سدھارتھ شری واستو
مغل شہنشاہ شاہجہاں کے تعمیر کردہ تاج محل پر ہزاروں بندروں کی حکومت قائم ہوگئی ہے۔ ہندو دھرم کے نزدیک ’’ہنومان‘‘ کہلائے جانے والے مکائو نسل کے یہ بندر تاج محل اور اس کے اطراف اپنا ڈیرہ جما چکے ہیں اور روزانہ سیاحوں سے کر لوٹ مار کر رہے ہیں۔ بندر جب اور جہاں چاہتے ہیں ٹولیوں کی شکل میں حملہ کرکے سیاحوں کا سامان چھین لیتے ہیں، بلکہ مزاحمت کرنے پر ’’بندر راجائوں‘‘ کا غصہ انتہا پر پہنچ جاتا ہے اور وہ اس سیا ح کی درگت بنا دیتے ہیں۔ انتہا پسند وزیر اعلیٰ یوگی آدتیا ناتھ کی حکومت نے آگرہ کی اس تاریخی عمارت میں موجود بندروں کو بھگانے کیلئے اگرچہ غلیل بردار پولیس اہلکاروں کے جتھے تعینات کئے ہیں لیکن یہ تمام غلیل بردار اس سلسلہ میں بندروں کے آگے بے بس دکھائی دیتے ہیں جو ہندو انتہا پسندوں کی ناراضی کے خوف سے بندروں کو غلیل سے غلہ بھی نہیں مار سکتے۔ بھارتی محکمہ آثار قدیمہ آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے بعض افسران اور اہلکاروں نے نام نہ ظاہرکرنے کی شرط پر کہا ہے کہ بندر اس قدر مسائل کا سبب ہیں کہ ان سے تاج محل کی خوبصورتی اور تاریخی اہمیت کو نقصانات ہورہے ہیں۔ لیکن بھارتیہ جنتا پارٹی کی ریاستی حکومت نے ان مسائل سے آنکھیں چرا رکھی ہیں۔ اس وقت محتاط اندازہ کے مطابق کئی سو بندر تاج محل کی عمارت میں رین بسیرا کررہے ہیں اور شام ہونے سے پہلے ہی بندروں کی کھیپ اپنے بچوں کے ساتھ عمارت کے اندر گھس بیٹھتی ہے اور سردیوں کے سبب اگلی صبح دھوپ چڑھنے تک بندروں کے تمام خاندان یہیں ’’قیام‘‘ کرتے ہیں۔ تاج محل کے احاطہ میں تعینات ’’آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا‘‘ کے بعض ملازمین کا کہنا ہے کہ ہزاروں بندر تاج محل کے احاطہ میں گندگی کر رہے ہیں، جس سے سیاحوں میں بد دلی اور نفرت پیدا ہو رہی ہے۔ جبکہ متعدد سیاحوں نے خود پر حملوں اور زخمی کئے جانے پر مستقبل میں اس شاندار عمارت کی سیاحت کیلئے آنے سے بھی کان پکڑ لئے ہیں۔ بھارتی میڈیا نے بتایا ہے کہ کیوبا سے آنے والے ایک سیاح نے شکایت کی ہے کہ ایک بندر اس کا کیس چھین کر بھاگ گیا ہے جس میں کیوبن کرنسی اور ڈالر بھی تھے۔ دو آسٹریلوی سیاح خواتین نے تاج محل میں آمد پر بندروں کی جانب سے سامان کے تھیلے چھینے جانے اور مزاحمت پر کاٹ لئے جانے کی شکایات درج کروائی ہیں لیکن اس ضمن میں آگرہ پولیس سمیت سیکورٹی ایجنسی کا ماننا ہے کہ وہ ’’ہنومان کے تقدس‘‘ کے سبب ان کیخلاف بندوق نہیں اٹھا سکتے اور بڑے سائز کے لنگوروں کو بھی اسی لئے ’’تعینات‘‘ نہیں کرسکتے کہ مکائو بندروں کی تعداد ہزاروں میں ہے اور اگر ان کے دشمن بڑے سائز کے سیاہ منہ والے لنگوروں کو یہاں چھوڑا گیا تو تاج محل کا سکون غارت ہوجائے گا، کیونکہ لنگوروں اور مکائو بندروں کی آپس میں دشمنی ہے۔ تاج محل کی سیکورٹی پر تعینات سینٹرل انڈسٹریل سیکورٹی فورس کے ڈائریکٹر نے ایک پریس بریفنگ میں تصدیق کی ہے کہ بندروں کی ایک بہت بڑی تعداد تاج محل کے اطراف اور اندر آباد ہے اور وہ کسی سے بھی ڈر یا خوف نہیں کھا رہے ہیں اور سیاحوں کیلئے بڑے مسائل کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ یہ بندر سیاحوں کا غذائی سامان اور کیمرے یا موبائل فونز تک چھیننے سے باز نہیں آرہے ہیں اور گزشتہ ایک ماہ میں ان بندروں نے 120 سیاحوں کو کاٹا ہے جس پر ان سیاحوں کو طبی امداد کیلئے مقامی اسپتالوں کا رُخ کرنا پڑا۔ بھارتی سیکورٹی کمانڈر ہمانشو روئے نے بتایا ہے کہ انہوں نے مقامی پولیس کے ایک چاق و چوبند دستے کو باقاعدہ غلیل بازی کی تربیت دے کر اس تاریخی عمارت کے اطراف اور اندر تعینات کیا ہے، جو ان بندروں کو غلیلوں کی مدد سے نشانہ بناتے ہیں اور اس طرح سیاحوں کو محفوظ بناتے ہیں لیکن سکورٹی کمانڈر نے یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ ان بندروں کی تعداد اس قدر زیادہ ہے کہ سو سے زائد پولیس اہلکاروں کو تعینات کیا جانا ناکافی ہے، جبکہ متعدد سیاحوں نے شکوہ کیا ہے کہ پولیس اہلکار اس قدر ناقص تربیت یافتہ ہیں کہ بجائے بندروں کو غلیل سے نشانہ بنانے کے وہ ہمیں ہی نشانہ بنا کر غلہ (غلیل کا ایمونیشن) مار رہے ہیں، جس سے ہمیں تکلیف کا سامنا ہے۔ مرکزی حکومت کے تحت کام کرنے والی سیکورٹی فورس سی آئی ایس ایف کے ترجمان ہمندرا سنگھ نے اس سلسلہ میں اپنی بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے بتایا ہے کہ تاج محل میں سیاحوں کی آمد ان بندروں کیلئے زندگی کا پیغام ہے کیونکہ اطراف کے علاقوں اور جنگلات سے ہزاروں بندروں کا ریلا تاج محل میں اور اس کے اطراف کے علاقوں میں آگیا ہے اور وہ اپنی خوراک کے حصول کی خاطر یہاں آئے ہیں۔ دراصل آبادی میں مسلسل اضافہ کے بعد بندروں کیلئے نئی نسل کیلئے خوراک کا حصول مشکل ہوتا جا رہا ہے، اس لئے وہ بندر ٹولیوں کی شکل میں ہجرت کرکے تاج محل آرہے ہیں۔ واضح رہے کہ تاج محل کو دیکھنے کیلئے آنے والے ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کی تعداد 10 ہزار سے زائد ہے اور اس میں مقامی ہوں یا غیر مقامی تمام سیاحوں کے پاس کھانا اور پھل ضرور ہوتے ہیں جو ان بندروں کی تفریح اور پیٹ پوجا کا بنیادی ماخذ ہیں۔ ٭
Prev Post