قسط نمبر: 235
عباس ثاقب
یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جس نے نوجوانی کے امنگوں بھرے دور میں اپنی جان خطرے میں ڈال دی۔ صرف اس لئے کہ وطن عزیز پاکستان کو دشمنوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔ جمال صاحب کراچی کے قدیم رہائشی ہیں اور ان دنوں گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ عمر کے آخری حصے میں بصد اصرار اس بات پر آمادہ ہوئے کہ اپنی زندگی کے تہلکہ خیز گوشوں سے پردہ اٹھائیں۔ ان کا اصل نام کچھ اور ہے۔ بعض نا گزیر اسباب کی بنا پر انہیں ’’جمال‘‘ کا فرضی نام دیا گیا ہے۔ اس کہانی کو ڈرامائی شکل دینے کیلئے کچھ زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی۔ کیونکہ یہ حقیقی ایڈوینچر کسی سنسنی خیز ناول سے زیادہ دلچسپ ہے۔ جمال صاحب کی کہانی ان لوگوں کیلئے دعوتِ فکر ہے، جنہیں یہ ملک بغیر کسی جد و جہد اور محنت کے ملا اور انہوں نے اس کی قدر کرنے کے بجائے اسی سے شکایات شروع کر دیں۔ امید ہے کہ قسط وار پیش کی جانے والی یہ کہانی ’’امت‘‘ کے خوش نظر قارئین کی پذیرائی حاصل کرے گی۔ (ادارہ)
بس میں کھڑکی کے ساتھ والی ایک سیٹ پر مجھے بٹھا کر وہ میرے ساتھ ہی بیٹھ گیا۔ ہم دونوں اگلے پونے گھنٹے تک گپ شپ کرتے رہے۔ روانگی کا وقت گزر جانے کے کافی دیر بعد بھی بس پوری طرح نہیں بھری تھی۔ لیکن جب مسافروں کی صدائے احتجاج شدت پکڑنے لگی تو بالآخر ریچھ نما کنڈکٹر نے بیزار لہجے میں ڈرائیور کو گاڑی چلانے کو کہا۔ یہ سن کر یاسر نے مجھ سے گرم جوشی سے مصافحہ کیا اور گاڑی سے اترنے کے لیے کھڑا ہوگیا۔ ایک اور سواری کے رخصت ہونے پر کنڈکٹر نے برا سا منہ بنایا۔ لیکن یہی غنیمت تھا کہ اس نے گاڑی کی روانگی کا ارادہ برقرار رکھا۔
یاسر بس کی روانگی تک اڈے پر موجود رہا۔ بس چلتے ہی خالص دیہاتی لباس میں ملبوس ایک دبلا پتلا نوجوان میرے ساتھ والی خالی سیٹ پر آکر بیٹھ گیا۔ وہ جس اشتیاق سے چلتی ہوئی بس سے باہر جھانک رہا تھا، مجھے لگا کہ وہ بھی شاید پہلی بار اس روٹ پر سفرکر رہا ہے۔ اس نے کچھ دیر بعد مجھ سے ٹھیٹھ پنجابی زبان میں ادھر ادھر کی باتیں شروع کر دیں۔ میں ہوں ہاں میں اس کی باتوں کا جواب دیتا رہا اور پھر اونگھنے کا ناٹک کرتے ہوئے اس سے لاتعلق ہوگیا۔
درمیانی رفتار سے چلتی اور جگہ جگہ رک کر سواریوں کو چڑھاتی، اتارتی بس لگ بھگ دو گھنٹے بعد نابھے کے بس اڈے پر جاکر ٹھہر گئی۔ اس گنجان آباد قصبے کے بس اڈے پر خاصی چہل پہل تھی۔ آٹھ دس مسافر وہاں اترے اور لگ بھگ اتنے ہی سوار ہوئے۔ وہاں سے بس چلوانے کے لیے مسافروں کو ایک بار پھر شور شرابا کرنا پڑا، جس میں میری ساتھ والی سیٹ پر براجمان نوجوان پیش پیش تھا۔ تاہم میں نے کسی دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ خدا خدا کرکے بس چلی اور بھوانی گڑھ میں چند منٹ رکنے کے باوجود اس نے مزید ایک گھنٹے بعد سونام کے بس اڈے پر اتار دیا۔
