قانونی ماہرین – پولیس گردی میں ملوث اہلکار نشان عبرت بنانے کا مطالبہ
کراچی(اسٹاف رپورٹر/نمائندہ امت)قانونی ماہرین نے ساہیوال پولیس گردی میں ملوث اہلکاروں کو نشان عبرت بنانے کا مطالبہ کردیا اور کہا ہے کہ مقدمہ انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں چلایا جائے اور اسے ملک بھر کے لئے ایک مثال بنایا جائے، تاکہ آئندہ کوئی اہلکار کسی بے گناہ کی جان لینے کا سوچے بھی نہیں۔’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے سندھ بار کونسل کے وائس چیئرمین صلاح الدین گنڈا پور نےکہا کہ ساہیوال واقعے کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے ۔ پولیس نے درندگی کی انتہا کردی، ملوث اہلکاروں کو گرفتار کرکے انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے اور جلد از جلد منطقی انجام تک پہنچایا جائے، متعلقہ حکام نے خاموشی اختیار کی تو یہ ظلم ہو گا مزید راؤ انوار جیسے لوگ پیدا ہوں گے جو بے گناہ لوگوں کو ماریں گے۔ انہوں نے کہا کہ پولیس نے 4 بے گناہ لوگوں کوقتل کیا ہے تو دفعات بھی قتل کی لگیں گی، جس کی سزا موت ہے ، پولیس اہلکار خود دہشت گردوں والا کام کرتے ہیں ، واقعہ پر پردہ ڈالنے کے لیے جھوٹ بولتے ہیں اور معصوم لوگوں کو دہشت گرد بناکر پیش کردیتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ قانون میں تو اس بات کی بھی گنجائش نہیں کہ پولیس مطلوب ملزمان کو مار دے، قانون کہتا ہے کہ اگر کوئی مطلوب ہے تو پکڑ کر عدالت میں پیش کریں، سندھ ہائی کورٹ بار کے سابق صدر خالد جاوید نے کہا کہ کوئی کتنا ہی بڑا ملزم کیوں نہ ہو پولیس کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اسے جان سے مار دے بلکہ اس کا کام ہے کہ ملزم پکڑ کر عدالت میں پیش کرے۔ متعلقہ حکام کی ذمہ داری ہے کہ اس کیس کو جلد از جلد حل کرییں ، بچوں کی صورت میں شواہدموجود ہیں ۔سینئر وکیل مشتاق جہانگیری نے کہاکہ پولیس اہلکار کسی رعائت کے مستحق نہیں جنہوں نے پیسوں کے چکر میں معصوم لوگوں کی جانیں لیں، پراسیکیویشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ 15 دنوں میں مقدمہ کا ٹرائل مکمل کرائے پولیس اہلکار ملزمان کو سخت سے سخت سزا دلائی جائے اس کیس کو تمام پاکستان کے پولیس اہلکاروں کے لیے مثال بنا دیا جائے کہ وہ کسی بے گناہ کی جان لینے کا سوچے بھی نہیں۔راولپنڈی سے نمائندہ امت کے مطابق ایڈووکیٹ ملک وقاص نے کہا کہ واقعہ میں ملوث تمام سی ٹی ڈی اہلکاروں کو معطل کر کے دہشت گردی کا مقدمہ درج کیا جائے اورسخت سے سخت کاروائی کی جائے ۔ 4 افراد کو دن دیہاڑے سی ٹی ڈی اہلکار مار کر چلتے بنے کوئی پوچھنے والا ہی نہیں۔وزیر مملکت داخلہ اور آئی جی پنجاب سمیت کسی بھی حکومتی شخصیت نے کوئی نوٹس نہیں لیا۔ ماہر قانون میاں احمد خان نے کہا کہ سی ٹی ڈی اہلکاروں پر 780A،302, نہتے اور مظلوم شہریوں کو ان کے بچوں کے سامنے قتل کرنے کی دفعات لگنی چاہیئں، اگر کوئی چیز گاڑی میں سے اٹھائی ہے تو ڈکیتی کی دفعات بھی شامل کر کے ایف آئی آر درج کی جائے ۔ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ ایک سنگین جرم ہے اور ایک ایسا کمیشن بننا چاہیے جو چند روز میں اپنی انکوائری مکمل کر کے رپورٹ پیش کرے ۔