عظمت علی رحمانی
تحریک انصاف نے کراچی کو 69 سال پہلے والی حالت میں لانے کا مطالبہ کر کے شہر میں اپنا سیاسی مستقبل خطرے میں ڈال لیا ہے۔ دوسری جانب پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے شہریوں کو بے گھر اور بے روزگار ہونے سے بچانے کیلئے سودے بازی نہ کرنے کا تہیہ کرلیا ہے۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے حکم کے بعد جسٹس گلزار احمد کی جانب سے حکم دیا گیا ہے کہ کراچی کو 1950ء والی صورتحال میں واپس لایا جائے اور تمام رہائشی پلاٹس پر تعمیر ہونے والی کمرشل بلڈنگز کو گرایا جائے۔ اس حوالے سے سب سے اہم ادارے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل افتخار احمد قائمخانی کو حکم دیا گیا کہ وہ متعلقہ کمرشل بلڈنگز کی رپورٹ دیں اور کارروائی کرنے کے حوالے سے 15 روز میں رپورٹ جمع کرائیں۔ جس کے بعد وزیر بلدیات سعید غنی نے کہا کہ سندھ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ چونکہ ایسی تمام عمارتوں کو رہائشی سے کمرشل کرنے کا حکم عدالتوں سے ملا تھا، جس کے بعد لوگوں نے اپنے گھر اور دکانیں بنائیں۔ لہذا وہ کسی کا گھر نہیں گرائیں گے۔ اسی طرح کا موقف ایم کیو ایم پاکستان اور میئر کراچی وسیم اختر کا بھی تھا، جبکہ پاکستان تحریک انصاف نے دونوں جماعتوں پر اس حوالے سے کڑی تنقید کی ہے۔
اسی حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی سندھ کے جنرل سیکریٹری وقار مہدی کا ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’’پی ٹی آئی کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مترادف کام کر رہی ہے۔ جب بنی گالا ریگولرائز ہو سکتا ہے تو پھر کراچی کے عوام کیلئے کے ساتھ ایسا سلوک کیوں؟ اس دوہرے نظام سے انصافیوں کے دعوؤں کی قلعی کھل رہی ہے۔ دوہرا معیار معاشرے میں انتشار کا سبب بن رہا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ پی ٹی آئی کو درد کیوں لاحق ہے۔ کیونکہ کراچی کت باشعور عوام پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کو مسترد کر چکے ہیں۔ پی ٹی آئی کے خود ساختہ لیڈر کراچی سے ووٹ نہ ملنے کا بدلہ کراچی کی عوام سے لے رہے ہیں۔ درحقیقت پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ عوام کے سروں سے چھت اور روزگار چھینا جارہا ہے، جس پر وفاقی حکومت کی خاموشی لمحہ فکریہ ہے‘‘۔ پیپلز پارٹی ضلع شرقی کے سیکریٹری اطلاعات وقاص شوکت کا کہنا تھا کہ ’’پہلے ہی پی ٹی آئی کی نالائق حکومت کی پالیسیوں کے سبب غریب آدمی مہنگائی کی چکی میں پھنس کر رہ گیا ہے۔ اوپر سے انہیں بے سر و ساماں کرنا کہاں کا انصاف ہے؟ پی ٹی آئی اپنی شاہانہ طرز حکمرانی سے نیچے اترے اور عوام کے درمیان آکر ان کے مسائل حل کرے اور اپنے وعدے اور دعوؤں کی لاج رکھتے ہوئے عوامی فلاح پر دھیان دے۔ یہ بات تو پی ٹی آئی بھی جانتی ہے کہ انجینئرنگ کے ذریعے ان کو اقتدار تو مل گیا، مگر عزت پانے کیلئے انہیں اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنا پڑے گی‘‘۔
