امت رپورٹ
سانحہ ساہیوال کے متاثرہ خاندانوں نے جے آئی ٹی رپورٹ مسترد کردی ہے اور اس رپورٹ کی بنیاد پر پنجاب حکومت کی جانب سے کئے گئے اقدامات پر بھی عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب تک وزیراعظم ، وزیراعلیٰ پنجاب اور صوبائی وزیر قانون مستعفی نہیں ہوجاتے ، انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوں گے اور یہ کہ چند افسروں کو ہٹایا جانا کافی نہیں ۔
واضح رہے کہ جے آئی کی ابتدائی رپورٹ میں سی ٹی ڈی افسران کو خلیل کے خاندان کے قتل کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔ وزیر قانون پنجاب نے اس سلسلے میں ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی رائے طاہر، ڈی آئی جی ساہیوال شارق کمال ، ڈی پی او ساہیوال علی ضیاء اور دو ڈی ایس پیز کو ہٹانے کا اعلان کیا ہے۔
خلیل کے خاندانی ذرائع نے بتایا کہ اگرچہ مقتول کے بھائی جلیل میڈیا میں آکر وزیراعظم عمران خان کے استعفے کا مطالبہ کر چکے ہیں، تاہم دونوں خاندانوں کے بڑوں میں یہ اتفاق ہے کہ اگر اس واقعہ پر وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار یا کم از کم صوبائی وزیر قانون راجہ بشارت مستعفی ہوجاتے ہیں تو اس پر بھی مقتولین کے ورثاء مطمئن ہوجائیں گے۔ اس کے بعد واقعہ میں براہ راست ملوث سی ٹی ڈی افسران کے خلاف قانونی کارروائی کرکے ان کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے ۔ ذرائع کے مطابق دونوں خاندانوں کے درمیان مشاورت کا سلسلہ جاری ہے کہ اگر استعفوں کے مطالبے کو تسلیم نہیں کیا جاتا تو پھر کس شکل میں احتجاج شروع کیا جائے۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت اس واقعہ پر دونوں خاندانوں کو الگ کرنا چاہتی ہے، جس کے تحت خلیل کو بے گناہ اور ذیشان کو دہشت گرد قرار دیا جارہا ہے تاہم مقتول خلیل کے بڑوں نے فیصلہ کیا ہے کہ اس مشکل وقت میں ذیشان کے اہل خانہ کو تنہا نہیں چھوڑا جائے گا۔ ذرائع کے بقول واقعہ کے بعد سے خلیل کا خاندان ذیشان کی فیملی کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہے جبکہ ذیشان کے بھائی احتشام کا زیادہ وقت خلیل کے گھر پر گزر رہا ہے۔ منگل کا پورا دن بھی احتشام نے خلیل کے گھر پر گزارا اور وہاں بیٹھ کر ہی مختلف ٹی وی چینلز کو انٹرویوز دیئے ۔ احتشام کے قریبی دوست اویس نے تصدیق کی کہ مشکل کی اس گھڑی میں دونوں خاندانوں نے ایک دوسرے کا بھرپور ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ’’امت ‘‘سے بات کرتے ہوئے اویس کا کہنا تھا ’’آج (منگل) آئی جی پنجاب نے خلیل کے گھرآنے کا پیغام بھیجا تھا تاہم مغرب کے وقت تک وہ نہیں پہنچے تھے۔ علاقے کے ایس ایچ او نے احتشام کو بتایا تھا کہ آئی جی صاحب خلیل کے گھر آرہے ہیں۔ جب سب لوگ آئی جی پنجاب کے انتظار میں بیٹھے تھے تو ایسے میں صوبائی وزیر قانون راجہ بشارت نے اپنی پریس کانفرنس میں آپریشن کو سو فیصد درست اور ذیشان کو دہشت گرد قرار دے کر ایک بار پھر ہمارے زخموں پر نمک چھڑکا ۔ صوبائی وزیر قانون اور پنجاب حکومت کے دیگر وزراء کو اتنا بھی خیال نہیں کہ انہوں نے ایک غریب خاندان کا سہارا چھین لیا ہے اور اس دکھ کی گھڑی میں ذیشان کو دہشت گرد قرار دے کر بوڑھی والدہ اور بیوہ کو مزید تکلیف پہنچارہے ہیں۔ ذیشان کی ایک چھوٹی بچی بھی ہے ، وہ اسکول جائے گی اور بڑی ہوگی تو لوگ اُس کے باپ کو دہشت گرد قرار دیں گے ۔ ایسے میں وہ دنیا کا سامنا کیسے کرسکے گی؟ جبکہ جوان بیوہ اور بوڑھی ماں کو اس دکھ نے پہلے ہی زندہ درگور کردیا ہے۔‘‘ اویس نے بتایا کہ دونوں خاندانوں نے جے آئی ٹی رپورٹ کو مسترد کردیا ہے کیونکہ ایک ایسی جے آئی ٹی کی کوئی اہمیت نہیں، جس کی تیاری کے لئے مقتولین کی فیملیوں کے کسی ایک فرد کا بیان بھی ریکارڈ نہیں کیا گیا۔
ذرائع نے بتایا کہ جوائنٹ انٹروگیشن ٹیم کی جانب سے نہ مقتولین کے خاندانوں میںسے کسی کے ساتھ رابطہ کیا گیا بلکہ تجزیئے کے لئے کرائم سین کے نامکمل شواہد فارنسک لیبارٹری کو فراہم کئے گئے ۔ اسی طرح کئی عینی شاہدین کے بیان بھی ریکارڈ نہیں کئے گئے۔ لہٰذا جے آئی ٹی کی ابتدائی رپورٹ نامکمل اورمبہم ہے ۔ ذرائع کے مطابق جے آئی ٹی کے جائے وقوعہ کے دورے کے موقع پر عوام کی بڑی تعداد جمع ہوگئی تھی اور متعدد عینی شاہدین نے بیان ریکارڈ کرانے کے لئے اپنے نام درج کرائے تھے ۔ لیکن جب ساہیوال پولیس لائن میں گواہان کی حتمی فہرست آویزاں کی گئی اور کئی لوگوں نے گواہی دینے کی کوشش کی تو پولیس نے انہیں اجازت نہیں دی ، جس پر احتجاجی مظاہرہ بھی کیا گیا تھا۔ جبکہ بعض دیگر ذرائع کے بقول جے آئی ٹی نے جائے وقوعہ کے دورے کے موقع پر عینی شاہدین کو پولیس لائن میں آکر بیان ریکارڈ کرانے کی ہدایت کی تھی تاہم عینی شاہدین کا اصرار تھا کہ ان سے جائے وقوعہ پر ہی بیانات لئے جائیں۔ جس پر جے آئی ٹی ارکان مقامی لوگوں سے بیان لئے بغیر واپس چلے گئے تھے۔
پنجاب پولیس میں موجود بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ سانحہ ساہیوال پر بڑھنے والے ٹمپر کو ڈائون کرنے کے لئے چند پولیس افسروں کو ہٹانے اور بعض اہلکاروں کے خلاف مقدمہ چلانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ کیونکہ حکومت کو خدشہ ہے کہ جس طرح اس واقعے کو ہائی لائٹ کیا جارہا ہے اور لوگ باہر نکل رہے ہیں، اس کے نتیجے میں آنے والا بھونچال کہیں پوری انتظامیہ کو اپنی لپیٹ میں نہ لے لے۔ ذرائع کے بقول پولیس افسران کو معطل کرنے یا عہدوں سے ہٹانا اور پھر دوبارہ اُن کی بحالی معمول کی بات ہے۔ عموماً ایسے واقعات میں معاملہ ٹھنڈا ہونے پر افسران دوبارہ اپنی پوزیشنوں پر آجاتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ جن پولیس افسران کو ہٹایا گیا ہے ، ان کے خلاف تادیبی کارروائی ہوگی یا نہیں ؟ ذرائع کا دعویٰ تھا کہ مذکورہ پولیس افسران کے خلاف کسی تادیبی کارروائی کا امکان نہیں ۔ کیونکہ بعض متعلقہ حکام سمجھتے ہیں کہ اگر ان پولیس افسران کے خلاف تادیبی کارروائی کی گئی تو اس سے سی ٹی ڈی کے دیگر افسران کا مورال کم ہوگا۔ چونکہ اس وقت ملک بھر اور بالخصوص پنجاب میں انٹیلیجنس بیسڈ آپریشن کے تحت سی ٹی ڈی نمایاں کردار ادا کر رہی ہے لہٰذا افسران کے خلاف سخت قدم اٹھانے کا رسک نہیں لیا جاسکتا۔ ہٹائے جانے والے افسران میں ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی رائے طاہر شامل ہیں، جو بہت لاڈلے تصور کئے جاتے ہیں ۔ لہٰذا جس طرح نقیب اللہ محسود کیس میں رائو انوار کا کچھ نہیں بگڑ سکا تھا ، اسی طرح رائے طاہر کو بھی بظاہر کوئی خطرہ نہیں اور معاملہ دب جانے کے بعد وہ دوبارہ اپنی سیٹ پر ہونگے۔ رائے طاہر پچھلے کئی برس سے سی ٹی ڈی پنجاب کے سربراہ ہیں۔ کالعدم تنظیموں کے خلاف ہونے والے متعدد انٹیلیجنس بیسڈ آپریشنز اور مقابلوں میں براہ راست رول ادا کرتے رہے ہیں۔ پٹھان کوٹ واقعے کی تحقیقات کے لئے قائم کی جانے والی جے آئی ٹی میں بھی شامل تھے۔رائے طاہر نے سندھ سے 1993ء میں بطور اے ایس پی اپنے کیریئر کا آغاز کیا تھا۔ وہ ڈی پی او مظفر گڑھ ، ڈی پی او رحیم یار خاں اور ڈی پی او شیخوپورہ بھی رہ چکے ہیں۔ سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے بھی خاصے قریب سمجھے جاتے تھے ۔ ان کے دور میں ڈی آئی جی آپریشن بھی رہے۔ ذرائع کے بقول 2013ء میں رائے طاہر کو اس وقت ڈی آئی جی آپریشن لاہور بنایا گیا تھا ، جب اس وقت کے ڈی آئی جی آپریشن لاہور غلام محمود ڈوگر کو قبضہ گروپوں کی معاونت کرنے کے الزام پر افسر بکار خاص بناکر کھڈے لائن لگادیا گیا ۔ تاہم دلچسپ امر یہ ہے کہ ایک برس بعد رائے طاہر کو بھی اسی الزام کا سامنا کرنا پڑا، جب ایک خاتون زاہدہ علیم خواجہ نے اس وقت کے چیف جسٹس پاکستان اور وزیراعلیٰ کو درخواست دی کہ ڈی آئی جی آپریشن لاہور رائے طاہر اور ان کے بھائی رائے طارق کی ایما پرعلاقے کی پولیس ان کے گھر میں داخل ہوگئی اور انہیں بزور طاقت باہر نکال دیا۔ درخواست میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ مکان پر قبضے کی خاطر رائے طاہر اور ان کے بھائی نے زاہدہ علیم ، ان کی بہن شاہدہ بی بی اور دیگر رشتہ داروں پر جھوٹے مقدمات قائم کرکے ان کو لاک اپ بھی کیا۔ اس درخواست پر رائے طاہر کے خلاف باقاعدہ تحقیقات کا آغاز کیا گیا تھا تاہم یہ تحقیقات وقت کی گرد میں دب گئیں۔
پنجاب میں 1995ء میں قائم کئے جانے والے کرمنل انوسٹی گیشن ڈپارٹمنٹ (سی آئی ڈی) کو 2010ء میں ختم کرکے اس کی جگہ کائونٹر ٹیررزم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) قائم کیا گیا تھا۔ سی ٹی ڈی کا مقصد مختلف اداروں کی جانب سے فراہم کی جانے والی انٹیلیجنس اطلاعات پر کارروائی کرنا ہے۔ بالخصوص کالعدم اور فرقہ وارانہ تنظیموں کے دہشت گردوں پر سی ٹی ڈی خصوصی نظر رکھتی ہے ۔ فورتھ شیڈول کے ملزمان پر نگاہ رکھنا بھی سی ٹی ڈی کی ذمہ داری ہے ۔ شہری علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے لئے بارہ سو اہلکاروں کو خصوصی تربیت دے کر سی ٹی ڈی میں شامل کیا گیا تھا۔ اس وقت سی ٹی ڈی چاروں صوبوں میں کام کر رہی ہے۔ ٭