مرزا عبدالقدوس
ساہیوال میں رونما ہونے والے سانحے میں تین کم سن بچوں نے اپنے والدین اور بڑی بہن کو اپنی آنکھوں کے سامنے گولیاں لگتے اور پھر خون میں لت پت ان کی لاشیں دیکھیں۔ ماہرین نفسیات کے مطابق اپنے والدین کو قتل ہوتا دیکھنے والے بچے نارمل لائف نہیں گزار پاتے۔ بلکہ شدید خوف اور صدمے کی اثرات کے باعث عمر بھر نفسیاتی عوارض میں مبتلا رہ سکتے ہیں۔ ایسا المناک واقعہ کسی عام آدمی کے سامنے بھی رونما ہو تو اس کے اثرات اس کی زندگی پر پڑتے ہیں۔ لیکن اس واقعے میں تو ان بچوں نے اپنا پورا خاندان گولیوں میں چھلنی ہوتے اور خون میں نہایا ہوا دیکھا۔ ماہرین نفسیات کے مطابق اس سانحے کے منفی اثرات ان بچوں کسی حد تک کم اسی صورت میں ہو سکتے ہیں، جب قریبی اعزہ ان پر بھرپور توجہ دیں۔ اس کے علاوہ ان کے اساتذہ، ساتھی طلبہ اور معاشرے کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ ماہرین کے مطابق جس طرح میڈیا اس واقعہ کو اچھال رہا ہے یا ان بچوں سے کچھ افراد یا قریبی رشتہ دار بار بار اس واقعہ کے بارے میں سوالات کررہے ہوں، یہ بھی ان پر مزید منفی مرتب کرسکتا ہے۔ اس طرح ان معصوم بچوں کے نفسیاتی بیماری میں مبتلا ہونے کا امکانات اور خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ اب ان کے سامنے اس واقعے کا زیادہ تذکرہ نہ ہو۔ ان کی زندگی معمول پر لانے کیلئے ان کے وہ قریبی رشتہ دار جن سے ان کی یا ان کے والدین کی اپنی زندگی میں قربت رہی ہے، انہیں اب زیادہ توجہ اور وقت دیں۔ ان کی ہر مناسب اور ممکن خواہش پوری کی جائے۔ ان کو ڈر اور خوف سے نکالنے کے لئے ان پر توجہ دے کر ان کی ضروریات پوری کی جائیں۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز اسلام آباد (PIMS) کے شعبہ نفسیاتی علاج کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر رضوان تاج نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ بچے بہت کم عمر اور کچے ذہن کے ہیں اس طرح کے واقعات اس عمر کے بچوں کے ذہن میں بیٹھ جاتے ہیں جس سے ان کو نقصان ہوتا ہے۔ ایسے بچے ڈرے ڈرے رہتے ہیں اور قوت فیصلہ کی کمی، زندگی سے بیزاری کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے جو خطرناک نفسیاتی بیماری ہے۔ والدین کی سرپرستی سے محروم ان کی دیگر صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ ان کی ذہنی نشونما پر بھی منفی اثرات مرتب کرتی ہے اور ان میں نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہونے کا اندیشہ زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ پروفیسر رضوان تاج نے بتایا کہ ان کے جو قریبی عزیز ہیں، اب ان کی یہ ذمہ داری ہے کہ ان بچوں کو زیادہ وقت دیں۔ ان کی ضروریات کا خیال رکھیں اور یہ ضروریات پوری کرنے کی کوشش کریں۔ ان کو اضافی پیار اور توجہ کی اس وقت ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ان بچوں کی کسی ماہر نفسیات سے بھی ملاقات کی ضرورت ہے تاکہ جان سکیں کہ بچے اب کس ذہنی کیفیت اور سوچ سے گزر رہے ہیں۔ ڈاکٹر رضوان تاج نے کہا کہ یہ بچے معمول کے مطابق عام اسکول میں ہی تعلیم حاصل کریں۔ لیکن ان کے اساتذہ ان کی سرگرمیوں اور ساتھی طلبہ کے ساتھ ان کی گفتگو کو مانیٹر کریں۔ ان سے اس واقعے کے حوالے سے گفتگو کرنے سے بچے، بڑے سب گریز کریں۔ ٹی وی چیلنز جس طرح اس واقعہ کو پیش کررہے ہیں، اس کے اثرات نہ صرف ان بچوں، بلکہ عام بچوں پر بھی غلط مرتب ہو رہے ہیں۔ اس سلسلے کو بند کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر یہ احتیاطی تدابیر اختیار نہ کی گئیں یا انہیں نظر انداز کیا گیا تو یہ بچے ساری زندگی ڈسٹرب رہیں گے۔ یہ واقعہ بھولنا تو بہت مشکل ہے، لیکن اس کے اثرات سے ان بچوں کو محفوظ کرنا بہت ضروری ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر رضوان تاج نے کہا کہ اس طرح کے واقعات عام افراد خصوصاً معاشرے کے تمام بچوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ خون، لاشیں اور پھر ان پر ہونے والے تبصرے بچوں پر منفی اثرات چھوڑتے ہیں جس سے وہ اثر لے کر پروان چڑھتے ہیں اور کسی مرحلے میں ان کا منفی اثر ان فیصلوں اور سوچ پر بھی مرتب ہوتا ہے جو ان کے لئے اور معائدے کے لئے غلط اور خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ اس لئے اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اس واقع پر تبصرے، خبریں محدود کی جائیں اور ان بچوں کے سامنے اس کا ذکر کم سے کم ہو۔ ڈاکٹر پروفیسر رضوان تاج نے ایک سوال کے جواب میںکہا کہ جن پولیس اہلکاروں نے گاڑی کے اندر بیٹھے غیر مسلح افراد پر گولیاں برسائیں، ان کی ایک خاص ٹریننگ اور تربیت ہوتی ہے۔ ان کو اپنے افسران کے حکم پر عمل درآمد کی تربیت دیا جاتی ہے۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ جو کام وہ افسران کے حکم پر کررہے ہیں، اس کے نتائج کیا ہوں گے۔ نہ انہیں یہ جاننے کی ضرورت ہوتی ہے وہ تو حکام بالا کے حکم پر عمل کر کے اپنی ڈیوٹی خوش اسلوبی سے ادا کر کے فخر محسوس کرتے ہیں۔ اس لئے اس واقعے میں بغیر سوچے سمجھے جو قدم اٹھایا گیا، اس کے ذمہ دار وہ افسران اور وہ افراد ہں جنہوں نے ان کو حکم دیا۔ ڈاکٹر رضوان تاج نے کہا کہ قصور ان کا ہے جنہوں نے حکم دیا۔ انہوں نے کس کی اطلاع، مخبری پر اتنا بڑا حکم جاری کیا یہ بھی ان کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس افسوسناک سانحے سے پوری قوم کو برا پیغام گیا۔ قومی سیکورٹی کے اداروں پر قوم اور قوم کے بچوں کا اعتماد بری طرح مجروح ہوا ہے۔ باوردی اہلکارں کو دیکھ کر امن پسند شہریوں کو تحفظ کا جو احساس ہوتا ہے، اس کو بھی بڑی ٹھیس پہنچی ہے اور اس کے منفی اثرات پورے معاشرے پر بہت دیر تک نظر آئیں گے۔
سابق آئی جی اسلام آباد سکندر حیات نے اس بارے میں ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ محکمے کی کوتاہی اور ٹریننگ کا فقدان ہے۔ اگر سی ٹی ڈی بنائی گئی ہے تو اسے یہ بھی ٹریننگ ہونی چاہئے کہ اس کے اہلکاروں نے کس طرح دہشت گردوں کو کس طرح پکڑنا اور حراست میں لینا ہے کہ کسی معصوم کا جانی نقصان نہ ہو۔ لیکن یہاں تو بظاہر سامنے سے کوئی ردعمل بھی نہیں آیا اور ان اہلکاروں نے گولیاں چلائیں۔ سابق آئی جی اسلام آباد سکندر حیات نے کہا کہ اگر انٹیلی جنس ادارے کی اطلاع تھی اور افسران نے اس ٹیم کو اس گاڑی کو مانیٹر کرنے کا کہا تھا، تو یہ حکم تو نہیں دیا ہوگا کہ گولیوں سے بھون دو۔ پارٹی انچارج سب انسپکٹر اس کا ذمہ دار تھا کہ وہ اس واقعہ کو روکتا۔ یہ ٹریننگ کی کمی تھی اور اس نے اپنی دھاک بٹھائے کی کوشش کی، جس نے اس محکمے کی بدنامی میں مزید اضافہ کیا ہے۔ انتہائی قابل مذمت اور شرمناک واقعہ ہوا ہے، جس کے ذمہ داروں کو سخت سزا ملنی چاہئے۔