اب مجھے ایک نئی آزمائش درپیش تھی۔ چھاجلی بستی وہاں سے مزید چھ ساڑھے چھ میل کے فاصلے پر تھی، جبکہ مجھے وہاں سے بھی ایک میل آگے امردیپ کے خاندان کی حویلی پر پہنچنا تھا۔ سونام کے بس اڈے پر تین تانگے والے سواریوں کے منتظر تھے اور بس سے اترنے کے فوراً بعد میں واحد مسافر کی حیثیت سے ان کی توجہ کا مرکز بن چکا تھا اور وہ میری منشا دریافت کرنے کے لیے میری طرف بڑھ رہے تھے۔ لیکن میری مشکل یہ تھی کہ میں احتیاط کے تقاضوں کے پیش نظر ان کوچوانوں کے سامنے سردار امردیپ یا اس کے باپ کا نام نہیں لینا چاہتا تھا، کیونکہ اس طرح میں نہ صرف ان کی نظروں میںآجاتا، بلکہ یادداشت میں بھی محفوظ ہو جاتا۔
مجھے فوری طور پر کوئی ایسا طریقہ ڈھونڈنا تھا کہ اپنے میزبانوں کا نام لیے بغیر ان کی حویلی تک پہنچ جاتا۔ خوش قسمتی سے ان کوچوانوں کی طرف سے یک زبان ہوکر مجھے میری منزل پر پہنچانے کی پیشکش کرتے ہی مجھے امردیپ کے بزرگوں کے بنوائے ہوئے گردوارے کا نام یاد آگیا، جو ان کی حویلی سے کچھ ہی فاصلے پر واقع تھا۔ میں نے ان میں سے نسبتاً معمر کوچوان کو توجہ کا مرکز بناتے ہوئے پنجابی میں کہا۔ ’’بزرگو، مجھے گردوارا گروسر صاحب کی زیارت کو جانا ہے۔ آپ پہنچا دیں گے؟ اور کرایہ کتنا ہوگا؟‘‘۔
اس نے بخوشی ہامی بھرلی اور بطورکرایہ تین روپے کا مطالبہ کیا، جو میں نے فوراً قبول کرلیا۔ باقی دو میں سے ایک کوچوان نے مجھے ڈھائی روپے میں منزل تک پہنچانے کی پیشکش کی، لیکن ساتھی کوچوان کی سرزنش پر وہ پسپا ہوگیا۔
نحیف اور بوڑھے کوچوان کے برعکس اس کا گھوڑا بہت صحت مند اور چاق و چوبند تھا۔ تانگے کی حالت بھی کافی اچھی تھی۔ کوچوان کا اشارہ ملتے ہی وہ درمیانی رفتار سے دوڑنے لگا۔ پختہ سڑک پر کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد تانگا ایک نیم پختہ سڑک پر مڑگیا، لیکن گھوڑے کی رفتار بدستور مناسب رہی۔ اس کے باوجود کچھ زیادہ جھٹکے نہیں لگ رہے تھے۔
مجھے سب سے زیادہ خدشہ اب یہ تھا کہ کوچوان وقت گزاری کے لیے میرا شجرہ نسب اور خصوصاً ایک دور دراز دیہاتی علاقے کے غیر معروف گردوارے کی زیارت کے لیے آنے کا مقصد پوچھے گا۔ میں کوئی متاثر کن کہانی تراشنے کے لیے دماغ دوڑانے لگا۔ لیکن حیرت انگیز طور پر بوڑھے کوچوان نے اپنے طور پر سوال جواب کا سلسلہ شروع نہیں کیا۔ شاید وہ جہاں دیدہ شخص دوسروں سے معلومات کریدنے کو معیوب سمجھتا تھا۔
