عباس ثاقب
بستر پر دراز ہونے کے کافی دیر تک میں انتظار کرتا رہا لیکن بشن دیپ کو شاید میری تجویز کے حوالے سے اپنے بڑے بھائی کو اعتماد کا موقع نہیں مل سکا۔ ان کی آمد کے کوئی آثار نہ دیکھ کر بالآخر میں نے نیند کی آغوش میں پناہ لی۔ دیر سے سونے کے باوجود میں حسبِ معمول وقت پر بیدار ہوگیا۔ کچھ ہی دیر میں نیرج بھی نازل ہوگیا۔ اس نے گرم پانی مہیا کردیا۔ میں اطمینان سے غسل کرکے آیا تو دیکھا کہ ناشتے کے ساتھ امردیپ اور بشن دیپ بھی میرا انتظار کررہے ہیں۔
انہوں نے شاید جان بوجھ کر نیرج کو ادھر ادھر کردیا تھا۔ کیونکہ ان کی وہاں موجودگی کے دوران وہاں نہیں آیا تھا۔ مجھے دیکھتے ہی امردیپ اٹھ کر کھڑا ہوگیا اور گرم جوشی سے مجھ سے لپٹ گیا ’’تیغ بہادر بھائی، میں حیران ہوں کہ یہ بات اب تک ہماری تحریک کے بڑوں کے ذہن میں کیوں نہیں آئی؟ کشمیری آزادی پسندوں اور خالصہ قوم کی مشکلات و مسائل بڑی حد تک مشترک ہیں۔ ان کا اتحاد تو دونوں کے لیے بہت فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے۔ بشن دیپ نے جوکچھ بتایا، وہ تو بہت دل گرما دینے والا ہے۔‘‘
میں نے کہا ’’اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ تو پھر آپ یہ تجویز لے کر بشن دیپ کے ساتھ ڈاکٹر جگجیت سنگھ چوہان کے پاس جارہے ہیں ناں؟‘‘
امردیپ نے پُر جوش انداز میں سر ہلایا ’’ہاں بھائی، میں نے نیرج کو جیپ تیار کرنے پر لگا رکھا ہے۔ تم ناشتہ کرلو، اتنی دیر میں وہ فارغ ہوکر آجائے گا اور ہم دونوں ہوشیارپور کی طرف روانہ ہوجائیں گے۔ تم فکر نہ کرو، ڈاکٹر صاحب ہمیں اچھی طرح جانتے ہیں۔ انہیں اعتماد میں لینے میں ہمیں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔ امید ہے کوئی اچھا نتیجہ ہی برآمد ہوگا۔ تم یہ بتاؤ، اگر ڈاکٹر صاحب اس کشمیری لڑاکے… کیا نام بتایا تھا؟ ذاکر کو ملاقات کے لیے بلوائیں تو وہ کتنے دن میں پہنچ جائے گا؟‘‘
میں نے کہا ’’وہ آج ہی کشمیر روانہ ہوا ہوگا۔ لیکن میرا خیال ہے ایک ہفتے میں وہ ملاقات کے لیے دستیاب ہوجائے گا۔ بس آپ ڈاکٹر صاحب کو یہ یقین دلائیے گا کہ ہم ذاکر پر مکمل اعتماد کرسکتے ہیں۔ وہ دیگر کشمیری مجاہد گروہوں سے رابطے کے کام بھی آسکتا ہے۔‘‘
امر دیپ نے کہا ’’تم فکر نہ کرویار، میں سب سنبھال لوں گا۔ اگر ضرورت پڑی تو میں تمہیں بھی ڈاکٹر صاحب سے ملوانے کے لیے لے جاؤں گا۔‘‘
میں نے کہا ’’بہت خوب، ایسا ہوجائے تو مزا آجائے گا۔‘‘
اس دوران میں ناشتے سے پورا انصاف کررہا تھا۔ وہ دونوں ناشتا کرکے آئے تھے۔ چنانچہ میرے اصرار کے باوجود انہوں نے میرا ساتھ نہیں دیا۔ میں ابھی پیٹ بھرکے فارغ ہی ہوا تھا کہ نیرج آن دھمکا ’’گاڑی بالکل فٹ فاٹ حالت میں آپ کا انتظار کررہی ہے سرکار۔‘‘ اس نے امردیپ کو اطلاع دی ’’فالتو ٹائر میں بھی ہوا پوری ہے۔ واہگرو کی کرپا سے آپ کو راستے میں شکایت کا موقع نہیں ملے گا۔‘‘
اس کی طولانی وضاحت کے جواب میں امردیپ نے کہا ’’او یار مجھے سب پتا ہے، ہر دس دن بعد چیکنگ کے لیے مکینک کے پاس اسی لیے تو جاتی ہے۔ ہم رات تک واپس آئیں گے۔ تم اس دوران بہادر بھائی کا خیال رکھنا۔‘‘
نیرج کی طرف سے حکم کی تعمیل کی یقین دہانی حاصل کرنے کے بعد امردیپ نے اسے رخصت کردیا اور پھر مجھ سے کہا ’’ہم نے پتا جی کو بتایا ہے کہ ہم نئی اقسام کی کھادیں متعارف کرانے کی ایک تقریب میں شرکت کے لیے چندی گڑھ جارہے ہیں اور رات کو ہماری واپسی ہوگی۔ یہ میں اس لیے بتارہا ہوں کہ اگر آپ سے ذکرہو تو آپ کو ہماری خیالی منزل کا پتا ہونا چاہیے۔‘‘
میں نے انہیں یقین دلایا کہ میں اس بات کا خیال رکھوں گا۔ میں انہیں رخصت کرنے کے لیے جیپ تک گیا تو دیکھا باہر بچوں نے کرکٹ کا میدان سجایا ہوا ہے۔ مجھے دیکھتے انھوں نے شور مچا دیا کہ آئو، ہمارے ساتھ کھیلو، انہوں نے بمشکل مجھے امردیپ اور بشن دیپ کو رخصت کرنے کا موقع دیا۔
میں کمرے میں واپس جاکر اس معاملے پر مزید غور کرنا چاہتا تھا۔ لیکن مانو اینڈ کمپنی سے جان چھڑانا آسان نہیں تھا، مجبوراً مجھے لگ بھگ دو گھنٹے تک بچوں کے ساتھ حویلی کے احاطے میں کرکٹ کھیلنی پڑی جس کے ناظرین میں سردار براہم دیپ شامل تھے۔ خدا خدا کرکے خلاصی ملی تو میں اپنے کمرے میں چلا گیا۔ میں نے بستر پر دراز ہوکر سوچ بچار کرتے لگ بھگ ڈیڑھ گھنٹے آرام کیا ہوگا کہ نیرج دوپہر کا کھانا لے آیا۔
کھانے سے فارغ ہوکر میں ایک بار پھر صورتِ حال پر غور کرنے لگا۔ حقیقت یہ ہے کہ امردیپ کے گھر کا رخ کرتے ہوئے میرے ذہن میں کشمیر اور خالصتان کے حریت پسندوں میں اشتراک قائم کرنے کا دور دور تک کوئی خیال نہیں تھا۔ لیکن بشن دیپ سے گفتگو ایسے رخ پر چلی کہ یہ زاویہ میرے ذہن میں واضح سے واضح تر ہوتا چلاگیا اور اب تو یہ مجھے دونوں فریقوں کے لیے ایک انتہائی مفید اور قابلِ عمل معاملہ لگ رہا تھا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