سندھ حکومت کی جانب سے شادی ہال گرانے کے نوٹسز واپس لئے جانے کے اعلان پر شادی ہال مالکان وقتی اطمینان تو محسوس کر رہے ہیں۔ تاہم بیشتر کا خیال ہے کہ عدالتی احکامات پر عمل درآمد کا خطرہ ٹلا نہیں ہے اور اگر ریویو پٹیشن مسترد ہوگئی تو یہ ایشو دوبارہ سر اٹھائے گا۔ اس ممکنہ صورتحال کا سامنا کرنے کے لئے شادی ہال مالکان کی ایسوسی ایشن نے مختلف حکمت عملیاں طے کر رکھی ہیں۔ ان میں سرفہرست حکمت عملی شادی ہال گرانے والے عملے اور اس عملے کو سپورٹ کرنے والی پولیس کے خلاف مزاحمت سے متعلق ہے۔ ایسوسی ایشن کے ذرائع نے بتایا کہ اگر اتوار کو نوٹسز واپس لینے کا اعلان نہیں کیا جاتا اور سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) کی ڈیمالیشن ٹیمیں پولیس کی سرپرستی میں شادی ہال گرانے آجاتیں تو مالکان سمیت شادی ہال کے دو ہزار سے زائد ذمہ داران نے بھرپور مزاحمت کا فیصلہ کر رکھا تھا۔ اس کے نتیجے میں خون خرابہ بھی ہوسکتا تھا۔ لیکن سندھ حکومت کی جانب سے چونکہ بروقت نوٹسز واپس لینے کا اعلان کردیا گیا۔ لہٰذا شادی ہال مالکان نے بھی ہڑتال کی کال واپس لے لی۔ تاہم فیصلے پر عملدرآمد کی صورت میں شادی ہال مالکان کا کائونٹر پلان اپنی جگہ موجود ہے۔ کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ڈیمالیش کی تھریٹ حتمی طور پر ختم نہیں ہوئی ہے۔
واضح رہے کہ شادی ہالز ایسوسی ایشن نے میرج ہال گرائے جانے کے نوٹسز جاری ہونے پر کراچی کے تمام شادی ہال بند کرنے کا اعلان کیا تھا۔ تاہم وزیر بلدیات سندھ سعید غنی کی مداخلت اور بعد ازاں وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے احکامات پر یہ نوٹسز واپس لے لئے گئے۔ جس پر ہڑتال کی کال بھی موخر کر دی گئی تھی۔ عدالتی فیصلے کی روشنی میں آج (پیر) سے کراچی میں شادی ہال گرانے کا عمل شروع کیا جانا تھا اور تین روز میں اس آپریشن کو مکمل ہونا تھا۔
ذرائع نے بتایا کہ اگر شادی ہال گرانے سے متعلق فیصلہ حتمی طور پر واپس نہیں لیا گیا تو پھر متعلقہ صوبائی ادارے بھی شادی ہال مالکان کے احتجاج کو پس پردہ سپورٹ کریں گے۔ کیونکہ یہ صوبائی ادارے بھی شادی ہال گرانے کے فیصلے کو زیادتی تصور کر رہے ہیں۔ جبکہ اب یہ معاملہ سیاسی رنگ بھی اختیار کرگیا ہے۔ لہٰذا سٹی گورنمنٹ اور صوبائی حکومت دونوں نہیں چاہتیں کہ اس فیصلے کا حصہ بنیں۔ کیونکہ اس کے نتیجے میں ان کا ووٹ بینک مزید متاثر ہو سکتا ہے۔ لہٰذا اگر فیصلہ برقرار رہنے کی صورت میں شادی ہالوں کو گرانے کا مرحلہ آگیا تو مظاہرین کو وہی ریلیف دیا جاسکتا ہے، جو عمران خان کے دھرنے کے دوران پی ٹی آئی مظاہرین کو دیا گیا تھا۔ یوں حالات بگڑنے کی صورت میں ساری انگلیاں فیصلہ کرنے والوں کی طرف اٹھیں گی۔
ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ جس طرح شادی ہال مالکان کی ہڑتال کی کال پر بھونچال آیا اور ساری صوبائی مشینری حرکت میں آگئی۔ اس سے شادی ہال مالکان کو اپنی طاقت کا انداز ہوگیا ہے۔ لہٰذا ممکنہ آپریشن کی صورت میں وہ زیادہ جذبے کے ساتھ مزاحمت کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔ اور ان کے خیال میں اس عوامی ایشو پر تقریباً تمام مکتبہ فکر کے لوگوں کی ہمدریاں ان کے ساتھ ہیں۔ شادی ہال ایسوسی ایشن کے مطابق کراچی میں 900 سے زائد میرج ہال اور لان ہیں۔ ان میں سے متعدد گرائونڈ پلس ون یا گرائونڈ پلس ٹو بھی ہیں۔ اگر اتوار کی کال برقرار رہتی تو صرف ایک روز میں تقریباً ایک ہزار سے زائد شادیاں ملتوی ہوجاتیں۔
