سرکاری افسران مقتول ذیشان کو دہشت گرد قرار دینے کے لئے کوشاں

0

نمائندہ امت
ساہیوال میں سی ٹی ڈی پولیس کی فائرنگ سے جاں بحق ہونے والے ذیشان حیدر کو سرکاری حکام کے ساتھ ساتھ صوبائی وزرا بھی دہشت گرد قرار دینے کے لئے کوشاں ہیں۔ جے آئی ٹی رپورٹ سے قبل الزامات لگاکر اپنی کوتاہی چھپانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جبکہ بعض چینلز اور وزرا بھی ان سرکاری حکام کے ہمنوا بن گئے ہیں۔ لیکن دوسری جانب غیر جانبدار حلقے اب تک ذیشان پر عائد الزامات کی تصدیق کرنے سے گریزاں ہیں۔ تحریک انصاف کی رکن قومی اسمبلی عندلیب عباس کا ذیشان کے خاندان سے پندرہ، بیس برس پرانا تعلق ہے۔ ذیشان کی والدہ عندلیب عباس کی جٹھانی کے گھر گھریلو کام کاج کرنے آتی تھیں اور ذیشان اکثر اپنی والدہ کے ہمراہ ان کے گھر آتا تھا۔ اس وقت سے عندلیب عباس اس غریب اور محنتی خاندان کو جانتی ہیں۔ تاہم اب عندلیب عباس مقتول ذیشان حیدر کے بارے میں کوئی حتمی رائے دینے سے قاصر ہیں۔ ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے رکن قومی اسمبلی عندلیب عباس نے کہا کہ… ’’زیادہ مناسب یہ ہے کہ ساہیوال واقعے سے متعلق پنجاب حکومت کی جانب سے تشکیل دی گئی جے آئی ٹی کی مفصل رپورٹ آنے کا انتظار کیا جائے۔ اس کے بعد واضح ہوجائے گا کہ ذیشان کا کیا کردار تھا اور یہ واقعہ کیسے اور کیوں پیش آیا۔ جہاں تک ذیشان کا تعلق ہے، تو ممکن ہے بچپن میں جب وہ آٹھ دس سال کا تھا، اس کی مجھ سے ملاقاتیں بھی ہوئی ہوں۔ کیونکہ اس کی والدہ میری جٹھانی کے گھر کام کرتی تھیں۔ ذیشان کی والدہ نہایت شریف اور محنتی خاتون تھیں۔ اسی وجہ سے ان کی مجھ سے قربت تھی اور وہ مجھ سے ملتی رہتی تھیں۔ جبکہ میں اللہ کی توفیق سے ان کی مدد بھی کرتی تھی۔ پندرہ بیس برس قبل ہمیں اس خاتون یا اس کے بچوں سے کبھی کوئی شکایت نہیں ہوئی‘‘۔ عندلیب عباس کا کہنا تھا کہ ’’جب بچے بالغ ہو جاتے ہیں تو بعض اوقات والدین کو بھی علم نہیں ہوتا کہ ان کے بچوں کی کن لوگوں سے دوستیاں ہیں اور ان کی سرگرمیاں کیا ہیں۔ اس لیے میں ذیشان حیدر کے کردار کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتی۔ چونکہ یہ کیس اب جے آئی ٹی کے سامنے ہے، جس میں معتبر اداروں کے تجربہ کار اور زیرک افسران شامل ہیں، اس لئے ان کی رپورٹ کا انتظار کرنا چاہیے اور اس حوالے سے کسی بھی قسم کی قیاس آرائی سے گریز کیا جائے تو بہت بہتر ہوگا‘‘۔ ایک سوال پر عندلیب عباس نے بتایا کہ ’’میری جٹھانی اور ہمارا گھر لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں تھا۔ جب ذیشان کی والدہ ان کے گھر میں کام کرتی تھیں۔ میرا بھی ان سے میل جول تھا، لیکن اب گزشتہ کئی برسوں سے ان سے اس طرح کا رابطہ نہیں ہے‘‘۔
پاکستان تحریک انصاف کے لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ’’امت‘‘ کو بتایا کہ بعض سرکاری افسران اپنی کوتاہی چھپانے کے لیے ذیشان حیدر کے غریب خاندان کو قربانی کا بکرا بنا رہے ہیں، جس کا جواں سال بیٹا پہلے ہی قتل کیا جا چکا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں اس پی ٹی آئی رہنما کا کہنا تھا کہ ’’ہماری حکومت کے بعض وزرا نے بلا وجہ اس معاملے میں بیان بازی کر کے پارٹی پوزیشن بھی خراب کی ہے۔ جس کا اظہار گزشتہ روز قومی اسمبلی میں پارٹی کے پارلیمانی اجلاس میں چیئرمین عمران خان نے بھی کیا۔ وزیر اعظم نے پارٹی کے ان افراد کے بارے میں ناراضگی کا اظہار کیا، جنہوں نے معاملے کی حقیقت کو سمجھے بغیر سی ٹی ڈی اور دیگر سرکاری افسران کے موقف کو حکومت کا موقف بناکر پیش کیا اور حقائق جاننے کی کوشش نہیں کی‘‘۔ ایک اور سوال پر تحریک انصاف کے اس رہنما نے کہا کہ ذیشان دہشت گرد تھا یا نہیں، اس کا فیصلہ تو جے آئی ٹی رپورٹ یا جوڈیشل کمیشن کرے گا، جس کی تشکیل پر غور ہو رہا ہے۔ لیکن قابل غور اصل مسئلہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کے دور حکومت میں بھی کائونٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ اور پنجاب پولیس کا رویہ اور طریقہ کار وہی ہے، جو شہباز شریف کے دور حکومت میں تھا اور ہم اس کی شدید مذمت کرتے رہے ہیں۔ اب ان اداروں کا سفاک رویہ بدلنے کیلئے تحریک انصاف حکومت کیا کر رہی ہے؟ کیا کرے گی؟ اس پر بھی کام کیا جانا چاہئے۔ ہمارے وزرا اور میڈیا ترجمان حقائق جانے بغیر غریب خاندان کیخلاف سرکاری افسران کے موقف کو پوری قوم پر مسلط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں‘‘۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More