کراچی ( اسٹاف رپورٹر ) انجمن اساتذ جامعہ کراچی کا تدریسی بائیکاٹ غیر قانونی ہونے کا انکشاف ہواہے ۔وہ تنظیم سازی کر سکتی ہے نہ ہی مطالبات منوانے کیلئے کلاسز کا بائیکاٹ کرنے کا قانونی حق رکھتی ہے۔جبکہ محتسب کا فیصلہ براہ راست ہائیکورٹ میں چیلنج نہیں ہو سکتا۔تفصیلات کے مطابق انجمن اساتذہ نے اساتذہ کی بھرتیوں کے اشتہار نہ دینے کے خلاف 21 سے24جنوری تک کلاسز بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے ۔ جامعہ انتظامیہ گزشتہ 2 برسوں سے انجمن اساتذہ تو کبھی ایمپلائز یونین کے ہاتھوں بلیک میل ہو رہی ہے ۔ دونوں یونینز جامعہ کے فیصلے پر اثر انداز ہوتی رہی ہیں جس میں جامعہ کراچی کے رجسٹراراور ڈائریکٹر فنانس کی تبدیلیاں بھی شامل ہیں۔ ‘‘امت ’’کو معلوم ہوا ہے کہ انجمن اساتذہ جامعہ کراچی سرکاری سطح پر سرے سے رجسٹرڈ ہی نہیں ہے جبکہ وہ اپنے مطالبات منوانے کے لئے جامعہ انتظامیہ کو بلیک میل اورکلاسز کا بائیکاٹ کر کے طلبہ کا تعلیمی نقصان کرتی آ رہی ہے جبکہ حکومت اور جامعہ انتظامیہ خاموش تماشا بنی ہوئی ہیں،دوسری جانب جنسی ہراسگی کیس کے فیصلے پر عملدرآمد کے لئے سینڈیکیٹ کا اجلاس گذشتہ سال 3جنوری کو ہونا تھا تاہم کورم پورا نہ ہونے پراجلاس نہ ہو سکاتھا۔ذرائع کے مطابق متاثرہ طالبہ نے صوبائی محستب تحفظ خواتین ورکرز کو 19جون کو مذکورہ لیکچرار کے خلاف شکایت کی جس پر صوبائی محتسب نے20دسمبر کو اپنےفیصلے میں قرار دیاکہ متاثرہ طالبہ کےالزامات درست ہیں اور لیکچرار حسن عباس کو فوری طور پر برطرف کرنے اور متاثرہ طالبہ 50ہزار روپے ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دیا تھا تاہم جامعہ انتظامیہ نے فیصلے پر عملدرآمد کے بجائے اسے تحفظ فراہم کر رکھا ہے،معلوم ہوا ہے کہ لیکچرار حسن عباس نے محتسب فیصلے کیخلاف سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کر رکھا ہے۔امت سے گفتگو کرتے ہوئے ماہر قانون ندیم شہزاد ہاشمی نے کہا کہ گزیٹیڈ افسر کسی قسم کی سیاسی یا تنظیمی سرگرمی نہیں کر سکتا ،انہوں نےکہا کہ طلبہ کا مستقبل دا ؤ پر لگانے والے اساتذہ کے خلاف جامعہ انتظامیہ اور حکومت کو کارروائی کرنی چاہیے،ان کا کہنا تھا کہ محتسب فیصلے کے حوالے سے گورنر سے رجوع کیا جا سکتا ہے البتہٰ متاثرہ فریق عدالت عالیہ سے براہ راست رجوع نہیں کر سکتا۔اس حوالے سے موقف کیلئےرجسٹرار سے رابطہ کیا گیا تاہم انہوں نے فون اٹینڈ نہیں کیا ۔