شہید مسجد کے قریب نماز کی ادائیگی پر پابندی لگا دی گئی

0

امت رپورٹ
پولیس اہلکار اور سٹی وارڈن میئر کراچی وسیم اختر کی ہدایت پر ہل پارک میں شہید کی گئی مسجد راہ نما کے قریب علاقہ مکینوں کو نمازیں ادا کرنے کی اجازت نہیں دے رہے۔ نمازیوں نے مسجد کے انہدام کو انتہائی شرمناک قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ میئر کراچی نے مسجد کے تقدس کو پامال کر کے اللہ کے عذاب کو دعوت دی ہے۔ مسجد راہ نما 50 سال سے قائم تھی، سابق میئر کراچی نعمت اللہ خان نے مسجد کی چھت ڈلوائی تھی۔ مسجد کے پیش امام قاری عبداللہ نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ انہوں نے انہدامی کارروائی کیلئے آنے والے کے ایم سی عملے کے پاؤں پکڑے، ان کے آگے ہاتھ جوڑے کہ یہ مسجد غیر قانونی جگہ پر نہیں بنی ہے۔ لیکن سرکاری اہلکاروں نے انہیں دھکے دیتے ہوئے کہا کہ یہاں سے چلے جائو، ورنہ گرفتار کرادیں گے۔ آپریشن میں شریک کے ایم سی کے افسران جمعہ کو ہل پارک میں شہید کی گئی مسجد راہ نما کے حوالے سے کوئی بات کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ جبکہ پولیس نے مسجد کو گھیرے میں لے رکھا ہے۔ ہفتے کو نماز فجر اور ظہر کی ادائیگی کیلئے آنے والے قریبی مکینوں کو نماز نہیں پڑھنے دی گئی۔ پولیس کی جانب سے مسجد کے پیش امام قاری عبداللہ، انتظامی کمیٹی کے ذمہ دار محمد ندیم اور دیگر کو دھمکیاں دی جارہی ہیں کہ وہ مسجد کے ملبے کے قریب نہ آئیں، ورنہ سریا چوری کا الزام تھوپ کر جیل بھجوا دیں گے۔ واضح رہے شہید کی گئی مسجد راہ نما میں قریبی گھروں کے مکین، ہل پارک میں واقع دکانوں، ہوٹلوں کے ملازمین اور تفریح کی غرض سے آنے والے افراد نماز ادا کرتے تھے۔ لوگ اب بھی نماز کی ادائیگی کیلئے آرہے ہیں، لیکن پولیس اہلکار ان سے بدتمیزی سے پیش آتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ یہ مسجد ختم کردی گئی ہے، کسی دوسری مسجد میں جاؤ۔ مسجد انتظامیہ کے لوگوں کو منہدم کی گئی مسجد سے قرآن شریف، سپارے، جاء نمازیں، اسلامی کتب، ٹوپیاں اور دیگر اشیا نکالنے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے۔ تاہم پھر بھی لوگوں نے پولیس کی نظر بچا کر ملبے سے قرآن کے کچھ نسخے اور دینی کتابیں نکال کر محفوظ کردیئے۔ کے ایم سی عملے اور پولیس کی جانب سے مسجد انتظامیہ کے لوگوں سے کہا گیا ہے کہ جب ملبہ اٹھائیں گے تو تمام چیزیں نکال لینا۔ ’’امت‘‘ ٹیم جب ہل پارک پہنچی تو شہید کی گئی مسجد راہ نما کے قریب فیروز آباد تھانے کی موبائل نمبر SPE 249 اور پولیس کی بغیر نمبر کی دو موٹر سائکلیں کھڑی تھیں۔ ہیڈ کانسٹیبل راجہ خضر لوگوں کو مسجد کے قریب جانے سے روک رہا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ مسجد کا ملبہ بکھرا پڑا ہے، چور اچکے سریا اور دیگر اشیا چوری کررہے ہیں، اس لیے مسجد کی خصوصی نگرانی کی جارہی ہے۔ ہیڈ کانسٹیبل وہاں آنے والے مسجد انتظامیہ کے لوگوں کو بھی دھمکا رہا تھا کہ اوپر سے احکامات ہیں کہ مسجد کے حوالے سے کوئی نرمی نہ رکھی جائے۔ جو مسجد شہید کرنے پر اعتراض کرے۔ اس کو پکڑ کر تھانے منتقل کردو اور ملبے سے لوہا چوری کرنے کے الزام میں مقدمہ بنادو۔ مسجد انتظامیہ کے ندیم نامی شخص کو انتہائی بدتمیزی سے وہاں سے ہٹا دیا گیا۔ جبکہ نماز ظہر کیلئے مسجد کی جگہ کو صاف کر کے نماز ادا کرنے کی ہدایات دینے والے انتظامیہ کے ذمہ دار اقبال کو راجہ خضر نامی اہلکار کوٹ سے پکڑ کر کھینچتا ہوا موبائل نمبر SPE 246 میں ڈال کر تھانے لے گیا اور وہاں موجود پولیس کمانڈوز کو کہا کہ جو ادھر آئے اس کو اسی طرح پکڑ کر تھانے بھیجو۔ پولیس کی ناکہ بندی کے باوجود شہید مسجد کے پیش امام قاری عبداللہ نے ملبے سے کچھ دور تین نمازیوں کے ہمراہ نماز ظہر ادا کی۔ قاری عبداللہ کا کہنا تھا کہ وہ قریب واقع عمر کالونی کے رہائشی ہیں اور گزشتہ 28 برس سے یہاں نماز پڑھا رہے تھے۔ یہ مسجد پچاس سال سے قائم ہیں۔ ابتدا میں یہاں درخت کے نیچے کچی زمین پر صفیں بچھا کر نماز ادا کی جاتی تھی۔ بعد ازاں ریٹائرڈ بریگیڈیئر جیلانی نے مسجد کی عمارت بنوائی تھی۔ پھر مخیر حضرات کے تعاون سے مزید کام کرایا جاتا رہا۔ سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خان اور یوسی ناظم زاہد سعید یہاں نماز ادا کرتے تھے اور انہوں نے مسجد کی چھت ڈالنے کی اجازت دی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ علاقہ مکین سلطان، ندیم، اقبال اور مسجد انتظامیہ کے لوگوں کی کوششوں سے مسجد کو توسیع دی جاتی رہی۔ پیش امام قاری عبداللہ کے بقول ایک بار ڈائریکٹر پارکس لیاقت حسین بھی آئے تھے اور مسجد کے کاغذات دیکھ کر چلے گئے تھے۔ یہاں نماز عید بھی ہوتی تھی۔ پنج وقتہ نمازوں میں چالیس پچاس لوگ ہوتے تھے جبکہ اتوار یا دیگر چھٹیوں میں نمازیوں کی تعداد بڑھ جاتی تھی۔ قاری عبداللہ نے بتایا کہ جمعہ کے روز وہ نماز عصر پڑھانے کیلئے آئے تو کے ایم سی کے افسران بھاری مشینری لے کر آگئے اور انہیں کہا کہ مسجد سے باہر آؤ، یہ مسجد گرانی ہے۔ جبکہ اس سے قبل کوئی نوٹس نہیں دیا گیا تھا۔ امام مسجد نے بتایا کہ ’’میں نے سرکاری افسران کے آگے ہاتھ جوڑے کہ مسجد کا معاملہ ہے، کچھ وقت تو دیں۔ یہ قانونی مسجد ہے۔ آپ کاغذات دیکھ لیں۔ میں انتظامیہ کے لوگوں کو بلواتا ہوں، آپ ان سے بات کرلیں۔ لیکن انہوں نے کوئی بات نہیں سنی۔ میں ان کے پاؤں پڑ گیا، لیکن وہ فرعون بن گئے تھے۔ شور شرابہ کرنے پر ایک سٹی وارڈن نے مجھ کو پکڑ لیا۔ پھر میرے سامنے مسجد شہید کردی گی۔ میں روتا رہا، منت سماجت کرتا رہا۔ لیکن قرآن شریف نکالنے کی اجازت بھی نہیں دی گئی‘‘۔ قاری عبداللہ کا کہنا تھا کہ ’’مسجد کا ملبہ ہٹا کر یہاں نمازیں ادا کروں گا۔ مجھے اللہ کے علاوہ کسی کا ڈر نہیں ہے‘‘۔ مسجد انتظامیہ کے محمد ندیم نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ وہ ریئل اسٹیٹ کا کام کرتے ہیں۔ ان کی رہائش ہل پارک کے قریب ہے اور وہ 35 سال سے اس مسجد میں نماز ادا کر رہے ہیں۔ سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خان اور اس دور کے یو سی ناظم زاہد سعید بھی یہاں نماز پڑھنے آتے تھے۔ ان سے اجازت لے کر مسجد کی چھت اور وضو خانے کی تعمیر کرائی تھی۔ یہاں 28 سال سے رمضان المبارک میں تراویح ادا کی جارہی تھی۔ مخیر حضرات کے تعاون سے مسجد کو وسیع کرنے کا کام جاری رکھا ہوا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ میئر کراچی نے مسجد کو شہید کرواکر اللہ کے عذاب کو آواز دی ہے۔ کارروائی سے قبل وہ کم از کم کاغذات تو دیکھ لیتے۔ اب جو نمازی آرہے ہیں وہ مسجد کے ملبے کو دیکھ کر غم زدہ ہورہے ہیں۔ پولیس اہلکار انہیں مسجد کے قریب بھی نہیں آنے دے رہے ہیں۔ لوگوں سے کہا جارہا ہے کہ یہ مسجد ختم ہوگئی ہے، وہ کہیں اور نماز پڑھیں۔ آج فجر اور ظہر کی نماز ادا نہیں کرنے دی گئی۔ پولیس اہلکاروں نے ڈرا دھمکا کر بھگا دیا۔ فیملی کے ساتھ ہل پارک میں تفریح کیلئے آنے والے اویس احمد کا کہنا تھا کہ وہ پاک کالونی سے آئے ہیں۔ بچپن میں ان کے والد تفریح کیلئے انہیں ہل پارک لاتے تھے تو وہ والد کے ہمراہ یہاں نماز پڑھتے تھے۔ لیکن آج اس مسجد کو ملبے کا ڈھیر بنا دیکھ کر انہیں بہت افسوس ہوا ہے۔ 50 سال قدیم مسجد کو شہید کردیا گیا۔ میئر کراچی کو اللہ کے گھر کے تقدس کا خیال نہیں آیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کا دعویٰ کرنے والوں کے دور میں سنیما گھر آباد اور مساجد شہید کی جارہی ہیں۔ وہ مسجد کے ملبے کے سامنے ہاتھ اٹھاکر بددعائیں دینے لگے کہ میئر کراچی تم سے خدا پوچھے گا۔ اے اللہ ہمیں معاف کردے، ہم اتنے مجبور ہیں کہ تیرے گھر کو نہیں بچا سکے۔ نصراللہ نامی نمازی نے بتایا کہ وہ ہل پارک کے قریب واقع بنگلے میں ڈرائیور ہے۔ ظہر سے عشا تک چار نمازیں یہاں ادا کرتھا تھا، مسجد شہید کرنے پر بہت دکھ ہوا۔ معمر نمازی منظور بابا نے بتایا کہ وہ ہل پارک کے ہوٹل میں کام کرتے ہیں اور اس مسجد میں نماز باجماعت ادا کرتے تھے۔ اب پولیس والے انہیں یہاں نماز کی ادائیگی سے روک رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ علمائے کرام بتاتے ہیں کہ مسجد کی جگہ وقف ہوجائے تو قیامت تک رہتی ہے۔ اب وہ یہیں آکر نماز پڑھیں گے۔ رفیق گوڈیل نامی نمازی نے انتہائی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میئر کراچی تم مسجد شہید کرکے کس سے بہادری کا تمغہ لو گے۔ ناصر خان نے بتایا کہ ان کی ہل پارک میں کینٹین ہے اور وہ اس مسجد میں نماز اد ا کرتے تھے۔ اب ادھر آئے ہیں تو پولیس والے نماز نہیں پڑھنے دے رہے۔ انہوں نے کہا کہ مسجد کا معاملہ تھا، اتنی جلدی نہیں کرنی چاہئے تھی۔ مسجد کے خدمت گار سیف الرحمان کا کہنا تھا کہ اللہ کا گھر مسمار کئے جانے پر دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔
’’امت‘‘ ٹیم جب نمازیوں اور علاقہ مکینوں سے بات چیت کررہی تھی تو فیروز آباد تھانے کے ہیڈ کانسٹیبل راجہ خضر نے پولیس کمانڈوز کے ساتھ آکر ’’امت‘‘ ٹیم کو کوریج سے روکنے کی کوشش کی اور دھمکیاں دینے لگا۔ جب اس حوالے سے فون پر ایس ایچ او اورنگزیب خٹک سے بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ مسجد غیر قانونی تھی، جو گرادی گئی، اب آپ وہاں سے چلے جائیں۔ آپ لوگوں کو جمع کرکے انہیں اشتعال دلا رہے ہیں۔ اس کے بعد ایس ایچ او خود موبائل میں وہاں آئے اور پولیس اہلکاروں کو کچھ ہدایات دے کر چلے گئے۔
مسجد کے صحن میں قرآن شریف، سپارے، جائے نمازیں، ٹوپیاں، دینی کتب اور دیگر سامان جوں کا توں موجود ہے۔ ہل پارک میں ہفتے کو بھی آپریشن کا سلسلہ جاری تھا۔ ’’امت‘‘ ٹیم نے وہاں موجود کے ایم سی افسران سے مسجد کے حوالے سے بات چیت کرنے کی کوشش کی تھی، تاہم انہوں نے انکار کردیا۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More