امت رپورٹ
منی لانڈرنگ کیس میں آصف علی زرداری اور ان کے دیگر ساتھیوں کو بادی النظر میں ملنے والے عدالتی ریلیف پر پی ٹی آئی حکومت پریشان ہے، جو اس کیس میں جلد از جلد سابق صدر کو جیل کے اندر دیکھنے کی خواہش مند تھی۔ پی ٹی آئی انتظامیہ کو خدشہ ہے کہ یہ معاملہ نیب کے حوالے کئے جانے کے بعد ڈیل کے بادشاہ آصف زرداری کوئی نہ کوئی راستہ نکال لیں گے۔ ذرائع کے مطابق اسی خدشے کی بنیاد پر وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کی جانب سے توپوں کا رخ نیب کی طرف کر دیا گیا ہے۔ اس وقت وزیر موصوف اور نیب کے درمیان الفاظ کی جنگ شدت پکڑ رہی ہے۔
واضح رہے کہ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا تھا کہ نیب جعلی اکائونٹس کیس کے اہم کرداروں آصف زرداری، فریال تالپور اور مراد علی شاہ کو فوری گرفتار کرکے تفتیش کو آگے بڑھائے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے نیب کو جعلی اکائونٹس کیس کی تفتیش مکمل کرنے کے لئے دو ماہ دیئے ہیں۔ تاہم نیب کی کارروائی سست ہے۔ جواب میں نیب کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا کہ کسی وزیر کی خواہش پر سابق صدر آصف زرداری، وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور رکن صوبائی اسمبلی فریال تالپور کو گرفتار نہیں کیا جاسکتا ۔
پی ٹی آئی کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ پارٹی قیادت کو توقع تھی کہ جعلی اکائونٹس کیس میں جے آئی ٹی کے حوالے سے آصف زرداری اور دیگر افراد کے خلاف بھی اسی نوعیت کا عدالتی فیصلہ سامنے آئے گا، جس کا سامنا سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز کو کرنا پڑا تھا۔ لیکن پی ٹی آئی کی توقعات کے برعکس سپریم کورٹ نے جعلی اکائونٹس کا معاملہ جے آئی ٹی کے ہاتھ سے نکال کر نیب کو بھیج دیا اور ہدایت کی ہے کہ وہ جے آئی ٹی رپورٹ اور دستیاب مواد کی روشنی میں دو ماہ میں تحقیقات مکمل کرکے رپورٹ پیش کرے اور اگر کیس بنتا ہو تو ریفرنس دائر کیا جائے۔ ذرائع کے مطابق سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد جے آئی ٹی اور ایف آئی اے سائیڈ ہوچکی ہیں۔ جبکہ سارا معاملہ اب نیب کے پاس ہے جو، از سر نو اس سارے کیس کی تفتیش کرے گا۔ جبکہ اس ساری تفتیش پر نظر رکھنے کے لئے کوئی بنچ نہیں بنایا گیا۔ اس کے برعکس نواز شریف کی تفتیش کی نگرانی خود سپریم کورٹ کے جج نے کی تھی۔ پھر یہ کہ نیب صرف جے آئی ٹی کی تفتیش اور سفارش پر ریفرنس دائر نہیں کرے گا، بلکہ اپنی تفتیش پر انحصار کرے گا۔
تازہ صورتحال یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے 7 جنوری کو نیب کو جعلی اکائونٹس کیس کی دوبارہ تفتیش کے لئے دو ماہ کا وقت دیا تھا۔ اس ہدایت کو قریباً دو ہفتے گزر چکے ہیں اور نیب نے تاحال اپنی انکوائری کا آغاز نہیں کیا ہے۔ ذرائع کے بقول پی ٹی آئی قیادت کو اس پر تششویش ہے اور اس تشویش کے اظہار کے لئے ہی وزیر اطلاعات کی جانب سے نیب کارروائی میں سست روی کا بیان دلایا گیا ہے، تاکہ نیب پر دبائو بڑھایا جاسکے۔ تاہم نیب نے وزیر اطلاعات کے اس شکوے کا جارحانہ جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسے ابھی سپریم کورٹ کے فیصلے کی مصدقہ نقول موصول نہیں ہوئی ہیں۔ مصدقہ فیصلے کی روشنی میں قانون اپنا راستہ خود بنائے گا۔ ساتھ ہی وزیر اطلاعات کے بیانات پر اظہار ناگواری ظاہر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ان بیانات کا متن پیمرا سے طلب کرلیا گیا ہے، تاکہ جائزہ لیا جاسکے کہ کہیں یہ بیانات نیب پر بلاواسطہ یا بالواسطہ اثر انداز ہونے کی کوشش تو نہیں۔ اس سے قبل بھی وزیر اطلاعات نے عمران خان کے خلاف ہیلی کاپٹر ریفرنس میں نیب کی تفتیش کو وزیراعظم کی توہین قرار دیا تھا۔ ذرائع کے مطابق مستقبل قریب میں حکومت اور نیب کے درمیان سینگ پھنستے دکھائی دے رہے ہیں اور یہ کہ وزیر اطلاعات کے نیب کے خلاف بیانات پی ٹی آئی حکومت کی فرسٹریشن کے مظہر ہیں۔ جبکہ ان ’’حملوں‘‘ کو وزیراعظم عمران خان کی مکمل تائید حاصل ہے۔ ذرائع نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ خود وزیر اعظم عمران خان بھی نیب کی کارکردگی پر مطمئن نہیں اور نجی محفلوں میں اس کا بارہا ذکر کرچکے ہیں۔ ذرائع کے بقول پی ٹی آئی حکومت جلد سے جلد آصف زرداری کی گرفتاری چاہتی ہے، تاکہ اس کے بعد سندھ میں اپنے مجوزہ پلان پر عمل کرسکے۔ تاہم سپریم کورٹ کے فیصلے اور نیب کے رویے سے پیدا ہونے والے تازہ سیناریو نے آصف زرداری کی فوری گرفتاری مشکل بنادی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ سے قریب سمجھے جانے والے معروف عسکری تجزیہ نگار لیفٹیننٹ جنرل (ر) امجد شعیب نے بھی موجودہ صورتحال میں آصف زرداری کی گرفتاری کو خارج از امکان قرار دے دیا ہے۔
