واپڈا حکام 2 ارب کے ترقیاتی فنڈ کا 8 سالہ منافع ہضم کرگئے

0

اسلام آباد(ناصر عباسی ) واپڈا حکام نجی بینکوں کی ملی بھگت سے 2 ارب روپے سے زائد کے سرکاری فنڈز پر کئی برس تک حاصل ہونے والا منافع ہضم کر گئے، وزارت نے معاملہ پبلک اکائونٹس کمیٹی کو بھجوانے کی سفارش کر دی ہے۔’’امت‘‘ کو دستیاب دستاویزات کے مطابق بلوچستان کے ضلع جھل مگسی میں نولانگ ڈیم کی تعمیر کے لیے 2010-11 سے 2016-17 تک پی ایس ڈی پی منصوبے کے تحت 8ارب 80 کروڑ روپے مختص کیے گئے، جبکہ اس رقم میں سے 2ارب 37کروڑ50لاکھ روپے کے فنڈز واپڈا کو جاری بھی کر دیے گئے۔ تاہم واپڈا حکام مالی سال 17-2016 تک ان فنڈز میں سے صرف 34کروڑ71لاکھ روپے خرچ کر سکے، جبکہ بقیہ رقم نجی بینک میں اکاؤنٹ کھلوا کر جمع کروا دیے گئے۔ حالانکہ قواعد کی رو سے واپڈا حکام کو غیر استعمال شدہ فنڈز حکومتی خزانے میں جمع کروانے ضروری تھے۔ اس کے علاوہ وزارت پانی و بجلی کی ہدایات کے مطابق واپڈا حکام کی جانب سے نجی بینکوں کے پاس رکھوائے گئے ترقیاتی فنڈز سے حاصل ہونے والا منافع سرکاری خزانے میں جمع کروایا جانا ضروری ہے۔ تاہم واپڈا حکام نے 2 ارب روپے سے زائد کے غیر استعمال شدہ فنڈز نہ تو سرکاری خزانے میں واپس جمع کروائے اور نہ ہی نجی بینکوں میں رکھوائے گئے غیر استعمال شدہ فنڈز پر حاصل ہونے والا منافع سرکاری خزانے میں جمع کروایا گیا۔ معاملہ پہلی مرتبہ اگست 2016میں سامنے آیا۔ جبکہ نومبر 2017میں وزارت پانی و بجلی کو بھی معاملے کے بارے میں آگاہ کر دیا گیا۔ واپڈا حکام کا کہنا تھا کہ مالی سال 2016-17تک منصوبے کی بولی کا عمل مکمل نہ ہو سکنے کے باعث فنڈز خرچ نہیں کیے جا سکے، جبکہ مئی 2017میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) فنڈز میں سے ایک ارب 91کروڑ60لاکھ روپے زبردستی نکلوا لیے۔ واپڈا حکام کا مزید کہنا تھا غیر استعمال شدہ فنڈز جی ایم فنانس وزارت پانی و بجلی کے کنٹرول میں رہے نہ کہ منصوبے کے اکاؤنٹ میں، اس لیے واپڈا حکام ان فنڈز پر حاصل ہونے والے منافع کے بارے میں جوابدہ نہیں ہو سکتے۔ اس معاملے پر جنوری 2018میں ہونے والی ڈیپارٹمنٹل اکائونٹس کمیٹی نے معاملہ قومی اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کے حوالے کرنے کی سفارش کر دی۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More