طالبان نے بگرام بیس امریکہ کو دینے سے انکار کردیا

0

محمد قاسم
افغان طالبان اور امریکا کے درمیان مذاکرات آج (جمعرات کو) بھی جاری رہنے کا امکان ہے۔ معتبر ذرائع کے مطابق طالبان نے بگرام کا فوجی اڈا امریکیوں کو دینے سے انکار کر دیا ہے۔ تاہم امریکی فوجیوں کے جولائی 2020 ء تک انخلا پر آمادگی ظاہر کر دی ہے۔ امریکی حکام نے طالبان کی جانب سے دی گئی تجاویز اپنے اعلیٰ حکام کو بھجوا دی ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ افغان طالبان امریکی صدر کے اسٹیٹس آف یونین سے خطاب سے قبل پیش رفت چاہتے ہیں، جس کی وجہ سے مذاکرات جمعرات تک جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
’’امت‘‘ کو دستیاب اطلاعات کے مطابق افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان بات چیت میں پیش رفت کی وجہ سے مذاکرات آج (جمعرات کو) بھی جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے حوالے سے ٹائم ٹیبل پر متفق ہونے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ امریکی حکام طالبان سے جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ کرنا چاہتے ہیں۔ جبکہ طالبان افغانستان کی سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہ کرنے اور امریکہ و یورپ مخالف کسی بھی مسلح تنظیم کے ساتھ تعاون نہ کرنے کے معاہدے پر رضامند ہوگئے ہیں۔ تاہم امریکی فوج کے انخلا کے حوالے سے ٹائم ٹیبل پر فی الحال اتفاق نہیں ہو سکا ہے۔ ’’امت‘‘ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکہ جولائی 2020ء تک اپنے فوجیوں کو مرحلہ وار نکالنا چاہتا ہے اور افغان طالبان نے اس پر رضامندی ظاہر کردی ہے۔ تاہم وہ بگرام اڈا امریکہ کے حوالے کرنے، افغانستان میں امریکی فوجی تنصیبات کی موجودگی، امریکی فضائیہ اور امریکی ڈرون فلیٹ کی موجودگی کے بھی حق میں نہیں ہیں اور اس نکتے پر مذاکرات میں پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔ افغان طالبان افغانستان میں امریکہ کی موجودگی کے حق میں نہیں ہیں، تاہم امریکی سفارت خانے کی سیکورٹی کیلئے امریکی فوجی رکھنے کی اجازت دینے کیلئے تیار ہیں، لیکن ان کی تعداد بھی 500 سے 800 کے درمیان ہو گی، اس سے زیادہ نہیں ہوگی۔ دوسری جانب امریکیوں کی خواہش ہے کہ بگرام اڈا ان کے حوالے کیا جائے، جہاں پانچ ہزار تک امریکی فوجی تعینات ہوں گے۔ جبکہ امریکی ڈرون اور فضائیہ کے مکمل فلیٹ بگرام میں موجود رہیں گے۔ اس حوالے سے امریکہ کا موقف ہے کہ افغان اسٹرٹیجک معاہدے کے تحت 2024 ء تک افغانستان میں اپنی فوج رکھنے کا قانونی جواز رکھتا ہے۔ یہ معاہدہ 2014ء میں صدر حامد کرزئی کے دور میں ہوا تھا، جس پر ڈاکٹر اشرف غنی نے بھی دستخط کئے ہیں۔ ذرائع کے بقول اس حوالے سے افغان طالبان کا موقف ہے کہ وہ کرزئی اور اشرف غنی کی حکومتوں کو تسلیم نہیں کرتے۔ اسی لئے غیر قانونی اور زبردستی مسلط کردہ حکومتوں کی جانب سے کئے گئے معاہدوں کی بھی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ امریکہ اور افغان حکومت کے درمیان ہونے والا اسٹرٹیجک معاہدہ افغان طالبان نے نہ پہلے تسلیم کیا تھا اور نہ آئندہ کریں گے۔ طالبان نہیں چاہتے کہ امریکہ کی فوجی موجودگی افغانستان میں جنگی کا باعث بنے۔ ذرائع کے مطابق امریکہ چاہتا ہے کہ اس کے تشکیل دیئے ہوئے وہ گروپ جو سیکورٹی کے فرائض انجام دے چکے ہیں اور امریکی اسلحہ استعمال کر رہے ہیں، وہ اسلحہ ان کے پاس رہے۔ کیونکہ ان ہلکے ہتھیاروں کی واپسی امریکہ کیلئے بہت بڑا چیلنج ہے۔ ایک گولی ایک ڈالر میں بنتی ہے اور افغانستان پہنچنے پر مزید ایک ڈالر کا خرچہ آتا ہے۔ واپسی پر یہی گولی امریکہ کو پانچ ڈالر میں پڑے گی۔ اس لئے اربوں ڈالر کا اسلحہ جو امریکی افواج سمیت اربکی ملیشیا اور پرائیویٹ سیکورٹی فرمز کے نام پر بلیک واٹر کے پاس موجود ہے، اسے واپس لے جانا امریکہ کیلئے بڑا معاشی بوجھ ہے۔ تاہم افغان طالبان کی ایک اہم شرط یہ ہے کہ امریکہ اپنا تمام اسلحہ واپس لے کر جائے گا۔ واضح رہے کہ افغان طالبان کی جانب سے آٹھ رکنی وفد مذاکرات میں حصہ لے رہا ہے۔ جبکہ امریکہ کی جانب سے پنٹا گون، سی آئی اے اور محکمہ خارجہ کے افسران پر مشتمل گیارہ رکنی افراد مذاکرات میں شامل ہے۔ تاہم قطر کا کوئی اہلکار مذاکرات میں شامل ہے اور نہ ہی دلچسپی ظاہر کر رہا ہے۔ افغان طالبان کے ذرائع کا کہنا ہے کہ جدہ میں مذاکرات اس لئے ملتوی کئے گئے تھے کہ بہت سے ممالک کے آپس میں اختلافات تھے اور بعض ممالک افغانستان کے سلامتی کے مشیر حمداللہ محب کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے رابطے تھے۔ طالبان کا موقف تھا کہ وہ خلیجی ممالک اور خطے کے دیگر ملکوں کے باہمی اختلافات میں حصہ دار نہیں بننا چاہتے۔ اس لئے قطر میں مذاکرات کا فیصلہ کیا گیا۔ قطر افغان طالبان کو صرف سہولت فراہم کر رہا ہے۔ جبکہ دیگر ممالک بالا دست قوت بننے کیلئے افغان طالبان کے معاملے کو اپنے اختلافات کا حصہ بنانا چاہتے تھے۔ ذرائع کے مطابق اگر افغان طالبان اور امریکا کے درمیان مذاکرات میں پیش رفت ہو جاتی ہے تو امریکی صدر اسٹیٹ آف دی یونین خطاب میں یک طرفہ اعلان نہیں کریں گے۔ تاہم امریکی فوجی حکام کو خدشہ ہے کہ اگر مذاکرات میں پیشرفت نہیں ہوئی تو امریکی صدر افغانستان سے نکلنے کا یک طرفہ اعلان کر سکتے ہیں۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More