کراچی/ اسلام آباد(خبرایجنسیاں ۔مانیٹرنگ ڈیسک) پیپلز پارٹی نےفوجی عدالتوں کی مخالفت کردی جبکہ ن لیگ نے اس معاملے پر پارلیمنٹ میں بحث کرنےکی حمایت کی ہے ،دوسری طرف ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کا کہنا ہے کہ ملٹری کورٹس فوج کی خواہش نہیں بلکہ ملک کی ضرورت ہیں۔تفصیلات کے مطابقبلاول ہاؤس کراچی میں چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو اور سابق صدر آصف زرداری کی زیر صدارت اہم اجلاس ہوا جس میں یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف، رضا ربانی، خورشید شاہ، فریال تالپور، شیری رحمان، اعتزاز احسن، فاروق نائیک، نوید قمر، مراد علی شاہ، نثارکھوڑو، سعید غنی، مرتضیٰ وہاب اور دیگر رہنماؤں نے شرکت کی۔اجلاس میں ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال اور جے آئی ٹی مقدمات کے متعلق تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا، جب کہ پیپلزپارٹی کے اہم رہنماؤں نے وفاقی حکومت پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ انتقامی کاروائیوں اور وفاقی حکومت کےغیرجمہوری طرز عمل پر خاموش نہیں رہ سکتے۔رہنماؤں کا کہنا تھا کہ ملک کو دانستہ انتشار اورانتقام کی آگ میں جھونکا جارہاہے، پاکستانی عوام اقتصادی بدحالی اور حکومتی پالیسیوں سے سخت پریشان ہیں، اور وفاقی وزراءبھی بدزبانی کررہے ہیں، اب ہم خاموش نہیں رہ سکتے، قیادت اینٹ کاجواب پتھرسے دینے کی اجازت دے۔اجلاس میں وفاق کی طرف سے اداروں کو واپس لینے کی مذمت کرتے ہوئے پیپلزپارٹی نے حکومت کوٹف ٹائم دینے کا فیصلہ کیا اور کہا کہ ملک میں ہونے والی دہشت گردی میں کمی آئی ہے، اب فوجی عدالتوں کی کوئی ضرورت نہیں، فوجی عدالتوں کی حمایت ہوگی نہ اٹھارویں ترمیم پرکوئی سمجھوتہ ، اگرملک و جمہوریت بچانی ہے تو ہمیں بڑے اور سخت فیصلے کرنے ہوں گے، قانونی جنگ عدالتوں میں اور سیاسی جنگ سڑکوں و پارلیمان میں لڑی جائے گی، حکومتی پالیسیوں اور انتقامی کارروائیوں کے خلاف پیپلزپارٹی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کرے گی۔اجلاس کے بعد یوسف رضا گیلانی نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ 18 ویں ترمیم پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے، ہم نے تمام پارٹیوں سے مشورے لیے تھے، چھوٹے صوبوں میں احساس محرومی تھا ہم نے اسے ختم کیا۔ تمام اراکین نے مل کر 73 کے آئین کو بحال کیا، ہمارا مصمم ارادہ ہے کہ 18 ویں ترمیم کا دفاع کریں گے، 18 ویں ترمیم کے خلاف وفاقی حکومت کچھ ادارے واپس لے رہی ہے، وفاقی حکومت کے اداروں کو واپس لینے کی مذمت کرتے ہیں۔سابق وزیراعظم نے یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے ہمیشہ عدالتوں کا سامنا کیا اور باعزت بری ہوئے، نئےچیف جسٹس سےامید ہے کہ بھٹو صاحب کا کیس حل کریں گے۔ دریں اثنا مسلم لیگ ن کے رہنما رانا ثناء نے کہا ہے کہ فوجی عدالتوں کا معاملہ پارلیمنٹ میں آئے گا تو بحث ہوگی، فوجی عدالتوں کا معاملے پر ن لیگ اپنا موقف رکھتی ہے۔نئے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی اداروں کے درمیان مکالمہ کی تجویز کا خیر مقدم کرتے ہیں، اس سے بہتر کوئی اور تجویز نہیں ہو سکتی۔تمام ادارے اپنے اپنے دائرہ کار تک محدود رہیں۔وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔انہوں نے بتایا کہ پاکستان مسلم لیگ(ن) میں فوجی عدالتوں میں توسیع کے بارے میں آراء تقسیم ہے۔ایک مضبوط رائے یہ ہے کہ غیر معمولی حالات کا جواز پیش کرتے ہوئےفوجی عدالتوں میں توسیع مانگی گئی تھی اب تو کہا جا رہا ہے کہ 90 فیصد تک دہشت گردی پر قابو پا لیا گیا ، کوئی غیر معمولی حالات نہیں لہٰذا اس معاملے کو فوجی عدالتوں سے مروجہ عدالتوں میں منتقل ہونا چاہیے، اپوزیشن کے مشترکہ اجلاس میں بھی اس پر غور کیا جائے گا۔رانا ثناء الله نے کہا کہ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان مسلم لیگ(ن) فنانس ترمیمی بل 2019ء کی مخالفت کریگی۔آئے روز عوام پر مہنگائی کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے حکومت نے پانچ ماہ میں گالی گلوچ طعنہ زنی میں گزار دیئے خود اپنے بوجھ کے نیچے دبے جا رہے ہیں۔ادھرڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے کہاہے کہ ملٹری کورٹس فوج کی خواہش نہیں بلکہ ملک کی ضرورت ہیں۔ نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے میجر جنرل آصف غفور کا کہنا تھا کہ ملک میں دہشت گردی کی ایک لہر تھی لیکن 2008 کے بعد دہشتگردوں کے خلاف آپریشن میں تیزی آئی، آپریشن کے واقعات میں دہشتگرد گرفتار بھی ہوتے تھے۔پاکستان کے عدالتی نظام کے حوالے سے بات کرتے ہوئے میجر جنرل آصف غفور کا کہنا تھا کہ پاکستان کا کرمنل جسٹس سسٹم دہشت گردوں سے متعلق مقدمات کو حل کرنے میں مؤثر نہیں تھا۔انہوں نے کہا کہ ملٹری کورٹس سے متعلق پارلیمنٹ کا متفقہ فیصلہ تھا، پارلیمنٹ نے اتفاق رائے سے فوجی عدالتوں کے حق میں فیصلہ دیا اور پارلیمنٹ نے 2 سال کے لیے فوجی عدالتوںٕ کی مدت میں توسیع کی۔ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ کیا آج وہ جوڈیشل سسٹم ہے کہ زیر التوا کیسز لیے جا سکیں، ملٹری کورٹس نے دہشتگردوٕں پر ایک خوف طاری کیا ہے، پارلیمنٹ نے فوجی عدالتوں میں توسیع کا فیصلہ کیا تو وہ جاری رہیں گی۔انہوں نے بتایا کہ گزشتہ 4 سال کے دوران 717 کیسز ملٹری کورٹس میں آئے جن میں سے 646 کیسز کو منطقی انجام تک پہنچایا گیا۔