سرفروش

0

عباس ثاقب
میری بات سن کر بشن دیپ اچانک سنجیدہ، بلکہ رنجیدہ ہوگیا۔ کچھ لمحے سوچنے کے بعد اس نے کہا ’’اصل رونا تو یہی ہے۔ ہم سکھوں سے زیادتی کا آغاز دیش کے باپ، جمہوریت کے سب سے بڑے پرچارک نہرو نے کیا تھا۔ میں نے شاید آپ کو بتایا تھا ناں،اس نے بٹوارے سے پہلے سکھ لیڈروں کو خود مختاری کا جھانسا دے کر اپنے ساتھ ملایا تھا اور ہندوستان بننے کے بعد سب وعدوں سے مکر گیا ، بلکہ سکھ قوم کو انتہا پسند قرار دے دیا۔ سنا ہے اب خالصہ تحریک کو کمزور کرنے کے لیے پنجاب کو کئی ٹکڑوں میں بانٹنے کی تیاریاں ہورہی ہیں۔‘‘
میں نے دکھی لہجہ بناتے ہوئے کہا ’’یہ تو بہت زیادتی ہے بشن دیپ بھائیا۔ اگر رقبے اور آبادی کی بات ہے تو سب سے بڑا صوبہ تو اُتر پردیش ہے، سب سے پہلے اسے تقسیم کرنا چاہیے۔‘‘
بش دیپ نے شاکی لہجے میں کہا ’’بھائی خود ہمارے پنجاب میں لسانیت کی بنیاد پر تقسیم اور تفریق کی جارہی ہے۔ ہریانے کے باسیوں کواکسایا جارہا ہے کہ تم لوگوں کی اپنی زبان ہے، لہٰذا تمھارا سے الگ صوبہ ہونا چاہیے۔‘‘
میں نے افسوس بھرے لہجے میں کہا ’’یہ تو واقعی بہت تکلیف دہ صورت ِ حال ہے ۔ یہ بتائیے کہ خالصہ ریاست کے لیے جدوجہد کی ابتدا کیسے ہوئی؟‘‘
بشن دیپ نے کہا ’’میں نے آپ کو بتایا تھا کہ کچھ دور اندیش سکھ لیڈر تو بٹوارے سے پہلے بھی اپنی الگ ریاست کا مطالبہ کررہے تھے لیکن ہندوستان بننے کے بعد سکھ مت کے تئیں نہرو سرکار کا غلط رویہ اس تحریک کا بنیادی سبب بنا۔ پھر پنجاب کے ا سکولوں میں ہندی زبان پڑھانے سے عام لوگوں میں ناراضی بڑھی۔‘‘
بشن دیپ نے ٹھہر کر میرے چہرے پر نظر ڈالی اور پوری طرح متوجہ پاکر بات آگے بڑھائی ’’اسی سلسلے میں پنجاب میں پنجابی صوبہ نامی عوامی تحریک چلائی گئی جس کا مقصد ہندی زبان کو ہٹا کر اس کی جگہ پنجابی زبان کو صوبہ پنجاب کی دفتری زبان قرار دینا تھا۔ لیکن اپریل 1955ء میںخود کو جمہوریت کا چیمپیئن کہنے والی ہندو نواز نہرو سرکار نے اس تحریک پر پابندی لگادی۔ اس دوران میںہم سکھوں کو کڑی آزمائشوں سے گزرنا پڑا۔ ہمارے پرامن مظاہرین اور بے گناہ زائرین پر لاٹھیاں برسائی گئیں، جیل میںڈالا گیا اورہمارے بہت سے گردواروں پر حملے بھی کئے گئے۔‘‘
میں نے ناراض لہجے میں کہا ’’یہ تو جلتی پر تیل چھڑکنے والی بات ہے۔‘‘
بشن دیپ نے افسوس سے گردن ہلاکر کہا ’’سب سے بڑی بد قسمتی یہ ہے کہ سکھ ریاست کے مطالبے کو بھارت سرکار، پاکستان کی سازش بتاتی ہے اور سکھوں کو دیش کا دشمن اور غدار قرار دیا جاتاہے۔ آپ کو شاید یقین نہ آئے، لیکن اب بھی خالصہ دیش کے حمایتی سیکڑوں، بلکہ ہزاروں نوجوان بغیر کسی قانونی کارروائی کے اٹھا کر بند کیے جارہے ہیں۔ گردواروں میں گھس کر توڑ پھوڑ معمول کی بات ہے لیکن دیش کی سرکھشا کے نام پر ان خبروں کو اخباروں میں چھاپنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔‘‘
