ضیاء چترالی
آمریت کی چھتری تلے قائم نام نہاد جمہوریت نے مصری معیشت کا بھرکس نکال دیا ہے۔ بے پناہ مہنگائی نے جہاں لوگوں سے زندگی کا لطف چھین لیا ہے، وہیں ’’مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے‘‘ کے مصداق مردوں سے بھی اپنے شہروں اور آبائی قبرستانوں میں دفن ہونے کا حق چھین لیا ہے۔ مصر میں قبر کیلئے زمین کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے سے حقیقی معنوں میں زمین مردوں پر تنگ ہو گئی ہے۔ اب لوگ اپنے پیاروں کو شہروں سے باہر دور دراز کے قبرستانوں میں دفنانے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ الجزیرہ کی ایک رپورٹ کے مطابق، مصر میں محاورہ مشہور ہے کہ ’’الموت راحۃ للمیت‘‘ یعنی موت مردے کیلئے راحت کا باعث ہوتی ہے۔ ہر ایک کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کے مرحوم عزیز کیلئے کسی قریبی قبرستان میں آخری آرامگاہ کی جگہ میسر آئے تاکہ اہل خانہ عیدین اور مختلف مواقع پر فاتحہ خوانی کیلئے بہ آسانی قبرستان جا سکے۔ مگر جنرل سیسی کی حکومت نے مصریوں سے یہ حق بھی چھین لیا ہے۔ اب مصر کے شہروں میں تدفین کیلئے کسی بھی قبرستان میں جگہ خریدنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ قبروں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں۔ جو متوسط آمدنی والے شہریوں کے بس باہر ہیں۔ 2016ء کے بعد اب تک قبروں کی قیمتوں میں ڈیڑھ سو فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔ اس لئے شہر سے دور صحرائوں میں نئے قبرستان بسائے جا رہے ہیں۔ مگر یہ علاقے بھی سرکار خصوصاً مصری فوج کی ملکیت ہیں۔ اس لئے یہاں بھی فی انچ کے حساب سے قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق مصری حکومت رواں برس پیٹرول مصنوعات کی قیمتوں میں مزید اضافہ کرنا چاہتی ہے، جس کے بعد قبروں اور تدفین سے متعلقہ سروس کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔ الجزیرہ کے سروے کے مطابق مصری دارالحکومت قاہرہ میں دو طرح کے قبرستان ہیں۔ کچھ قبرستان صدیوں پرانے ہیں، جو شہر کے قدیم حصے میں واقع ہیں۔ جیسے ’’مقبرہ امام شافعی‘‘ ’’مقبرہ سیدہ عائشہ‘‘ اور ’’مقبرہ مجاورین‘‘۔ ان قبرستان میں مزید تدفین کی گنجائش تقریباً ختم ہو چکی ہے اور اگر کوئی یہاں قبر کی جگہ خریدنا چاہے تو اسے منہ مانگی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ دوسرے وہ قبرستان ہیں، جو شہر کے نئے حصے میں واقع ہیں۔ جیسے ’’عبور‘‘ ’’عاشر‘‘ اور ’’شروق‘‘ وغیرہ۔ مصر میں یہ دستور بھی عام ہے کہ لوگ اپنے مردے کیلئے صرف قبر کی جگہ نہیں خریدتے، بلکہ اس کے آس پاس کچھ میٹر کے فاصلے پر محیط جگہ بھی خرید کر اس کے گرد چاردیواری بناتے ہیں۔ تین مختلف مقامات کے سروے کے دوران معلوم ہوا کہ شہر کے نئے قبرستانوں میں 20 میٹر کی متوسط قبر کی قیمت 60 ہزار مصری جنیہ (3330 امریکی ڈالر) سے شروع ہوتی ہے۔ پاکستانی کرنسی میں یہ تقریباً 4 لاکھ 65 ہزار روپے بنتے ہیں۔ شہر کے مضافات میں واقع قبرستانوں میں اس قسم کی قبر 12 سو ڈالر تک ہے۔ نئے قبرستانوں میں چالیس میٹر قبر کی جگہ ساڑھے پانچ ہزار ڈالر (سات لاکھ روپے) تک ہے اور مضافات میں اس کی قیمت دو ہزار ڈالر ہے۔ اگر کسی کو بزنس مینوں اور مشاہیر کے قبرستانوں میں دفن ہونے کا شوق ہو تو وہاں چار گز زمین کی قیمت 27 ہزار ڈالر (37 لاکھ روپے) ہے۔ اس قسم کے قبرستان بھی شہر کے نئے حصے قاہرہ کے جنوب میں واقع ہیں۔ نئے قانون کے مطابق دیہات میں بھی غیر آباد زمینوں کو قبرستان بنانے کی اجازت نہیں ہے۔ اس لئے وہاں بھی قبروں کی زمین قیمتاً خریدنی پڑتی ہے۔ جس کی اوسطاً قیمت 270 ڈالر ہے۔ مصر میں قبر کے لئے جگہ قبرستان انتظامیہ کے بجائے مختلف کمپنیوں سے خریدنی پڑتی ہے اور یہ ایک منافع بخش کاروبار بن گیا ہے۔ اس لئے حکومت بھی اس بہتی گنگا میں خوب اشنان کر رہی ہے۔ قاہرہ میں سرکار نے بھی اپنا ایک قبرستان قائم کیا ہے۔ جس میں 3500 سے چار ہزار ڈالر تک ایک قبر کی جگہ فروخت ہوتی ہے۔قبر کی زمین فروخت کرنے والی ایک کمپنی سے وابستہ نوجوان سامح عثمان کا الجزیرہ سے بات چیت کرتے ہوئے کہنا تھا کہ مصری لوگ مردوں کی تدفین کے حوالے اپنا الگ مزاج رکھتے ہیں۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ میت کو گھر سے قریب قبرستان میں دفن کریں۔ اس لئے منہ مانگی قیمت ادا کر کے بھی وہ قبر کی جگہ خرید لیتے ہیں۔ لیکن جو بالکل مجبور ہوتے ہیں تو وہ شہر سے دور کسی قبرستان میں سستی قیمت پر قبر خرید کر اپنے مردوں کی تدفین کرتے ہیں۔