کیونکہ دسمبر اور جنوری سیزن کے مہینے ہوتے ہیں۔ پھر اتوار کا دن تھا تو شہر کے تمام شادی ہال اور لان بک تھے۔ یوں ایک ہزار شادیاں ملتوی ہونے کی صورت میں کروڑوں روپے کا کھانا ضائع ہوجاتا۔ فلاور والے رل جاتے۔ کولڈ ڈرنک والے بھی روتے۔ ڈیکوریشن والوں کے آرڈر کینسل کرنے پڑتے۔ بیوٹی پارلرز کی بکنگ منسوخ ہوجاتیں۔ یعنی ایک بھونچال آجاتا۔ ذرائع کے بقول اس ممکنہ خوفناک سیناریو کو دیکھتے ہوئے ہی صوبائی حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پڑے اور فوری طور پر صوبائی وزیر بلدیات سعید غنی نے شادی ہال ایسوسی ایشن کے ذمہ داران سے رابطہ کیا۔ ایسوسی ایشن کے ایک عہدیدار کے بقول ہڑتال کے اعلان سے قبل صورتحال یہ تھی کہ کوئی ان کی بات سننے کو تیار نہیں تھا۔ نہ وزیر بلدیات لفٹ کرارہے تھے اور نہ ایس بی سی اے کے حکام بات کرنے کے موڈ میں تھے۔ تاہم جیسے ہی ہڑتال کا اعلان ہوا تو افراتفری مچ گئی اور صوبائی حکام خود آکر ملاقات کرنی پڑی۔
ادھر سندھ حکومت شادی ہال گرانے سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی اپیل کے لئے قانونی مشاورت کر رہی ہے اور اطلاع ہے کہ آنے والے چند دنوں میں یہ ریویو پٹیشن دائر کر دی جائے گی۔ سپریم کورٹ نے شادی ہال مسمار کئے جانے سے متعلق رپورٹ تیس دن میں جمع کرانے کی ہدایت کر رکھی ہے۔ ذرائع کے بقول نظر ثانی کی اپیل میں صوبائی حکومت اپنے وکیل کے ذریعے یہ نکتہ اٹھائے گی کہ رفاہی پلاٹوں پر تعمیر شادی ہال چاہے گرادیئے جائیں اور گرائے بھی جا رہے ہیں۔ تاہم جو شادی ہال پالیسی اور قوانین کے تحت رہائشی سے کمرشل اسٹیٹس پر منتقل ہوئے، انہیں برقرار رہنے دیا جائے۔ کیونکہ اس پالیسی کو ہائی کورٹ نے بھی تسلیم کیا تھا۔ اس حوالے سے موقف لینے کے لئے صوبائی وزیر بلدیات سعید غنی سے متعدد بار فون پر رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن بات نہیں ہوسکی۔ ذرائع نے بتایا کہ اسپتالوں، اسکولوں اور پارکوں کے رفاہی پلاٹوں پر تعمیر کئے جانے والے تیس سے چالیس میرج ہالز اب تک گرائے جاچکے ہیں، اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ تاہم اب ایسے شادی ہالوں کو مسمار کرنے کا حکم بھی دیا گیا ہے، جو رہائشی پلاٹوں پر تو واقع ہیں۔ تاہم سٹی کونسل اور صوبائی حکومت سے منظور ہونے والے قوانین کے تحت ان شادی ہالز کے مالکان نے یا تو تعمیر سے پہلے اپنے پلاٹوں کو کمرشل کروالیا تھا، یا پھر تعمیر کے بعد کمرشل اسٹیٹس حاصل کیا۔
کراچی شادی ہالز ایسوسی ایشن کے ممبر منیجنگ کمیٹی اور سیکریٹری اطلاعات محمد اشرف نے بتایا کہ سندھ حکومت کی جانب سے نوٹسز واپس لئے جانے کے اعلان کے باوجود اتوار کے روز بھی تین چار شادی ہالز کو یہ نوٹسز موصول ہوئے ہیں۔ تاہم ایسوسی ایشن کے ذمہ داران کا خیال ہے کہ وزیر اعلیٰ کی سطح پر کئے جانے والے فیصلے کے بعد اس قسم کے نوٹسز ایس بی سی اے کے نچلے درجے کے عملے کی شرارت ہوسکتی ہے، تاکہ مال بنایا جاسکے۔ محمد اشرف نے تصدیق کی کہ اگر سندھ حکومت ان کی بات نہ سنتی تو پھر شادی ہال گرانے کے لئے آنے والی ٹیموں اور پولیس اہلکاروں کے ساتھ تصادم یقینی تھا۔ اور خانہ جنگی جیسی صورتحال پیدا ہوسکتی تھی۔ کیونکہ کروڑوں روپے انویسٹ کرنے والے شادی ہال مالکان اپنے بچوں کے رزق کے لئے لڑنے مرنے سے گریز نہیں کریں گے۔ اگرچہ سندھ حکومت کے فیصلے سے فوری خطرہ ٹلا ہے۔ تاہم یہ خطرہ حتمی طور پر ختم نہیں ہوا ہے۔ ایسوسی ایشن نے تمام معاملے پر گہری نظر رکھی ہوئی ہے۔ اگر آنے والے دنوں میں فیصلے پر عملدرآمد کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو پوری طاقت سے مزاحمت کی جائے گی۔
Prev Post