افغانستان میں امن کیلئے حکمت یار کو آزمانے کی تیاریاں

0

امت رپورٹ
سابق افغان صدر حامد کرزئی اور موجودہ صدر اشرف غنی سے مایوس امریکہ اب افغانستان میں قیام امن کے لئے حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار کو آزمانا چاہتا ہے۔ اس سیناریو میں حکمت یار کے افغانستان کا نیا صدر بننے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ واضح رہے کہ افغانستان میں صدارتی الیکشن اپریل میں ہونا تھا، تاہم اپریل میں صدارتی الیکشن ملتوی کرکے نئی تاریخ 20 جولائی 2019ء کی دی گئی ہے۔
افغانستان میں قیام امن کی کوششوں سے جڑے ذرائع کا کہنا ہے کہ اشرف غنی اگرچہ دوبارہ افغانستان کے صدر منتخب ہونا چاہتے ہیں۔ تاہم صدارتی الیکشن کی دوڑ میں گلبدین حکمت یار کا نام شامل ہوجانے
کے بعد اشرف غنی کو اپنی توقعات خطرے میں پڑتی دکھائی دے رہی ہیں۔ طویل جلاوطنی کے بعد 2016ء میں واپس افغانستان پہنچنے والے گلبدین حکمت یار کو اب بھی افغانستان میں ایک بااثر شخصیت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اگرچہ گلبدین حکمت یار کی افغانستان واپسی میں اشرف غنی کی مرضی شامل تھی تاہم پچھلے دو برس سے گلبدین حکمت یار ، غنی حکومت کے سخت ناقد رہے ہیں اور انہوں نے 2018ء کے پارلیمانی انتخابی عمل کو بھی سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ ذرائع کے مطابق گلبدین حکمت یار کی واپسی میں اشرف غنی کی مرضی ایک طرح کی مجبوری تھی کیونکہ یہ ڈویلپمنٹ امریکی خواہش پر ہوئی تھی ، واشنگٹن سمجھتا ہے کہ افغانستان میں قیام امن کے لئے اس وقت سب سے موثر شخصیت گلبدین حکمت یار کی ہے ، اور یہ کہ وہ طالبان کے ساتھ بہتر طریقے سے معاملات کرسکتے ہیں۔ ذرائع کا کہناٰ تھا کہ صدر ٹرمپ اور ان کے قریبی رفقاء افغانستان میں نئے صدر کے طور پر گلبدین حکمت یار کو لانا چاہتے ہیں تاکہ طالبان کے ساتھ جاری مذکرات میں ان کو رول دیا جاسکے ، تاہم دوبارہ صدارت حاصل کرنے کے خواہشمند اشرف غنی کو امریکی سی آئی اے اور بھارت کی پشت پناہی حاصل ہے ۔ اس کے باوجود صدارتی الیکشن کے اکھاڑے میں گلبدین حکمت یار کے اترنے کو اشرف غنی اپنے لئے خطرہ سمجھ رہے ہیں ، اور ان کے خیال میں یہ فیصلہ امریکی خواہش کے تناظر میں کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ صدارتی الیکشن میں احمد شاہ مسعود کے بھائی احمد ولی مسعود اور عبداللہ عبداللہ بھی حصہ لے رہے ہیں۔ تاہم تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اصل مقابلہ گلبدین حکمت یار اور اشرف غنی کے درمیان متوقع ہے ۔ اتوار کو کاغذات نامزدگی کے آخری دن الیکشن کمیشن دفتر بند ہونے سے صرف چند گھنٹے پہلے اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ نے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرائے۔