میں نے پوچھا ’’پھر ان اٹھائے گئے سکھ نوجوانوں کے ساتھ کیا کیا جاتا ہے؟‘‘
بشن دیپ نے کہا ’’مار پیٹ کی جاتی ہے، آئندہ کے لیے باز رہنے کی سوگند لی جاتی ہے۔ والدین کو بلا کر ڈرایا دھمکایا جاتا ہے۔ تنبیہہ کی جاتی ہے کہ دوبارہ ان کے بیٹے کی شکایت آئی تو اسے گولی سے اڑا دیا جائے گا اور بعض کے ساتھ ایسا ہو بھی چکا ہے۔ لیکن ان تمام ہتھکنڈوں کے باوجود خالصہ تحریک آہستہ آہستہ، خاموشی سے زور پکڑ رہی ہے اور بھاری تعداد میں سکھ نوجوان اس کے نظریے کو قبول کر رہے ہیں۔‘‘
میں نے پوچھا ’’خالصہ تحریک کا سب سے نمایاں لیڈر کون ہے؟‘‘
اس نے کچھ سوچ کر کہا ’’ماسٹر تارا سنگھ جی کو کہہ سکتے ہیں۔ وہ ہندوستان کی آزادی سے پہلے سے سکھوںکے اپنے دیش کا مطالبہ کرتے رہے، پھر خود مختار پنجاب کیلئے لڑتے رہے۔ اب بھی اپنی سی کوشش کررہے ہیں۔ لیکن اب یہ بات بالکل کھل چکی ہے کہ نہرو سرکار ہندوستان کو صرف اور صرف ہندوؤں کا دیش بنانے پر تلی ہوئی ہے جہاں کسی اور دھرم کے ماننے والوں کیلیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ اس کا ثبوت ہندوستانی دستور کی شق پچیس ہے جس میں ہم سکھوں کو ہندوؤں ہی کی ایک قسم قرار دیا گیا ہے۔‘‘
میں نے کہا ’’لیکن یہ تو سچ ہے ناں کہ پنجاب میں سکھوں کے علاوہ بھی بہت سی قوموں اور مذہب کے لوگ آباد ہیں۔‘‘
بشن دیپ نے ہاں میں گردن ہلائی ’’اس سے کسے انکار ہے؟ ہم کون سا یہ کہہ رہے ہیں کہ سکھوں کے علاوہ باقی سب قومیں یہاں سے نکل جائیں؟
خالصہ تحریک سے پہلے تو سکھ رہنما اجیت سنگھ اور تارا سنگھ نے نہرو کوکئی بار یہ بات سمجھانے کی کو شش کی کہ ہم سکھ اکثریت والی ریاست نہیں چاہتے۔ ہم تو صر ف ایک ایسی ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں جہاں ہندو، سکھ سب شامل ہوں۔‘‘
میں نے یوں ظاہر کیا جیسے گہری سوچ میں ہوں، پھر سنجیدہ لہجے میں کہا ’’میں نے اب تک جو مشاہدہ کیا ہے، اس سے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ہماری قوم کے ساتھ واقعی بہت زیادتی ہورہی ہے۔ میں انگلینڈ واپس جاکر خالصہ تحریک سے ہر ممکن تعاون کروں گا۔‘‘
بشن دیپ نے خوشی اور افسوس کے عجیب ملے جلے جذبات کے ساتھ کہا ’’بہادر بھائی، آپ کو یہ سب کچھ بتانے کا یہی مقصد تھا۔ ہماری قوم کے نوجوانوں کو یہ سب ضرور معلوم ہونا چاہیے، خاص طور پر بدیس میں رہنے والے سکھ بھائیوں کو، کیوں یہاں پر سرکار کے جبر کی وجہ سے کھل کر آواز اٹھانا مشکل ہے، وسائل کی بھی کمی ہے۔ بدیس کے سکھ بھائیوں نے ساتھ نہ دیا تو یہ تحریک کچھ ہی سال میں دبادی جائے گی۔ ‘‘ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More