’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے امیرجماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن کا کہنا تھا کہ ’’کراچی میں 500 عمارتیں گرانے کی اطلاعات پر گہری تشویش ہے۔ کے ایم سی نے پہلے ہی مارکیٹوں اور دکانوں کو مسمار کرکے ہزاروں شہریوں کو بے روزگار کردیا اور اب مزید لاکھوں شہریوں کو بے گھر اور بے روزگار کرنے کی باتیں ہورہی ہیں۔ 500 عمارتیں گرانے سے شہر میں انسانی المیہ جنم لے گا۔ ماضی میں ماسٹر پلان کا محکمہ سٹی گورنمنٹ کے پاس تھا۔ ہزاروں عمارتیں اجازت کے بغیر تعمیر ہوتی رہیں۔ مختلف محکمے انہیں سہولیات فراہم کرتے رہے۔ جب رہائشی پلاٹس کو کمرشل کیا جارہا تھا، تب متعلقہ اداروں نے کیوں روک تھام نہیں کی؟ صورتحال یہ ہے کہ سٹی حکومت اب تک تجاوزات کے نام پر مسمار کی جانے والی دکانوں کے مالکان کو قانونی معاملات کے باعث متبادل دکانیں فراہم نہیں کرسکی تو کس طرح مزید ہزاروں لوگوں کو متبادل جگہ چند دنوں یا چند ماہ میں دے سکے گی؟‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’پارکوں، میدانوں اور رفاعی پلاٹوں پر قبضہ کرنے والوں کے خلاف اب تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ لیکن شہریوں کی دکانوں، مارکیٹوں اور ان کے گھروں کو مسمار کرنے کی باتیں ہورہی ہیں۔ پارکوں کو واگزار کرانا سٹی گورنمنٹ کا کام ہے اور یہ اس کو کرنا چاہئے۔ جن لوگوں نے چائنا کٹنگ کے نام پر قبضہ کیا اور پارکوں اور میدانوں کی اراضی کو لیز کر کے فروخت کردیا، انہیں بھی کٹہرے میں لایا جائے اور ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جائے۔ شہر میں اب تک مسمار کی گئی عمارتوں کا ملبہ موجود ہے، مزید ملبے کے ڈھیر سے شہریوں کی زندگی اجیرن ہوجائے گی‘‘۔
ادھر سندھ کی حکمراں جاعت پیپلز پارٹی اور بلدیاتی سیٹ اپ میں موجود حکمران جماعت ایم کیو ایم پاکستان، دونوں ہی کراچی میں بلڈنگوں پر گرانے پر اتفاق نہیں رکھتیں۔ تاہم پاکستان تحریک انصاف اس حوالے سے عوام کے بجائے دوسری جانب کھڑی نظر آتی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنما و اپوزیشن لیڈر فردوس شمیم نقوی اور صدر پی ٹی آئی کراچی خرم شیر زمان نے پیپلز پارٹی اور سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیر بلدیات سعید غنی کا استعفیٰ دینے کا اعلان ایک ڈرامہ ہے۔ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ان ہی کے دائرہ اختیار میں ہے۔ سعید غنی بتائیں کہ شادی ہال مسمار کرنے کے آرڈر پاس کیسے ہوئے؟ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی میں چور بیٹھے ہیں۔ پہلے منظور کاکا تھے، اب افتخار قائم خانی ہیں۔ سندھ حکومت نے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو ٹھیکے پر دیا ہوا ہے۔ کوئی بھی بلڈنگ ایس بی سی اے کی منظوری کے بغیر نہیں بنائی جا سکتی۔ سپریم کورٹ کے 24 تاریخ کے آرڈر میں تحریر ہے کہ تمام متعلقہ اداروں سے رابطہ بھی کریں گے اور اس شہر کو اس کی ماضی کی حالت میں لائیں گے۔ فردوس شمیم نقوی کا کہنا تھا کہ ’’وزیر بلدیات اور میئر کراچی کو مناظرے کاچیلنج کرتا ہوں۔ غلط ثابت ہوئے تواستعفیٰ دیں یا میں دوں گا‘‘۔ صدر پی ٹی آئی کراچی خرم شیر زمان کا کہنا تھا کہ ’’وہ سیاسی لوگ جنہوں نے اس شہر کو برباد کیا، وہ اب ہمدردی دکھا رہے ہیں۔ چیف جسٹس اس شہر کی بربادی کے ذمہ داروں کو پکڑیں۔ اس شہر کو برباد کرنے کی سب سے بڑی ذمہ داری موجودہ سندھ حکومت کی ہے۔ عدلیہ سب فیصلے ٹھیک کر رہی ہے جنہیں غلط رنگ دیا جارہا ہے۔ جسٹس گلزار سے اپیل ہے کہ جنہوں نے ان کے احکامات کا غلط فائدہ اٹھایا ہے، ان کے خلاف ایکشن لیا جائے‘‘۔