محمد قاسم
طالبان سے رابطوں کی کوششوں میں ناکامی کے بعد دلی سرکار سراسیمہ ہے۔ افغان طالبان نے بھارتی حکومت کے رابطے مسترد کردیئے ہیں اور امریکہ کے ساتھ فائنل مذاکرات کیلئے چھ کے بجائے دو نکات پر بات چیت کیلئے رضامندی ظاہر کردی ہے۔ طالبان نے پہلے سے طے شدہ 6 نکاتی ایجنڈے کو معطل کر دیا ہے۔ جبکہ مزید نکات پر اصرار کی صورت میں مذاکرات ختم کرنے کا بھی اشارہ دے دیا ہے۔ دوسری جانب امریکہ نے امن مذاکرات میں پاکستان سے بھرپور کردار ادا کرنے کی درخواست کی ہے۔ جس کے جواب میں پاکستان کی عسکری قیادت نے امریکہ کو مکمل تعاون کا یقین دلایا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارت کی جانب سے کئے جانے والے ابتدائی رابطوں کو طالبان نے مسترد کر دیا ہے۔ ادھر افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات میں تعطل دور کرنے اور بات چیت کو نتیجہ خیز بنانے کیلئے امریکی فوجی حکام اور امریکی نمائندہ زلمے خلیل زاد پاکستان میں موجود ہیں۔ تاہم انہوں نے کابل میں افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کے بعد طالبان کے ساتھ لڑائی جاری رکھنے کی بھی دھمکی دی ہے۔ جبکہ طالبان نے مذاکرات کی معطلی کے دوران پہلے سے جاری چھ نکات میں سے چار نکات کو معطل کر کے امریکہ کے ساتھ صرف دو نکات پر بات کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ ’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق طالبان کی اعلیٰ قیادت نے امریکہ کو 16 اور 17 جنوری کو پیغام بھیجا ہے کہ طالبان اب صرف افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا اور افغان سر زمین ہمسایہ سمیت کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہ کرنے کے دو نکاتی ایجنڈے پر بات چیت کیلئے تیار ہیں اور دبئی اور قطر میں زیر غور چار نکات کو معطل کردیا ہے، جس میں قیدیوں کے تبادلے، افغان صدارتی انتخابات، صوبوں میں طالبان کو گورنر شپ دینے اور افغان آئین کی تبدیلی شامل کے نکات شامل تھے۔ طالبان ذرائع کا کہنا ہے کہ طالبان کی اعلیٰ قیادت نے دبئی اور قطر میں طے ہونے والے چھ نکاتی ایجنڈے کو کم کر کے صرف دو نکاتی بنا دیا ہے، جس کے مطابق امریکی فوج کے انخلا پر تفصیلی غور کیا جائے گا اور امریکہ کو انخلا کیلئے محفوظ راستہ دیا جائے گا۔ جبکہ طالبان امریکہ سمیت پوری دنیا کو یہ پیشکش کرنے والے ہیں کہ وہ افغانستان کی سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے اور نہ ہی کسی ایسے گروپ کی حمایت کریں گے، جو کسی ملک میں سرگرمیاں جاری رکھتا ہو۔ جبکہ داعش کے خلاف مشترکہ لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق طالبان کی جانب سے مذاکراتی ایجنڈے میں کمی حالیہ اجلاس میں کی گئی اور سولہ اور سترہ جنوری کو امریکی حکام کو آگاہ کیا ہے کہ وہ دو نکات کے علاوہ افغانستان کے دیگر اندرونی معاملات پر امریکہ کے ساتھ کوئی مذاکرات نہیں کریں گے۔ امریکہ اور دنیا کی صرف دو شرائط ہیں کہ افغانستان سے امریکی انخلا ہو جائے اور افغانستان کی سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہ ہو، جس پر طالبان امریکہ اور دنیا کے ساتھ معاہدے کیلئے تیار ہیں۔ ذرائع کے مطابق طالبان کا کہنا ہے کہ افغانستان کے اندرونی معاملات پر مذاکرات افغانوں کے ساتھ ہونگے اور ان میں امریکہ سمیت ہمسایہ ممالک کی ڈکٹیشن قبول نہیں کی جائے گی۔ دوسری جانب امریکہ کے سیاسی اور فوجی حکام نے پاکستانی فوج کی اعلیٰ قیادت سے افغانستان میں قیام امن میں کردار ادا کرنے اور مذاکرات میں تعطل کو دور کرنے کی درخواست کی ہے۔ ذرائع کے مطابق پاکستان آرمی کی قیادت نے افغانستان میں قیام امن کیلئے اپنی کوششوں کا اعادہ کیا ہے اور امریکی فوجی حکام سے امن منصوبے پر بات چیت کی ہے۔ جس کے بعد زلمے خلیل زاد نے پاکستان کے وزیر خارجہ کے ساتھ بھی مذاکرات کئے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پاک فوج کی اعلیٰ قیادت کے ساتھ امریکی فوجی حکام اور زلمے خلیل زاد کی ملاقات انتہائی خوشگوار رہی۔ امریکی حکا نے پاکستانی عسکری قیادت کی جانب سے افغانستان میں قیام امن کی کوششوں کا اعتراف کیا ہے۔ دوسری جانب بھارت نے طالبان کے ساتھ رابطے قائم کرنے کیلئے ایران اور متحدہ عرب امارات سے مدد لینے کا فیصلہ کیا۔ تاہم ایران کی جانب سے بھارت اور طالبان کے درمیان رابطے کی کوششوں کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ کیونکہ طالبان نے بھارت کے ساتھ رابطہ کرنے کی ایرانی اپیل مسترد کردی ہے۔ اس حوالے سے بھارت کے نائب سلامتی مشیر ستیش چندرا نے دنیا بھر میں بھارتی سفیروں سے کہا ہے کہ وہ طالبان رہنمائوں سے رابطوں کے لئے کوششیں شروع کریں۔ واضح رہے کہ ایران نے گزشتہ ہفتے بھارت اور افغان طالبان کے درمیان رابطوں کی کوشش کی، جسے طالبان نے مسترد کر دیا تھا۔ ذرائع کے مطابق افغان طالبان کے مذہبی امور کے سابق وزیر محب اللہ محب ایران میں قیام پذیر تھے اور حال ہی میں وہ پشاور پہنچے ہیں۔ ان کے ذریعے بھی ایران نے کوشش کی، لیکن طالبان نے یہ بات مسترد کردی۔ کیونکہ ماضی میں شمالی اتحاد کو بھارت نے نہ صرف پیسہ اور اسلحہ فراہم کیا بلکہ شمالی اتحاد کے اہم رہنمائوں کو شملہ، حیدرآباد اور ممبئی کے علاقوں میں رہائش گاہیں فراہم کی گئیں۔ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ اور حامد کرزئی کو شملہ میں گھر بناکر بھی دیئے گئے، جہاں سے وہ طالبان کے خلاف پوری دنیا میں پروپیگنڈا بھی کرتے رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق بھارت کی جانب سے رابطہ کاروں نے طالبان کو بتایا کہ ماضی میں ان کے پاس اور کوئی آپشن نہیں تھا، صرف شمالی اتحاد ہی آپشن تھا۔ لیکن اب طالبان ایک حقیقت ہیں اور دنیا کی طرح بھارت بھی طالبان کے ساتھ تعلق قائم کرنا چاہتا ہے۔ ذرائع کے بقول طالبان کی ہلمند شوریٰ کے اعلیٰ عہدیداروں نے رابطہ کار ایرانیوں کو بتایا ہے کہ جب طالبان حکومت میں آئیں گے تو بھارت کو سفارتی سہولیات فراہم کی جائیں گی اور اس کے بعد اس بات پر غور کیا جائے گا کہ بھارت کے ساتھ کس قسم کے تعلقات رکھے جائیں۔ تاہم موجودہ صورتحال میں طالبان اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ وہ بھارت کے ساتھ روابط جاری رکھیں۔ کیونکہ اس وقت طالبان صرف امریکی انخلا کے حوالے سے ابتدائی بات چیت کر رہے ہیں اور اس سے بھارت کو کوئی نقصان نہیں ہے، کیونکہ بھارت کے فوجی افغانستان میں نہیں ہیں۔ دوسری جانب جرمن حکام نے طالبان کو آگاہ کیا ہے کہ امریکی فوج کے انخلا کے ساتھ جرمنی بھی اپنی تمام افواج کو نکالے گا اور نیٹو کے دیگر ممالک بھی اپنی افواج نکالنے کا اعلان کریں گے۔ تاہم ترکی افغانستان میں اپنی فوج مزید دو سال رکھے گا۔ ترک حکومت نے 6 جنوری 2021ء تک فوج کے قیام کی منظوری دی ہے، جس پر طالبان نے کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے، کیونکہ ترک افواج صرف تربیت کے مشن سے منسلک ہیں۔ باوثوق ذرائع کے مطابق ایک طرف امریکہ پاکستان کے پائوں پڑ رہا ہے تو دوسری طرف بھارت کو افغانستان کے مسئلے میں گھسیٹ کر اس کو پیچیدہ بنانے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے۔ کابل میں زلمے خلیل زاد کے اس اعلان کے بعد کہ وہ طالبان کے ساتھ لڑائی کے لئے بھی تیار ہیں۔ افغان طالبان نے ایک اعلامیہ جاری کیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ افغان طالبان امریکہ کے ساتھ گزشتہ اٹھارہ سال سے لڑ رہے اور مزید اٹھارہ سال بھی لڑ نے کیلئے تیار ہیں۔ طالبان نہ تو امن کی بھیک مانگ رہے ہیں اور نہ ہی انہیں اس کی ضرورت ہے۔ افغان طالبان کا مقصد اپنے وطن کی آزادی ہے اور گزشتہ اٹھارہ سالوں میں طالبان نے یہ ثابت کیا ہے کہ دنیا بھر میں جہاں پر بھی دہشت گردی کے واقعات ہوئے ہیں، وہاں افغان طالبان کے ملوث ہونے کا کوئی ذکر نہیں ہے اور نہ ہی طالبان کسی واقعہ میں ملوث ہیں۔ طالبان صرف افغانستان کے اندر سرگرم ہیں اور سرگرم رہیں گے۔ ذرائع کے مطابق امریکہ اور بعض ممالک کے ناجائز دبائو پر طالبان مذاکرات ختم کرنے پر بھی غور کر رہے ہیں۔ اگر امریکہ نے طالبان پر افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کی شرط پر زور دیا تو طالبان مذاکرات ختم کرنے کا باضابطہ اعلان کر دیں گے اور اس پر طالبان کے تمام رہنما متفق ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ طالبان اس وقت صرف اور صرف دو نکاتی ایجنڈے پر بات چیت کیلئے تیار ہیں اور اس حوالے سے سولہ اور سترہ جنوری کو طالبان نے حامی بھری تھی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ افغان طالبان قطر کے علاوہ اسلام آباد میں بھی مذاکرات کیلئے تیار ہیں، کیونکہ اسلام آباد میں مذاکرات پر قطر، سعودی عرب، ایران، روس، چین اور دیگر ممالک کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔ ذرائع کے مطابق بھارت کھل کر اعتراف تو نہیں کر رہا ہے تاہم بھارت اور امریکا کی خواہش ہے کہ مذاکرات اسلام آباد میں نہ ہوں۔
٭٭٭٭٭