ادھر امریکی صدر ٹرمپ کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد کے چار روزہ دورہ پاکستان پر امریکی سفارتخانے کے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ ملاقاتوں میں دونوں اطراف سے افغان عمل میں تعاون کی یقین دہانی کرائی گئی ۔ زلمے خلیل زاد کا دورہ پاکستان طالبان کو مذاکرات کی بحالی پر رضا مند کرنے کی کوششوں کا حصہ تھا ، اور کہا گیا تھا کہ اگلا اجلاس اسلام آباد میں ہوگا۔ تاہم طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اس مجوزہ اجلاس کی اطلاعات کو غلط قرار دے دیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ان تمام کوششوں کے باوجود ڈیڈ لاک کے فوری خاتمے کا امکان دکھائی نہیں دے رہا ۔ جہاں ایک طرف طالبان نے امریکی انخلاء کے روڈ میپ کو مذاکرات میں پیش رفت سے جوڑدیا ہے ، وہیں امریکہ کی شدید خواہش ہے کہ امن معاہدے سے پہلے وہ طالبان کو سیز فائر پررضا مند کرلے۔ قبل ازیں چھ ماہ کی سیز فائر کا مطالبہ کیا گیا تاہم اب امریکی دو تین ماہ کی سیز فائر پر آچکے ہیں۔ لیکن طالبان اس پر بھی آمادہ نہیں ہورہے اور ان کا کہنا ہے کہ جب تک امریکہ افغانستان سے واپسی کی کوئی تاریخ نہیں دے دیتا ، کسی مطالبے کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ پاکستان ، سعودی عرب اور قطر کے ذریعے بھی طالبان کو سیز فائر پر قائل کرنے کی کوششیں تاحال کامیاب نہیں ہوسکی ہیں۔ اسی طرح کابل حکومت سے براہ راست مذاکرات پر بھی طالبان کو تاحال آمادہ نہیں کیا جاسکا ہے ۔ ذرائع کے مطابق افغانستان میں فوری سیز فائر کے ذریعے امریکہ دو مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اول یہ کہ صدارتی الیکشن پرامن ماحول میں ہوجائیں اور دوسرا یہ کہ اس وقفے کے دوران شکست خوردہ افغان نیشنل آرمی اور پولیس کے حوصلوں کو بحال کرنے کی کوشش کی جائے ، جو طالبان کے سامنے کھڑے ہونے کی سکت کھو بیٹھے ہیں ۔ جبکہ سیز فائر کے ذریعے امریکہ اور کابل حکومت موسم بہار کے حملوں سے بچنا چاہتے ہیں ۔ ہر برس اپریل میں طالبان کی طرف سے SPRING OFFENCE کا آغاز کیا جاتا ہے ۔
معروف عسکری تجزیہ نگار بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون راجہ اس سے اتفاق کرتے ہیں کہ سیز فائر کا امریکی مطالبہ ایک بڑی گیم ہے۔ آصف ہارون کے بقول سیز فائر کے ذریعے اپنے دیگر مقاصد کے علاوہ امریکہ اور کابل حکومت یہ بھی چاہتے ہیں کہ اس مطالبے پر عمل کراکے طالبان کے حملوں کا MOMENTUM (رفتار) توڑ دیا جائے۔ پھر اس وقفے کے دوران امریکی ، کابل کی اتحادی لیکن کمزور ترین حکومت کو مستحکم کرنے کی خواہش بھی رکھتے ہیں ، تاہم طالبان اس امریکی چال کو سمجھ گئے ہیں ، لہٰذا وہ کسی صورت بھی امن معاہدے سے قبل سیز فائر نہیں کریں گے۔ بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون نے ان اطلاعات کو بھی درست قرار دیا کہ امریکہ اب گلبدین حکمت یار کے ذریعے افغانستان میں قیام امن کی کوشش کرنا چاہتا ہے۔ آصف ہارون کا کہنا تھا ’’اس بات کے خاصے امکانات ہیں کہ گلبدین حکمت یار کو افغانستان کا نیا صدر بنانے کے لئے امریکہ کسی حتمی فیصلے پر پہنچ جائے ۔ کیونکہ اشرف غنی اور دیگر صدارتی امیدواروں کے مقابلے میں گلبدین حکمت یار امریکیوں کے لئے بہتر انتخاب ہوں گے اور پھر یہ کہ حزب اسلامی کی افغانستان میں سیاسی جڑیں بہت مضبوط ہیں۔ اس حوالے سے امریکی پہلے ہی حکمت یار کو لوپ میں لاچکے ہیں۔ سابق جہادی رہنما کی واپسی کے پیچھے بھی یہی پلان کارفرما تھا۔ حکمت یار کو صدر بنانے کے مجوزہ پلان کا ایک مقصد طالبان سے مضبوط مذاکرات کے لئے راستہ بنانا بھی ہے۔ کرزئی اور اشرف غنی اس معاملے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکے ہیں۔ اسی لئے گلبدین حکمت یار کو آزمانے کے لئے سنجیدگی سے غور ہورہا ہے۔ افغانستان میں پچاس پچاس فیصد کی پاور شیئرنگ پر مشتمل وسیع البنیاد اتحاد حکومت کا تجربہ بھی مکمل طور پر فیل ہوچکا ہے ۔ اس حکومت کا سارا عرصہ آپس میں لڑتے گزر گیا۔ لہٰذا یہ تجربہ دوبارہ نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اگر حکمت یار صدر بنتے ہیں تو پھر افغانستان کا موجودہ آئین بھی تبدیل ہوگا، جو امریکہ نے زبردستی کابل پر تھوپ رکھا ہے ‘‘۔
امریکہ اور طالبان کے درمیان ڈیڈ لاک کا شکار ہونے والے مذاکرات کے بارے میں بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون کا کہنا تھا کہ کم از کم رواں برس اس حوالے سے کوئی بریک تھرو ملنے کا امکان نہیں۔ طالبان کو نہ صرف زلمے خلیل زاد کے مشکوک کردار پر تحفظات ہیں بلکہ انہوں نے سعودی عرب ، قطر ، متحدہ عرب امارات اور پاکستان کو بھی کہہ دیا ہے کہ ان کے جائز مطالبات تسلیم کئے جانے تک مذاکرات دوبارہ شروع نہیں ہوسکتے۔ آصف ہارون کے بقول طالبان سمجھتے ہیں کہ یہ سب لوگ ان کا موقف سننے کے بجائے امریکہ کو خوش کرنے پر لگے ہوئے ہیں۔ طالبان نے مذاکرات کے لئے پہلے چھ نکات دیئے تھے ، جن میں قیدیوں کی رہائی ، سفری پابندیوں کا خاتمہ اور دیگر شامل تھیں، اب وہ دیگر نکات کو پس پشت ڈال کر صرف دو نکات پر آگئے ہیں کہ اول امریکہ افغانستان سے انخلاء کی تاریخ کا اعلان کرے اور دوئم اس کے عوض وہ امریکیوں کو گارنٹی دینے پر تیار نہیں کہ افغانستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں کی جائے گی۔ لیکن امریکہ اس پر بھی تیار نہیں اور طالبان کی کسی بھی شرط کو تسلیم کرنے سے پہلے اپنے مطالبات کو منوانے کی ضد کر رہا ہے ، جس سے مذاکراتی عمل پر مایوسی کے بادل گہرے ہوتے جارہے ہیں ۔ ایسے میں پاکستان کو چاہئے تھا کہ طالبان کے جائز مطالبات تسلیم کرنے کے لئے وہ امریکہ کو قائل کرے بجائے اس کے کہ طالبان پر یکطرفہ دبائو ڈالا جائے۔ آصف ہارون کے بقول اصل سوال یہ ہے کہ جب پاکستان امریکہ پر اعتماد کر رہا ہے تو طالبان پر ٹرسٹ کیوں نہیں کیا جارہا ۔ دراصل امریکہ ان مذاکرات کے لئے مخلص نہیں۔ اگر سنجیدہ ہوتا تو پھر بات چیت کے لئے زلمے خلیل زاد جیسی متنازعہ شخصیت کا انتخاب نہ کرتا۔ طالبان کو بھی زلمے خلیل زاد پر اعتماد نہیں اور پھر یہ کہ پاکستان کو بھی زلمے خلیل زاد کی ہسٹری معلوم ہے۔ امریکی صدر کے نمائندے کے طور پر زلمے خلیل زاد کی تقرری پر صرف بھارت، کابل حکومت اور شمالی اتحاد والے خوش ہیں۔ اس سے پہلے امریکہ مذاکرات کے لئے رچرڈ بائوچر جیسی متنازعہ شخصیت کو لے کر آیا تھا ، جن کے کریڈٹ پر یوگوسلاویہ کوتوڑ کر دو حصوں میں تقسیم کرنا ہے۔ افغانستان کے سلسلے میں بھی رچرڈ بائوچر نے یہی کوشش کی تھی جو بیک فائر کرگئی۔ آصف ہارون کا کہنا تھا کہ مذاکرات کو کامیاب بنانے کے لئے زلمے خلیل زاد کو ہر صورت ہٹانا ہوگا اور طالبان کی طرف سے بھی یہ مطالبہ آسکتا ہے ۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More