اس کی طرف سے مطمئن ہونے کے بعد بالآخر میں نے خود اس سے موسم اور فصلوں کے حوالے سے ہلکی پھلکی باتیں چھیڑ دیں۔ اس نے خوش دلی سے تبادلہ خیال ضرور کیا۔ لیکن اپنی طرف سے باتیں نکالنے سے گریز کیا۔ چھاجلی گاؤں کے پاس سے گزرتے ہوئے بالآخر ہم اس نیم پختہ سڑک پر آگئے، جو نہر کے ساتھ ساتھ چلتی ہوئی گردوارے کے پاس سے گزرتی تھی۔ یہی سڑک دائیں مڑ کر ایک پل پار کر کے امردیپ کے خاندان کی زمینوں کی طرف جاتی تھی۔ میں نے وہ پل آنے سے پہلے ہی تانگا رکوا لیا۔ تین روپے کوچوان کے حوالے کرتے ہوئے میں نے کہا۔ ’’یہاں سے مجھے پتا جی کی منت پوری کرنے کے لیے پیدل، ننگے پاؤں واہگرو کے گھر تک جانا ہے‘‘۔
بوڑھے کوچوان نے میری سعادت کی تعریف کرتے ہوئے دعا دی اور کسی نہ کسی طرح تنگ سڑک پر تانگا موڑکر واپس روانہ ہوگیا۔ میں نے اس کے کافی دور جانے کا انتظارکیا اور پھر تیز قدموں سے آگے بڑھا۔ پل پار کر کے امردیپ کی حویلی تک پہنچنے میں مجھے بہت زیادہ دیر نہیں لگی۔ حویلی کے سامنے والے احاطے میں پہنچتے ہی مجھے نیرج مل گیا۔ اس نے گرم جوشی سے سلام کیا اور کوئی سوال کیے بغیر ساتھ لیے مہمان خانے میں لے آیا۔ میرا کمرا اسی حالت میں تھا، جیسے میں اسے چھوڑ کر گیا تھا۔
کمرے میں پہنچنے پر نیرج نے مجھے میرے بستر پر بیٹھنے کی دعوت دی۔ میں نے کہا۔ ’’یار یہ بتاؤ، سردار امردیپ حویلی میں ہی موجود ہیں ناں؟‘‘۔
میری بات سن کر نیرج نے نفی میں سر ہلاکر کہا۔ ’’نہیں جی، وہ تو مالٹے کے باغوں کی طرف گئے ہیں۔ بیوپاری کا ٹرک لگا ہوا ہے، لوڈنگ ہو رہی ہے‘‘۔
بشن دیپ سنگھ جی اور بڑے سردار جی بھی وہیں ہیں۔ شام تک واپسی ہوگی۔ آپ تھوڑا آرام کرلیں۔ میں کھانا لے آتا ہوں‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’یار نیرج ، مجھے بالکل بھوک نہیں ہے۔ آرام کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے…‘‘۔
اس نے جلدی سے میری بات کاٹتے ہوئے کہا۔ ’’ تو حکم کریں… میں آپ کو وہاں چھوڑ آتا ہوں‘‘۔
میں نے نرمی سے کہا۔ ’’نہیں، تم زحمت نہ کرو۔ مجھے باغ کا راستہ یاد ہے، خود چلا جاؤں گا‘‘۔
اس نے خوش گوار لہجے میں کہا۔ ’’ٹھیک ہے جی۔ جاکر کالے نمک کے ساتھ مالٹے کھاؤ، زور کی ڈکاریں آئیں گی اور بھوک لگ جائے گی۔ پھر میں آپ کو مزے دار کھانا کھلاؤں گا‘‘۔
امردیپ کے اس پیدائشی مہمان نواز اور خوش اخلاق خادم سے بمشکل پیچھا چھڑا کر میں حویلی کے احاطے سے نکلا اور تیز قدموں سے مالٹوں کے باغات کی طرف چل پڑا۔ اس کے ذکر کرنے سے مجھے واقعی امردیپ کے باغ کے مالٹوں کا لذیذ ذائقہ یاد آگیا تھا اور انہیں کھانے کی خواہش جاگ اٹھی تھی۔ باغ میں داخل ہوتے ہی مجھے امردیپ کا ایک اور کارندہ مل گیا۔ اس نے باغات کے اس حصے کی طرف رہنمائی کی، جہاں اس کے مالکان موجود تھے۔ (جاری ہے)
Prev Post