اہلکاروں کی ملی بھگت سے اسمگلر شہر کے داخلی راستوں اور ہائی ویز پر لگے ناکوں سے بآسانی گزر کر کراچی میں منشیات ڈمپ کرتے ہیں۔ یہاں سے منشیات نہ صرف شہر بھر میں سپلائی کی جاتی ہے بلکہ مختلف ذرائع سے بیرون ملک بھی اسمگل کی جاتی ہے۔ منشیات کی کھیپ افغانستان سے لاکر بلوچستان اور خیبر پختون میں ڈمپ کی جاتی ہے اور وہاں سے کراچی لائی جاتی ہے۔ ’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق سمندری راستوں اور ٹرینوں کی کڑی نگرانی اور چیکنگ کے بعد اسمگلروں نے منشیات کی ترسیل کیلئے انٹرسٹی کوچز کو استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔ اس بات کا انکشاف چار روز قبل سمن آباد پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہونے والے ملزمان نے کیا۔ ایک خفیہ اطلاع پر پولیس نے فیڈرل بی ایریا بلاک 20 النور موڑ پر سوات سے آنے والی کوچ پر چھاپہ مارا، جس میں سے بڑی مقدار میں چرس اور ہیروئن برآمد ہوئی تھی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پولیس کا انٹیلی جنس نظام اتنا فعال نہیں ہے کہ منشیات اسمگلروں کی نقل و حرکت پر نظر رکھ سکے۔ بلکہ منشیات فروشوں اور اسمگلروں کی باہمی چپقلش کی وجہ سے بعض اوقات پولیس کو ایسی اطلاعات مل جاتی ہیں کہ فلاں گاڑی میں ’’مال‘‘ لایا جارہا ہے۔ پولیس نے سوات سے آنے والی کوچ پر چھاپے کے دوران ڈرائیور، کنڈیکٹر اور عملے کے دو افراد کو گرفتار کرلیا، جن کے نام محمد رحمان، ناصر، اقبال حسین اور نیک محمد ہیں۔ ملزمان کی نشاندہی پر گاڑی کے ٹول بکس اور لگیج بکس میں مسافروںکے سامان کے ساتھ پلاسٹک کی تھلیوں میں موجود اعلیٰ کوالٹی کی 6120 گرام چرس اور 2500 گرام ہیروئن برآمد کرلی گئی۔ ملزمان نے دوران تفتیش بتایا کہ وہ ہر ٹرپ پر منشیات لاکر سپرہائی وے، معمار، کوچی کیمپ اور بنارس کے ڈمپنگ پوائنٹ پر چھوڑتے ہیں، جس کے انہیں فی ٹرپ 20 ہزار روپے ملتے ہیں۔ ملزمان نے مزید بتایا کہ یہ مال سوات کے اسمگلر حاجی حبیب کا ہے۔ پولیس نے مذکورہ ملزمان کیخلاف6/9C نارکوٹکس ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کر کے انہیں عدالت میں پیشی کے بعد جیل بھجوا دیا ہے۔ ذرائع کاکہنا ہے کہ یہ ملزمان کچھ عرصہ بعد ضمانت پر رہا ہوکر دوبارہ مکروہ دھندا شروع کردیں گے، کیونکہ ان کے سرپرستوں یعنی اسمگلروں کی گردنیں پولیس کی پہنچ سے دور ہیں۔ تفتیش کے دوران ان ملزمان نے اعتراف کیا ہے کہ انٹر سٹی کوچز کے ذریعے بلوچستان اور خیبرپختون سے منشیات کراچی اور پنجاب بھیجی جارہی ہے۔ ان کوچز میں مخصوص خانے بنائے گئے ہیں، جہاں منشیات چھپائی جاتی ہے۔ ذرائع کے بقول کوئٹہ، سوات، پشاور، بونیر، نوشہرہ، مینگورہ اور مٹہ سے کراچی آنے والی کوچز منشیات کی ترسیل کیلئے استعمال کی جارہی ہیں۔ اس دھندے میں غیر معروف اور چھوٹی ٹرانسپورٹ کمپنیاں ملوث ہیں۔ واضح رہے کہ کراچی پولیس نے چند روز قبل 22 منشیات فروشوں کیخلاف بڑی کارروائی کرنے کا اعلان کیا تھا اور ان کے سروں کی قیمتیں بھی مقرر کی گئی تھیں۔ جبکہ منشیات کے 30 بڑے اڈوں پر کریک ڈاؤن کرنے کا کہا گیا تھا۔ لیکن ابھی تک ایسا کچھ نہیں ہوا ہے۔ صرف منشیات استعمال کرنے والوں کو پکڑ کر خانہ پری کی جارہی ہے۔ ذرائع کے مطابق شہر میں منشیات سپلائی کا کام عورتوں اور اسٹریٹ چلڈرن کے ذریعے کرایا جارہا ہے۔ نشے کے عادی افراد میں آج کل تنزانیہ نامی نشہ بہت مقبول ہورہا ہے۔ یہ نشہ کرسٹل ہیروئن میں مسکن ادویات ملاکر تیار کیا جاتا ہے۔ یہ بھورے رنگ کے گڑ کی طرح ہوتا، جسے لوہے کی سلاخ پر چپکا کر آگ سے حرارت دی جاتی، اس میں سے نکلنے والے دھویں کو نشے کے عادی افراد لمبے سانس لیکر اپنے پھیپھڑوں میں بھرتے ہیں۔ تنزانیہ کا ایک گرام ڈھائی ہزار روپے میں فروخت ہوتا ہے۔
٭٭٭٭٭