ادھر پیپلز پارٹی کے حلقوں میں اٹھنے بیٹھنے والے ایک سینئر سیاستدان نے بتایا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے جعلی اکائونٹس کیس کا معاملہ جے آئی ٹی سے لے کر نیب کے حوالے کرنے اور بلاول بھٹو زرداری اور مراد علی شاہ کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے فیصلے کے بعد پی پی قیادت خاصا ریلیف محسوس کر رہی ہے۔ سیاستدان کے بقول اب اس فیصلے کو نظیر بناکر آصف زرداری اور فریال تالپور بھی اپنا نام ای سی ایل سے نکلوانے کے لئے عدالت سے رجوع کرنے کی تیاری کر رہے ہیں، جن کے پاسپورٹ اس وقت بینکنگ کورٹ کے پاس ہیں۔ پی پی رہنمائوں سے اکثر و بیشتر ملاقاتیں کرنے والے مذکورہ سیاستدان کا کہنا تھا کہ آصف زرداری کی شروع سے کوشش تھی کہ معاملہ کسی طرح نیب کے پاس آجائے۔ اب ان کی یہ خواہش پوری ہو چکی ہے۔ سابق صدر پس پردہ ڈیل کے ماہر تصور کئے جاتے ہیں۔ جبکہ اس طرح کے سمجھوتوں کے حوالے سے نیب کے بارے میں بھی بڑا گہرا تاثر ہے۔ جبکہ تصادم کی صورت میں حکومت چیئرمین نیب کے خلاف کوئی کارروائی کرنے یا دبائو ڈالنے سے قاصر ہے۔ کیونکہ چیئرمین نیب کو ہٹانے کا اختیار حکومت کے پاس نہیں۔ سیاستداں کے بقول ایسی صورت میں اگر حکومت اور نیب کے درمیان تعلقات بگڑ جاتے ہیں تو اس کا سارا فائدہ آصف زرداری کو ہوگا۔ اگرچہ جے آئی ٹی نے جعلی اکائونٹس کیس میں 16 ریفرنس دائر کرنے کی سفارش کی ہے۔ تاہم اب اس کا انحصار نیب پر ہے کہ وہ نئے سرے سے تفتیش کرکے کتنے ریفرنس دائر کرتی ہے یا پھر اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ کوئی کیس بنتا ہی نہیں۔ ادھر پی پی کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ معاملہ ایف آئی اے کے ہاتھ میں ہونے سے پی پی قیادت پریشان تھی، کیونکہ نہ صرف ایف آئی اے وزارت داخلہ کے ماتحت ہے، بلکہ یہ قلم دان اس وقت خود وزیراعظم نے سنبھال رکھا ہے۔ پی پی کو شروع سے ایف آئی اے کے موجودہ ڈی جی بشیر میمن سے شکایت رہی ہے۔ اور وہ یہ الزام لگاتی رہی ہے کہ بشیر میمن کا جھکائو پی ٹی آئی کی طرف ہے اور یہ کہ ان کے بھائی نصیر میمن نے 25 جولائی کے الیکشن میں مٹیاری سے ڈیموکریٹک الائنس کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا تھا، جو تحریک انصاف کا اتحادی گروپ ہے۔ واضح رہے کہ جعلی اکائونٹس کیس کی تفتیش کرنے والی جے آئی ٹی کے سربراہ ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل احسان الحق تھے۔ ذرائع کے مطابق کئی پی پی رہنما نجی محفلوں میں یہ گفتگو کرتے رہے ہیں کہ براہ راست وزیراعظم کی ماتحتی میں آنے والے ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈی جی نے حکومتی پریشر میں جعلی اکائونٹس کیس میں حد سے زیادہ پھرتیاں دکھائیں۔
معروف عسکری تجزیہ نگار لیفٹیننٹ جنرل (ر) امجد شعیب کا اس سارے معاملے پر کہنا ہے کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ اٹھاکر نیب کو بھیج دی گئی ہے کہ وہ دوبارہ تفتیش کرکے دیکھے کہ ریفرنس بنتے ہیں یا نہیں۔ نیب میں انکوائری نچلے لیول سے شروع ہوتی ہے۔ جس پر اثر انداز ہونا آسان ہوتا ہے۔ پھر یہ کہ ادارے میں اپنے بھرتی کردہ لوگ بھی شامل ہوتے ہیں، جو انکوائری میں کوئی نہ کوئی خامی چھوڑ دیتے ہیں۔ لہٰذا فیصلہ کمزور آتا ہے اور جب اس فیصلے کے خلاف عدالتوں میں اپیل کی جاتی ہے تو ملزمان چھٹ جاتے ہیں۔ اس وقت سب کی یہی تکنیک چل رہی ہے کہ عدالتوں کے ذریعے کیس ختم کرائیں۔ کیونکہ وقتی طور پر کیس دبانا خطرناک ہوتا ہے، جو کل پھر کھل سکتا ہے۔ یہی سب کچھ اب آصف زرداری اور اُن کے دیگر ساتھیوں کے خلاف جعلی اکائونٹس کیس میں ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ نئے سرے سے انکوائری کھل گئی ہے تو پھر گرفتاری کس بات کی ہوگی؟۔
٭٭٭٭٭