ایس اے اعظمی
بھارت کی مودی سرکار نے روہنگیا پناہ گزینوں پر زمین تنگ کردی۔ حکومتی آشیرواد سے انتہاپسند ہندو تنظیموں نے جموں میں مقیم روہنگیا مسلمانوں کو نشانے پر رکھ لیا ہے۔ لوٹ مار، تشدد اور دھمکیوں سے گھبرا کر روہنگیا پناہ گزین جموں چھوڑنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ دوسری جانب بھارتی پولیس اور اس کے مخبروں کی لاٹری کھل گئی ہے۔ وہ روہنگیائوں کو ڈرا دھمکا کر بنگلہ دیش پہنچانے کا وعدہ کرکے ان سے رقم اینٹھ رہے ہیں اور پکڑ کر ریاست تری پورہ کی جیلوں میں پہنچانے لگے۔ بھارتی حکومت نے تصدیق کی ہے کہ روہنگیا خاندانوں کی خفیہ پولیس کی جانب سے انکوائری کرائی جارہی ہے اور ان کا ڈیٹا بیس بھی تیار کیا جارہا ہے۔ جبکہ انتہا پسند ہندوئوں کی جانب سے روہنگیائوں کو قتل اور جلا ڈالنے کی دھمکیاں بھی ان کو جموں سے ترک مکانی پر مجبور کررہی ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی جموں کے صدر راکیش بجرنگی نے دھمکی دی ہے کہ الیکشن 2019ء سے قبل ہی تمام روہنگیائوں کو جموں سے نکال دیا جائے اور میانمار کی سرحد کے اندر دھکیلا جائے، ورنہ وہ روہنگیائوں کا ’’علاج‘‘ خود ہی کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر سے شائع ہونے والے اخبارات نے بتایا ہے کہ شمال مشرقی جموں کے علاقے ’’نروال بالا ‘‘سمیت منسلک علاقوں سے روہنگیا خاندان اپنے کچے مکانات اور گھاس پھونس سے بنی جھونپڑیاں چھوڑ کرغائب ہورہے ہیں۔ میڈیا نمائندوں کو اس ضمن میں روہنگیائوں نے بتایا ہے کہ نقل مکانی کرنے والے خاندانوں کو خدشہ ہے کہ ان کو مودی سرکار جلد میانمار بھیجنے والی ہے اور اگر نہیں بھی بھیجا تو ہندو انتہاپسند تنظیمیں ان کو جان سے مار ڈالنے کی دھمکیوں پر عمل در آمد کرنا چاہتی ہیں۔ انڈین ایکسپریس نے بتایا ہے کہ جموں اور بھارت کے مختلف علاقوں میں موجود روہنگیائوں کو بنگلہ دیش پہنچانے کیلئے بھارتی انسانی اسمگلرز سرگرم ہوچکے ہیں۔ لیکن یہ اسمگلرز دراصل بھارتی پولیس کے مخبر ہیں جو ان روہنگیائوں سے فی کس دس ہزار روپے وصول کرکے ان کو تری پورہ پولیس کے حوالے کردیتے ہیں جو ان کو بھارت میں غیر قانونی داخلہ کے الزامات کے تحت گرفتار کر کر ے جیلوں میں بھر رہی ہے۔ گویا بھارتی پولیس روہنگیائوں سے رقم وصولی کے باوجود ان پر ظلم ڈھانے میں مصروف ہے۔ شمال مشرقی جموں میں موجود ایک روہنگیا پناہ گزین عبد الرحمان نے بتایا ہے کہ وہ لوگ چکی کے دو پاٹوں کے درمیان پھنس چکے ہیں۔ ایک جانب بھارتی حکومت ان کو ہر قیمت پر ملک بدر کرکے میانمار بھیجا چاہتی ہے تو دوسری جانب انتہا پسند ہندو ان کو کاٹ ڈالنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں جس سے روہنگیا انتہائی بے کسی کا شکار ہیں۔ ادھر سرحد پار بنگلہ دیش سے ملنے والی اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ بنگلہ دیشی حکومت نے اپنی بھارت سے ملنے والی سرحدوں پر سیکورٹی سخت کردی ہے اور کسی بھی روہنگیا کو بنگلہ دیش میں داخلہ کی اجازت نہیں دی جارہی ہے۔ گزشتہ ہفتے جب بھارتی سیکورٹی فورسز نے 200 روہنگیائوں کو زبردستی پکڑ کر تریپورہ سے ملنے والی سرحد عبور کرانے کی کوشش کی تھی تو بنگلہ دیش رائفلز نے اس کی سخت مزاحمت کی اور روہنگیائوں کو بنگلہ دیش میں گھسنے سے باز رکھا۔ نیو انڈین ایکسپریس کے مطابق حکومت سرکاری طور پر اس بات کا اقرار کرچکی ہے کہ اس کی جانب سے تمام ریاستوں کو روہنگیائوں کے درست اعداد و شمار اور ان کے فنگر پرنٹس لینے اور تمام معلومات کو ڈیجیٹل کرنے کے احکامات دیئے گئے ہیں۔ کیونکہ مودی سرکار تمام روہنگیائوں کو الیکشن 2019ء سے پہلے ملک بدر کرکے میانمار کو بھیجنا چاہتی ہے۔ مقبوضہ جموں کے صحافتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اب تک جموں میں درجنوں روہنگیا خاندانوں کے300 روہنگیائوں کی نقل مکانی کی تصدیق ہوچکی ہے جو آندھرا پردیش یا تری پورہ کی جانب روانہ ہوئے ہیں۔ ان روہنگیائوں کا خیال ہے کہ بھارت کی نسبت بنگلہ دیش ان کیلئے جائے پناہ ثابت ہوسکتا ہے۔ کیونکہ وہاں روہنگیائوں کیلئے پناہ گزین کیمپ قائم ہیں اور ان کو عالمی اور ترک امدادی اداروں کی جانب سے کھانا بھی دیا جاتا ہے۔ دکن کرونیکل نے بتایا ہے کہ جموں میں مقیم روہنگیا خاندانوں کو خدشہ ہے کہ اگلے مرحلے میں ان کو گرفتار کرکے میانمار بھیجا جائے گا، جس کیلئے میانمار حکومت اور بھارت سرکار کے درمیان ایک معاہدہ بھی کیا جاچکا ہے۔ اب تک اس معاہدے کے تحت 100روہنگیائوں کو میانمار حکومت کے حوالے کیا جاچکا ہے۔ ان روہنگیائوں کے بارے میں میانمار حکومت کا استدلال ہے کہ ان کو سیکورٹی اداروں کے حوالے کردیا گیا ہے جو ان کے بارے میں تحقیقات کررہے ہیں کہ کہیں ان کا تعلق روہنگیا جہادی تنظیموں سے تو نہیں رہا؟ اس سلسلہ میں رنگون سے شائع ہونے والے جریدے ایراوادی نے بتایا ہے کہ بھارت کی جانب سے حوالے کئے جانے والے تمام روہنگیائوں کی اسکروٹنی اور تفتیش کا عمل جاری ہے اور ان تمام کو حراستی مرکز میں رکھا گیا ہے۔